|

وقتِ اشاعت :   May 31 – 2018

 لاہور: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ عوام ٹیکس کا پیسہ وزیروں کی عیاشیوں کے لیے نہیں دیتے۔

سپریم کورٹ نے وزیراعلی پنجاب، وفاقی وزرا اور سرکاری افسران سے آج رات بارہ بجے تک لگژری گاڑیاں واپس لینے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ جسے بلٹ پروف گاڑی کی ضرورت ہے اپنی جیب سے خرید لے۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں  تین رکنی بنچ نے وزرا اور سرکاری افسروں کے بلااستحقاق لگژری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر عباس رضوی نے عدالت کے روبرو پیش ہوکر آگاہ کیا کہ مجموعی طور پر 105 گاڑیاں وفاقی حکومت اور کابینہ کے زیر استعمال ہیں، کوئی بھی افسر یا وزیر 1800 سی سی سے زائد گاڑی رکھنے کا اختیار نہیں رکھتا، مولانا فضل الرحمن کے پاس ایک لینڈ کروزر اور تین ڈبل کیبن گاڑیاں ہیں، وفاقی وزرا عابد شیر علی اور کامران مائیکل کے پاس مرسڈیز بینز گاڑیاں ہیں، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے پاس بلٹ پروف گاڑی ہے، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے پاس 4400 بلٹ پروف گاڑی ہے.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم نے کس اختیار کے تحت گاڑیاں خریدنے کی ہدایت کی، عوام ٹیکس کا پیسہ وزرا کی عیاشی کے لیے نہیں دیتے۔ چیف جسٹس نے سابق وفاقی وزیر زاہد حامد کو لگژری گاڑی کے استعمال پر وضاحت کے لیے آیندہ سماعت پر طلب کر لیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ استحقاق نہ رکھنے  والے دیگر وزرا اور افسران کو بھی طلب کیا جائے گا۔

عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب کو حکم دیا کہ پنجاب میں بغیر استحقاق والی ساری گاڑیاں آج رات 12 بجے تک ضبط کر لی جائیں اور قانون کے برعکس گاڑیاں خریدنے والے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے پیسے وصول کیے جائیں گے جبکہ معاملہ نیب کو بھی بھجوایا جا سکتا ہے۔

عدالت نے حکم دیا کہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف سے دو اضافی گاڑیاں واپس لی جائیں جبکہ کابینہ تحلیل ہوتے ہی رانا ثنااللہ اور دیگر سے بھی بلٹ پروف گاڑیاں واپس لی جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات میں سرکاری خرچ پر بلٹ پروف گاڑیاں چلانے کی اجازت نہیں دیں گے، اگر کسی کو بلٹ پروف گاڑی کی ضرورت ہے تو اپنی جیب سے خرید لے۔