بلوچستان میں صحافی، دانشور، ادیب، مصنف اور شاعروں کا قتل کا سلسلہ رک نہ سکا۔ انہیں بھرے بازار میں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، سرِعام قتل کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے تقریباً تمام اضلاع میں صحافی، دانشور، ادیب، مصنف اور شاعروں کے قتل کے واقعات رونما ہوچکے ہیں اور مزید ہورہے ہیں۔
Posts By: عزیز سنگھور
’’بولان‘‘ پنجاب کی روشنی
عزیز سنگھور بلوچستان کے تاریخی وادی ’’بولان‘‘ سے پنجاب کی معیشت چلتی ہے۔ پنجاب کی صنعتوں کا پہیہ صدیوں سے چل رہا ہے۔ بولان کے سنگلاخ پہاڑپنجاب کی فیکٹریوں اور بھٹوں کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔ بولان کے سینے میں دفن بلیک گولڈ یعنی کوئلہ نکالنے کا سلسلہ 1883ء سے شروع کیا گیا تھا۔ اس… Read more »
’’آواران‘‘ بلوچستان کا تورہ بورہ
ضلع آواران بلوچستان کے سورش زدہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ خطہ اپنے محل وقوع اور جغرافیائی حوالے سے افغانستان کے تورہ بورہ کے پہاڑی سلسلہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ اونچے اونچے پہاڑ اور سینکڑوں غاروں پر مشتمل تین سے زائد پہاڑی سلسلے یہاں واقع ہیں۔ جو آواران سے شروع ہوکر ضلع پنجگور، ضلع کیچ اور ضلع گوادر کے مختلف سمتوں میں جاملتے ہیں۔ سورگر پہاڑی سلسلہ اورناچ سے شروع ہوکر جھاؤ، ہنگول اور اورماڑہ تک چلا جاتا ہے۔ اسی طرح نال سے کوہ شاشان کا سلسلہ جھاؤ سے لیکر بحرہ بلوچ تک جاتا ہے۔
نوشکی کا نوحہ
بلوچستان کے ادیب، دانشور، مصنفین اور شاعروں کا شہر، نوشکی ایک بے چینی اور مایوسی کی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ ہرطرف ناامیدی منڈلا رہی ہے۔ حکومت اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ذریعہ معاش سے دور کررہی ہے۔ ان کی معاش پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے۔ ایک طرف نوشکی کا پانی بند کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد ہورہا ہے۔دوسری جانب نوشکی گزنلی زیرو پوائنٹ کو دو طرفہ تجارت کے مقصد سے عملی طور پر آپریٹ کرنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ۔جو حال ہی میں باڑ لگاکر سیل کردیاگیا ہے جس سے علاقے میں غربت و افلاس میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال میں نوشکی کی سرزمین سے جنم لینے والے شاعر، تاریخ دان اور مصنف میرگل خان نصیر کاکلام آج بھی موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔
“گولڈ سمڈ لائن”موت کی لکیر
برطانوی سامراج کی کھینچی ہوئی متنازعہ لکیر“بلوچستان گولڈ سمڈ لائن”میدان جنگ میں تبدیل ہوگئی۔ مشرقی (پاکستانی بلوچستان) اور مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) کو جبراً جدا (تقسیم) کرنے والی“گولڈ سمڈ لائن”کی بندش کی وجہ سے مکران سمیت پورے بلوچستان میں اشیا خورونوش اور تیل کی کمی کا بحران پیدا ہوگیا۔ جس کی وجہ سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ پنجگور سے لیکر گوادر تک عوام سراپا احتجاج ہیں۔ پرامن احتجاج پر تشدداحتجاج میں تبدیل ہوگیا۔ لوگوں نے سڑکوں اور شاہراہوں کو بلاک کردیا۔ بات پتھراؤاور جلاؤ گھیراؤ تک آگئی۔
بلوچ مرکزیت کا خاتمہ
بالآخر جنوبی بلوچستان کے قیام کا آغاز ہو ہی گیا۔ گزشتہ کئی عرصے سے بلوچستان میں دو صوبے بنانے کی تیاریوں کی اطلاع چل رہی تھی جس کو حتمی شکل دے دی گئی۔ اس سلسلے میں گوادر کو جنوبی بلوچستان کے دارالحکومت کا درجہ مل گیا۔ حکومت نے گوادر پورٹ اتھارٹی کے ریسٹ ہاؤس کو سول سیکرٹریٹ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیاہے۔ حکومت نے سول سیکرٹریٹ کی تزئین و آرائش کے لئے کروڑوں روپے مختص کئے ہیں اور اس پر باقاعدہ کام کا آغاز ہوچکا ہے۔جنوبی بلوچستان کے قیام کے سلسلے میں سرکاری طورپر ہمیشہ اس کی تردید کی گئی۔
چاغی کی چیخیں
ضلع چاغی دنیا کے امیر ترین خطوں میں سے ایک خطہ ہے۔ لیکن بدقسمتی یہاں کے باسی دنیا کے غریب ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کو پاؤں میں پہننے کے لئے چپل بھی میسرنہیں، پینے کے لئے صاف پانی نہیں، رہنے کے لئے چھت نہیں، علاج کے لئے اسپتال نہیں، پڑھنے کے لئے تعلیمی ادارے نہیں، زندہ رہنے کے لئے روزگار نہیں ہے۔ حکومتی رویے کی وجہ سے غریب عوام جسمانی اور اعصابی مسائل سے دوچار ہیں۔ پالیسی ساز ضلع کی زمین میں دفن معدنیات نکالنے کے لئے پالیسیاں تو مرتب کرتے ہیں ۔
بلوچستان میں دربدری کی زندگی
بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی کے عوام کی زندگی کو ریت کے ٹیلوں نے عذاب میں ڈال دیا ہے۔ شہر کے بیشتر علاقے ریت کے ٹیلوں کی زد میں ہیں۔ریت کے یہ ٹیلے متعدد مکانات، اسکول اور کھیل کے میدانوں کو نگل چکے ہیں جس کی وجہ سے سینکڑوں خاندان بے گھر ہوگئے ہیں جس کے بعد یہاں رہائش پذیر افراد بے چینی کی کیفیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لوگ اپنی چھتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ پسنی میں رہائش ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے جبکہ دوسری جانب بلوچستان حکومت کے متعلقہ ادارے اس اہم قدرتی آفت سے بچاؤ کے لئے لوگوں کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔
آرٹس کونسل میں آرٹ کی موت
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سندھ لٹریچر فیسٹیول میں بعنوان‘‘بلوچ تاریخ اور سیاست’’کے انعقاد پر پابندی عائد کردی گئی۔ سیشن کو عین موقع پر جبراً منسوخ کروادیاگیا۔ شایدوہ علم و ادب سے خوف کھاتے ہیں اور مکالمے و دلیل سے ڈر تے ہیں۔ حق اور سچ کی آواز کو جتنا دبانے کی کوشش کی جائے یہ اتنا ہی گونج اٹھتی ہے۔ اور وہ آواز آرٹس کونسل سے چند کلومیٹر فاصلے پر قائم باغ جناح میں گونجی۔ جہاں شرکاء نے مقررین کے ساتھ سیشن کا انعقاد کیا۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ بلوچ سیشن کہیں بھی ہوسکتا ہے بلوچ کے لئے سیشن رکھنے کے لئے پلیٹ فارم کی ضرورت نہیں ہے۔ 70 سالوں سے بلوچ سڑکوں پر دھرنا اور احتجاج کررہے ہیں اب بلوچ عادی ہوچکے ہیں۔ بغیر آڈیٹوریم کے بلوچ سیشن کا انعقاد کرواسکتے ہیں۔ اس کے لئے آڈیٹوریم کی ضرورت نہیں ہے۔
لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیموں کی بھرمار
ضلع لسبیلہ میں جعلی رہائشی اسکیموں کی بھرمارہوگئی ہے۔ مقامی افراد کی جدی پشتی اراضی پر قبضہ کرنے کاسلسلہ جاری ہے۔ بلڈر مافیا کو متعلقہ افسران کی سرپرستی حاصل ہے، ان کے مسلح افراد دن دھاڑے لوگوں کی اراضی پر گن پوائنٹ پر قبضہ کررہے ہیں۔ پیرکس روڈ، بھوانی، حب بائے پاس،ساکران روڈ سمیت دیگر علاقوں میں رہائشی اسکیموں نے ایک سونامی کی صورت اختیار کرلی ہے۔ جگہ جگہ سائن بورڈز آویزہ کردیئے گئے ہیں۔ لسبیلہ کے مقامی قبائل کی اراضی محفوظ نہیں ہیںجن میں سیاہ پاد، موٹک، گجر، منگیانی سمیت دیگرقبائل شامل ہیں۔