|

وقتِ اشاعت :   April 11 – 2021

بلوچستان کے ادیب، دانشور، مصنفین اور شاعروں کا شہر، نوشکی ایک بے چینی اور مایوسی کی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ ہرطرف ناامیدی منڈلا رہی ہے۔ حکومت اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ذریعہ معاش سے دور کررہی ہے۔ ان کی معاش پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے۔ ایک طرف نوشکی کا پانی بند کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد ہورہا ہے۔دوسری جانب نوشکی گزنلی زیرو پوائنٹ کو دو طرفہ تجارت کے مقصد سے عملی طور پر آپریٹ کرنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ۔جو حال ہی میں باڑ لگاکر سیل کردیاگیا ہے جس سے علاقے میں غربت و افلاس میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال میں نوشکی کی سرزمین سے جنم لینے والے شاعر، تاریخ دان اور مصنف میرگل خان نصیر کاکلام آج بھی موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔

کیسے مانوں کہ میرا دیس بھی آزاد ہوا
جب کہ ہے نشہ حکومت وہی ساز وہی
کیسے مانوں کہ یہ اجڑا چمن آباد ہوا
جب کہ ہے زاغ و زغن کا انداز وہی

نوشکی کی سرزمین نے بے شمار ادیب، شاعر، تاریخ دان، صحافی اور مصنف پیدا کئے ہیں جن میں میر گل خان نصیر، آزاد جمالدینی، عبداللہ جان جمالدینی، مولانا محمد افضل مینگل، گل محمد نوشکوی، امیر الملک مینگل، منیر احمد بادینی، یار جان بادینی اور دیگر شامل ہیں۔ یہ علاقہ علم و ادب کے حوالے سے آئیڈیل ہیلیکن موجودہ حکومت کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے نوشکی میں معاشی بحران پیدا ہورہا ہے جس سے لوگوں کا مستقبل تاریک اور حال پریشان نظر آتا ہے۔کوئٹہ شہر کو پانی کی فراہمی کے سلسلے میں زیر غور برج عزیز خان ڈیم کا منصوبہ نوشکی اور دیگر اضلاع کے عوام کے لئے ایک ایٹم بم سے زیادہ مہلک ثابت ہوگا۔

یہ منصوبہ 291 ڈالر کی لاگت سے بنے گا جو کوئٹہ شہر میں نئی ہاؤسنگ اسکیمز کی آباد کاری کے لئے پانی کا منصوبہ ہے۔ نوشکی کی صدیوں پرانی آبادی کا پانی روک کر نئی آنے والی آبادی کو پانی فراہم کرنا کہاں کا انصاف ہے؟برج عزیز خان ڈیم کی تعمیرسے ضلع نوشکی سمیت چاغی کی لا کھوں ایکٹر اراضی غیرآباد ہوگی اور زیر زمین پا نی کی سطح کم ہو گی اور نوشکی کی تا ریخی جھیل زنگی ناوڑبھی خشک ہوجائیگی۔یہ ایشیاء کی خوبصورت ترین جھیلوں میں شمار ہوتی ہے۔بارانی ندی نالوں کو بند کرکے برج عزیز خان ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔

یہ بارانی ندی اور نالے پورے علاقوں کو سیراب کرتے ہیں۔ان بارانی ندی نالوں سے یہاں زراعت کے شعبے کو کافی حد تک مدد ملتی ہے۔ زراعت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد ان ندی نالوں کے سہارے اپنی زرعی اراضی کو آباد کرتے ہیں۔پا ک افغان سر حدی پٹی پر واقع نو شکی کی دو یونین کونسل ڈاک اور انعام بوستان کے لوگوں کاذریعہ معاش زراعت اورگلہ با نی ہے۔ اگر ان کا پانی بندکردیاگیا تو علاقے میں بھوک و افلاس میں مزید اضافہ ہوگا اور لوگ نقل مکا نی پر مجبور ہوجائیں گے۔نوشکی میں ہر چار سال بعد قحط کی ایک لہر آتی ہے۔

نوشکی قحط زدہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ قحط کی وجہ سے مال مویشی مرجاتے ہیں۔ علاقے میں مختلف امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔ ڈاک اور انعام بو ستان ایک ریگستانی علاقہ ہے۔ جب علاقے میں قحط پڑتا ہے تو ریگستان ایک طوفان کی شکل اختیار کرلیتاہے اور پوری کی پوری آبادی ریت کی زد میں آجاتی ہے۔ متحدہ قبائل اور آل پارٹیز نوشکی کے رہنماؤں نے برج عزیز خان ڈیم کو متنازعہ منصوبہ قراردیتے ہوئے کہا کہ ڈیم کی تعمیر کے بارے حکومت کی عجلت نوشکی کے عوام کے مفادات کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت ڈیم کی تعمیر سے متعلق نوشکی کے عوام کی رائے ، تحفظات و خدشات کو سننے کی بجائے بزور طاقت ڈیم کی تعمیر چاہتی ہے۔

جو حکومت کی آمرانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ ڈیم کی وجہ سے پورا خطہ بنجر اور صحرا میں تبدیل ہوجائیگا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق صدیوں سے قدرتی نظام کے تحت نوشکی اور چاغی کے لاکھوں ایکڑ خشکابہ اراضیات کو سیراب کرنے کے اس نظام کو بند کرنے کی بجائے دونوں اضلاع کے عوام کو ریلیف دیا جائے مگر حکومت عوامی موقف سننے کی بجائے طاقت کے استعمال کو ترجیح دے رہی ہے۔ ویسے بھی پورا علاقہ گزشتہ بیس سال سے بدترین خشک سالی کا شکار ہے۔ قحط نے پنجے گاڑ دیئے ہیں دیہی علاقوں کے ہزاروں گھرانے ہجرت کر چکے ہیں۔

برج عزیز خان ڈیم کی تعمیر کے خلاف گزشتہ ادوار بلوچستان اسمبلی میں قرارداد بھی منظور ہوئی ہے لیکن موجودہ حکومت صوبائی اسمبلی کے فیصلے کا احترام بھی نہیں کرتی اور عوام دشمن موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ نوشکی اور چاغی کے عوام لاوارث نہیں جنھیں حکومت اپنی اقتدار کی خاطر لاوارث سمجھ کر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرے۔ضلع نوشکی کی آبادی دو لاکھ سے زائد ہے۔ ضلع کے ساتھ پاک افغان بارڈر سرحد بھی لگتا ہے جہاں بارڈر پر باڑ لگادی گئی ہے۔ ایک سو بیس کلومیٹر کی پٹی کو مکمل سیل کردیاگیا ہے۔

نو شکی کی دو نین کو نسل ڈاک اور انعام بو ستان جو سرحدی علاقے ہیں۔یہاں بارڈر پر منسلک کاروبار کرنے والے افراد سخت معاشی مسائل سے دوچار ہوگئے ہیں۔سرحد کے دونوں اطراف میں قدیمی قبائل آباد ہیں۔ جن میں بڑیچ، کانسی، رخشانی، مینگل، جمالدینی اور بادینی قبائل شامل ہیں۔ دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں ایک دوسرے کے رشتے دار رہتے ہیں۔ باڈر کو سیل کرنے کے بعد لوگوں کا نہ صرف کاروبار متاثر ہوگیا بلکہ شادی بیاہ اور دیگر سماجی سرگرمیاں بند ہوگئیں۔ باڑ کی وجہ سے بعض خاندانوں کی زرعی اراضی بھی تقسیم ہوگئی۔

زرعی اراضیات بھی باڑ لگنے سے افغانستان میں چلی گئیں۔ باڑ سے قبل نوشکی کے بعض قبائل افغانستان کی سرحدی پٹی پر زراعت سے اپنی گزر بسرکررہے تھے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ نوشکی گزنلی زیرو پوائنٹ کو دو طرفہ تجارت کے مقصد سے عملی طور پر آپریٹ کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں جس کی وجہ سے یہ علاقہ بہت بڑاخشکی کا پورٹ ثابت ہوسکتا ہے جس سے علاقے کی پسماندگی کسی حد تک کم ہوسکتی ہے۔اگرساتھ ساتھ سی پیک کو این 40 اور گزنلی نوشکی افغان بارڈر سے منسلک کیا جائے۔
نوشکی سول اسپتال میں ڈاکٹر وں کی شدید کمی ہے۔

ادویات عوام کو میسر نہیں ،سہولت نہ ہونے کی وجہ زچگی کے دوران خواتین اور بچوں کی اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ مریضوں کو مجبوری کے عالم میں علاج معالجہ کے لئے کوئٹہ جانا پڑتا ہے۔ اسپتال میں میڈیکل اسٹاف کی کمی کی سب سے بڑی وجہ یہاں اسٹاف کوارٹرز کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے انہیں رہائش کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔ یہاں اسٹاف کوارٹر کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت ہے۔نوشکی شہر میں 50 بیڈ اسپتال کی تعمیر کا کام بھی تعطل کا شکار ہے۔ چھ سال سے کام بند پڑا ہے۔ سماجی حلقوں نے نوشکی کیڈٹ کالج میں مقامی اسٹوڈنٹس کا کوٹہ بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاکہ علاقے میں ناخواندگی کا خاتمہ ہوسکے۔

سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی آف بلوچستان کی ایک کیمپس نوشکی میں قائم ہے۔ کیمپس میں صرف چار ڈیپارٹمنٹس ہیںجن میں اردو، اسلامیات، انگلش اور ایجوکیشن شامل ہیں لیکن دیگر ڈیپارٹمنٹس نہیں ہیں جن میں فزکس، کیمسٹری سمیت دیگر ڈیپارٹمنٹس وغیرہ شامل ہیں۔ 250 طالبات پڑھ رہی ہیں جبکہ ٹیچنگ اسٹاف کی بھی کمی ہے۔نوشکی میں ایک بوائز ڈگری اور ایک گرلز ڈگری کالج ہے جہاں مسائل کے انبار ہیں۔ سیاسی حلقوں کالجز میں اسٹاف سمیت دیگر سہولیات کا مطالبہ کیا۔
نوشکی میں سبزی منڈی کا منصوبہ بھی ایک ادھورا خواب بن گیا۔صرف ایک گیٹ نصب کیاگیا۔

اس کے بعد تعمیراتی کام کو روک دیاگیا۔یہ منصوبہ اس وقت شروع کیا گیا،جب نوشکی اور چاغی ایک ہی ضلع تھا ۔ 2004ء کے بعد نوشکی کو الگ اور چاغی کو الگ ضلعوں کا درجہ دیاگیا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے چاغی پروجیکٹ کے نام سے ایک فنڈ قائم کیا تھا جس کا مقصد تھا علاقے کے زمینداروں اور کسانوں کو ریلیف دینا تھا۔ اس پروجیکٹ کے تحت اربوں روپے جاری ہوئے لیکن یہ تمام تر فنڈز اور اسیکمیں کرپشن کی نذر ہوگئیں۔ واضح رہے کہ چاغی پروجیکٹ کا اعلان 28 مئی 1998 ء کو چاغی میں ایٹمی دھماکہ کے بعد کیاگیا تاکہ علاقے میں تابکاری کا خاتمہ ہوسکے اور لوگ معاشی اور اقتصادی طور پر خوشحال ہوسکیںلیکن تاحال مسئلہ جوں کا توں ہے۔

نوشکی میں ایک عوامی لاوا پک رہا ہے۔ یہ لاوا گزشتہ کئی سالوں سے حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے۔نوشکی میں پیدا ہونے والا شاعر، ادیب، تاریخ دان اور دانشور میر گل خان نصیر نے جابر حکمرانوں کے خلاف مظلوم عوام کو اٹھ کھڑے ہونے کے لئے کچھ یوں کہا:

بیا او بلوچ !
بیا او بلوچ!
گار کْرتگیں راہ آ وتی