اجتماعی شعور چل بسا، قوم کا چرواہا دنیا میں نہیں رہا۔
Posts By: عزیز سنگھور
بلوچ کا سستا خون
کراچی کی بلوچ آبادیوں کو پھر سے گینگ وار،منشیات فروش اور جرائم پیشہ افراد کے حوالے کردیا گیا ہے۔
بلوچ کا معاشی قتل
مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) سے مشرقی بلوچستان (پاکستانی بلوچستان) کوتجارت کی ممکنہ بندش سے عام بلوچ کا نہ صرف معاشی قتل ہوگا
عزت یا غیرت ہے کیا؟
پانچ ستمبر عورتوں کے لئے ایک سیاہ دن ثابت ہوتا جارہا ہے۔ اس روز عورتوں کو بے دردی سے قتل کرنے کے دو بڑے واقعات رونما ہوئے۔ پہلا واقعہ رواں سال پانچ ستمبر کو خیببر پختونخوا کے علاقے سوات جبکہ دوسرا پانچ ستمبر 2020 کو بلوچستان کے ضلع کیچ میں رونما ہواتھا۔ یہ واقعات غیرت کے نام پر سرانجام دیے گئے۔
بلوچستان کی ادھوری کہانی
اگر صوبوں میں زیادہ گھمبیر سیاسی صورتحال کس صوبے کی ہے س بات کا اندازہ موجودہ وفاقی نگران سیٹ اپ سے لگایا جاسکتا ہے۔
بلوچ طلبا کے لئے پنجاب نوگوایریا
بلوچ طلبا کے لئے پنجاب نوگوایریا بن چکا ہے۔ انہیں گرفتار کرلیا جاتاہے۔ ان پر دہشت گردی کے مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ انہیں ہاسٹلز سے لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ کوئی سننے والا نہیں ہے۔ سب کی زبان پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ہر سال دو یا تین دفعہ پنجاب… Read more »
بلوچستان میں کھاد کی مصنوعی قلت
بلوچستان میں یوریا کھاد کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے کھاد کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ دوسری جانب کھاد کی افغانستان اسمگلنگ کے انکشاف نے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑدیا۔ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں کھاد کی مصنوعی قلت کے خلاف دھرنے اور احتجاج پھوٹ پڑے ہیں۔ انتظامیہ نے احتجاج کو روکنے کے لئے بعض علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کردی ہے۔ سخت احتجاج کے بعد حکومتی ادارے حرکت میں آگئے۔
بلوچ معاشرے میں ارتقائی عمل
بلوچ سماج تیزی سے ارتقائی عمل سے گزررہا ہے۔ معاشرتی اور ثقافتی ارتقاء نے بلوچ سماج کو ایک اہم اور مثبت موڑ پر لاکر کھڑا کیا ہے جس سے بلوچ سماج کا ڈھانچہ جدید سائنسی بنیادوں پر استوار ہوگیا ہے جس کی وجہ سے جدید نیشنلزم کا ابھار ہوا۔ بلوچ سیاست میں خواتین کی بھرپور شرکت نے مزید روشن خیالی اور ترقی پسندانہ سوچ کو فروغ دیا۔
قدرتی آفات بھی دھندے کا سبب
ایک بار پھر بلوچستان قدرتی آفات کی زد میں آگیا۔ بیشتر اضلاع میں سیلابی صورتحال سے نظام زندگی مفلوج ہوگئی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سرکار کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کی کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں ہوتی ۔ سیلاب اور طوفان سے بچاؤ سے متعلق کوئی بھی حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی ، جس سے تباہ کاریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوجاتا ہے۔ خاندان کے خاندان سیلابی ریلے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ حکومتی ادارے قدرتی آفات کے تاک میں ہوتے ہیں۔ ہلاکتوں اور املاک کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جاتاہے۔
بلوچ کا امروز و مرگ
اسلام آباد کی سرکار بلوچستان کی معدنیات کا سودا کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ قانونی و آئینی طور پر محکمہ معدنیات ایک صوبائی معاملہ ہے۔ جس کا فیصلہ صرف بلوچستان حکومت کرسکتی ہے۔ وفاقی حکومت بلوچستان سے نکلنے والی معدنیات کسی بھی ملکی یا غیر ملکی کمپنی کے حوالے نہیں کرسکتی۔