کیا کہنے، محمود اچکزئی کے! دنیا میں ایسے”باکردار“ لوگ ڈھونڈے نہیں ملتے۔ہم کہاں، حضرت علامہ اقبال بھی یہ مصرعہ ”شکوہ“ میں ہی کہہ سکتے تھے:
Posts By: جلال نُورزئی
جام کمال کی اچھی طرز حکمرانی کا عہد
کہتے ہیں کہ کبھی شر سے بھی خیر برآمد ہوجاتا ہے ۔ جام کمال خان عالیانی کے صوبے کا وزیراعلیٰ بننے کو اسی تناظر میں دیکھتا ہوں ۔ بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اگرچہ مقتدرہ کی چادر اُوڑھے ہوئے ہیں لیکن ان کی شہرت اچھے انسان اور سیاستدان کی ہے ۔ ا چھی صفات کے حامل ہیں۔
افغان استقلال
افغانستان کے امیر حبیب اللہ کے پُر اسرار قتل کے بعد خاندان میں اقتدار کی مختصر رسہ کشی ہوئی ۔نئے امیر کی تاج پوشی کابل کی عید گاہ میں ہوئی ۔ ہزاروں کا مجمع موجود تھا۔حبیب اللہ خان کے بیٹے امان اللہ خان شور بازار کے شاہ آغا کے ہمراہ آئے ۔
جے یو آئی (ف) ہو شیار باش۔۔
بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام ف کے اندر اختلافات آنے والے عام انتخابات پر بری طرح اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ یہ انتخاب متحدہ مجلس عمل کے تحت لڑا جارہا ہے ۔ بلوچستان میں جے یو آئی ف بڑی مذہبی جماعت ہے۔ ایک قوی پارلیمانی حیثیت کی حامل رہی ہے۔
افغانستان کی داخلی استقامت
افغانستان میں قومی و ملی استقلال کی جنگ ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے ۔ جسے آزادی و حریت کی تحریکوں کے مطالعہ و مشاہدہ کا شوق ہو وہ عالمی طاقتوں اور جدید ترین جنگی و حربی اوزاروں کے مقابل حریت و حمیت کے پیکر افغانوں کی طرف دیکھیں کہ جنہوں نے جنگ آزادی کی ایک نئی اور ولولہ انگیز تاریخ رقم کردی ہے۔ قابض امریکہ سترہ سالوں سے انہیں مات دینے کی خاطر ہر حربہ استعمال کرچکا ہے، مگر مزاحمت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے ۔
نگران وزیر اعلیٰ ۔۔بلوچستان پر ایک اور کرم نوازی !
بلوچستا ن کے نگران وزیر اعلیٰ کا تقرر ہو ہی گیا ۔ گویا علاؤ الدین مری نامی شخص کو نگران وزیر اعلیٰ کا منصب دے کر بلوچستان پر ایک اور مہربانی و کرم نوازی کر لی گئی !۔ یہ شخص مستونگ ضلع کا رہائشی ہے ۔ والد بیوروکریٹ تھے خود کاروبار کرتے ہیں۔گاڑیوں کا بزنس بھی ہے ۔افغانستان سے سمگل کی گئی گاڑیوں کی خریدو فروخت بھی کرتے تھے یا شاید اب بھی کرتے ہیں ۔ایران سے سمگل شدہ پیٹرول کا بیوپاری بھی رہا ہے ۔
جام کمال۔۔۔۔ نئی جماعت ‘‘باپ’‘ کے صدر
بلوچستان کے اندر ابن الوقت سیاست دانوں کی کوئی کمی نہیں، جن کی نظریں خالصتاً اقتدار اور مفادات پر جمی رہتی ہیں۔ بدعہدی، دغا اور چال بازیوں کو سیاست، جمہوری اصول اور روایات کا نام دیا جاتا ہے۔
قائدِ حزب اختلاف کی کشمکش
یہ سال2013ء کے مہینے مارچ کی20 تاریخ تھی۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے احاطہ میں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کا جَمگھٹا تھا ۔جمعیت علماء اسلام، پشتونخوامیپ، نیشنل پارٹی کے لوگ موجود تھے۔ نوابزادہ طارق مگسی، شیخ جعفر خان مندوخیل ،اسلم بھوتانی ،مولانا عبدالواسع اور اس وقت کے بلوچستان اسمبلی میں اسپیکر سید مطیع اللہ آغا بھی حاضر تھے۔
سانحہ قندوز
افغانستان گزشتہ سترہ سالوں سے امریکی افواج کے پنجہ استبداد میں ہے ۔ افغانوں کی آزادی اور خود مختاری سلب ہے ۔
لانگ مارچ کی دھمکی
تین مارچ کے سینیٹ انتخابات میں بلوچستان سے آنے والا نتیجہ غیر متوقع ہرگز نہ تھا، بلکہ طے شدہ اور یقینی تھا۔ یقیناًچیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بلوچستان کے میر صادق سنجرانی کی کامیابی بھی سیاست کی بازی گری کا کمال تھا۔