ریاست جان بوجھ کر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کو طول دے کر دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ بلوچ آزادی نہیں بلکہ مملکتِ خداد سے انصاف چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں پسِ پردہ بلوچ جلاوطن رہنمائوں نے راہیں ہموار کیں تو ریاست نے یہ چال چل دی۔ ریاستی اداروں نے بالاچ بلوچ کو شہید کرکے بلوچ قوم کے جذبات کو ابھارا۔ بلوچ کو اس قدر مجبور کیا کہ وہ تربت تا کوئٹہ سب سے پْر ہجوم لانگ مارچ کیا
Posts By: نصیر بلوچ
ریکوڈک خفیہ ڈیل پر سیاسی ہلچل
بالآخر حکومت نے مشکل فیصلہ کر ہی لیا۔ حکومت کی طرف سے دانستہ یا نادانستہ طور پر کیا گیا ریکوڈک خفیہ معاہدہ حکومت کے گلے پڑگئی ہے۔ سینٹ اراکین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سینیٹ کو بلڈوز کرکے ریکوڈک قانون ساز بل منظور کروایاگیا۔ جے یو آئی اوربی این پی کو اعتماد میں لئے بغیر حکومت نے یہ اہم قانون سازی کی ہے۔ اس اہم قانون سازی کے بعد سے ایک سیاسی ہلچل شروع ہوگئی ہے۔ اخترمینگل نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت نے ہمیں اعتماد میں لینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اخترمینگل نے مزید کہا کہ وہ حکومت سے علیحدگی پر غور کریں گے یعنی ملک میں سیاسی عدم استحکام آسکتا ہے۔
ملکی میڈیا پر بلوچستان کا بلیک آئوٹ!
لسبیلہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبا کے خلاف من گھڑت ایف آئی آردرج کراکے اپنی آمرانہ رویوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ طلبا گزشتہ تین روز سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں تاحال یونیورسٹی سمیت لسبیلہ انتظامیہ کی طرف سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ خبر نہ تو کسی میڈیا پر آئی ہے اور نہ ہی کسی معروف صحافی نے اسے رپورٹ کرنے کی زحمت کی ہے۔ اگر یوں ہی مسائل کو دباتے رہیں تو انکے نتائج بھیانک شکل میں نکل سکتے ہیں۔ لسبیلہ انتظامیہ اس مسئلے پر بات تک کرنے کو تیار نہیں جیسے ان کے نظر میں یہ ایک معمولی مسئلہ ہے۔ طلبا کی زندگیاں دائو پر لگا کر یونیورسٹی انتظامیہ جس بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے اس پر حکومت وقت کو نوٹس لینا چاہئے لیکن ابھی تک حکومت کو شایداس کا علم ہی نہیں۔ آخر کب تک بلوچ طلبا کے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا۔
بلوچستان کی سیاست میں ایک نیا موڑ
معتبر ذرائع کے مطابق جام کمال خان جلد یا بدیر پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرنے والے ہیں۔ اگر وہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو سیاست کے مایہ ناز بادشاہ آصف علی زرداری آنے والے وقت میں کسی بھی طرح جام کمال خان کو دوبارہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے منصب پر فائز کرنے کی جی توڑ کوشش کریں گے۔ ن لیگ کا خیال ہے کہ اگر بلوچستان کے حالات سدھارنے ہیں تو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو دوبارہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی کرسی پر براجمان کرنا پڑے گا۔ معلوم نہیں کہ بلوچستان کے حالات کو لے کر ن لیگ کی نیت کتنی شفاف ہے لیکن شنید میں آیا ہے کہ بڑے میاں نواز شریف نے وزیراعظم شہباز شریف کو بلوچستان پر خاص توجہ دینے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو بڑی ہوشیاری سے جام کمال خان کی سیاسی ساکھ کو ختم کئے جارہا ہے اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ حب چوکی کو الگ ضلع بنانے میں عبدالقدوس بزنجو کا اہم کردار رہا ہے۔ یہ کام انہوں نے ذاتی دلچسپی سے کی ہے چونکہ حب چوکی کو الگ ضلع بنانے سے جام کمال خان اکثریت سے محروم ہوجائیں گے۔ جام کمال خان کی سیاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا یہ ایک واحد حل تھا۔ اگر بلوچستان ہائیکورٹ کا فیصلہ الگ ضلع کی منظوری کے حق میں آیا تو اس اقدام سے تمام تر فائدہ بھوتانی برادرز کو ہوگا۔
آفت پر سیاست کا فن
روم جل رہا تھا اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا۔ روم کے شہنشاہ نیرو کے بارے میں یہ ضرب المثل مشہور ہے۔ روم کو آگ لگانے کا الزام بھی نیرو کو ہی دیا جاتا ہے اور یہ کہ اس نے ایسا جان بوجھ کر کیا تھا۔ نیرو کو تاریخ کے ایک ایسے سفاک حکمران کے طور پر جانا جاتا ہے جس نے اپنی ماں، سوتیلے بھائی اور بیویوں کو قتل کرایا۔
ڈوبتا بلوچستان اور پاکستانی میڈیا
بلوچستان کی 80 فیصد آبادی سیلاب کی زد میں آچکی ہے لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبورہیں۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی 80 فیصد آبادی اس سیلاب سے متاثر ہوچکی ہے اور لوگ بے یار مدد گار پڑے ہوئے ہیں۔ حکومتی اقدامات متاثرین کو ابھی تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ تھی الجزیرہ رپورٹ جبکہ جیو نیوز کی 60 سیکنڈ کی رپورٹ کچھ یوں ہے سندھ اور بلوچستان بھی سیلابی ریلیوں سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں حکومت امدادی ٹیمیں متاثرین کی بروقت امداد میں مصروف۔ نہ حقائق واضح ہیں اور نہ ہی رپورٹ بذاتِ خود رپورٹنگ کے لئے متاثرہ علاقوں میں بھیجے گئے ہیں جہاں سے وہ زمینی حقائق دیکھ سکتے بالکل اپنے کیمرے سے ،وہ حقائق دنیا اور ہمارے بے حس حکمرانوں کو دکھاتے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ مناسب ہے کہ کیا ہمارے نام نہاد میڈیا مالکان اور رپورٹرز اس سیلابی بارشوں کے تباہی کے مناظر سوشل میڈیا میں نہیں دیکھتے یا انکے نظروں سے نہیں گزرے ہوں گے؟ یقیناً جواب ہاں میں ہوگا۔ تو پھر کیوں وہ ان حقائق کو سکرین پر نہیں دکھاتے۔
گم شدہ جمہوریت
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جسے آسان الفاظ میں عوام کی حکومت کہی جا سکتی ہے۔ آمریت کے برعکس اس طرز حکمرانی میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ جمہوریت کی دو بڑی قسمیں ہیں: بلا واسطہ جمہوریت اور بالواسطہ جمہوریت۔ بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غور و فکر کرنا ممکن ہو۔
حکومت مظلوم بلوچوں کی آہ کب سنے گی؟
ظلم کی مزاحمت انسان ہی نہیں ہر جاندار کی فطرت کا حصہ ہے۔ معمولی چیونٹی کو بھی تکلیف پہنچانے، ہلاک کرنے یاراستے سے ہٹانے کی کوشش کی جائے تو وہ مزاحمت کرتی ہے۔ افراد کی طرح قوموں کی بقا کا انحصار بھی مظالم کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ ہر ظالم مظلوموں سے مکمل خود سپردگی کا تقاضا کرتا ہے اور اْس سے کم پر راضی نہیں ہوتا۔ لیکن ظلم و سفاکیت کے مقابلہ میں خود سپردگی کا رویہ اختیار کرنے والی قوم کا مقدر یہی ہوتا ہے
لاوارث بلوچستان
عام فکری مغالطہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ دنیاکے نامور مورخین اور فلاسفر اس بات پر اختلاف رائے رکھتے ہیں لیکن یہ بات کافی حد تک درست ثابت ہوئی ہے۔ بلوچستان کے حالات تو سو فیصد تاریخ کی عکاسی کشی کرتے ہیں۔ تاریخ کے اورق پلٹئے، آپکو بلوچستان میں برطانوی سامراج کی طرزِ حکومت آج بھی رائج ملے گی۔
بلوچ قومی جدوجہد میں لیڈرشپ کا مسئلہ
نظریاتی تعریف کے مطابق، قیادت ایک فرد یا افراد کے ایک گروہ کی وہ اہلیت ہے جو انہیں عوام کو متاثر کرنے اور ان کے تجویز کردہ راستے کو درست سمجھنے پر آمادہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ سیاسی قیادت کو عمومی طور پر ایک پسندیدہ خصوصیت سمجھا جاتا ہے، ماسوائے اس صورت کے کہ… Read more »