مجھے نہیں معلوم کہ جو قدیم شاعری ہم تک پہنچی ہے یا تاریخ کی جو کتابیں ہم پڑھتے ہے کس حد تک مستند ہے۔میں یہ سْوچ کر حیران ہوجاتا ہوں کہ اکیسویں صدی میں جب میڈیا اور سْوچ کی آزادی اپنے عروج پر پہنچ چکاہے اس کے باوجود کوئی بھی تجزیہ نگار اور مصنف مکمل… Read more »
Posts By: زہیر مشتاک
” میری کے گرتی ہوئی دیواروں کی گونج “
شدید سرد رات میں کیچ کی گوریچ اپنے زوروں سے چل رہی تھی کجھور کے درختوں کی آوازیں بند کمروں میں بھی لوگوں کی نیند خراب کررہی تھی، تربت قلعے کی برج پر مکران لیوی کور کے دو سپائی موٹے چادر اھوڈے برج کی دیوار کے ساتھ لپٹے ہوئے پہرہ دے رہے تھے ،
” میری کے گرتی ہوئی دیواروں کی گونج “(ساتویں قسط)
کمبر تیزی سے سفر کرتے ہوئے سامی پہنچ گیا ،قلعے کے قریب بہت رش کش تھا ، طویل سفر کی وجہ سے کمبر کی مشکیزے کے پانی ختم ہوچکے تھے ، مشکیزہ بھرنے کے لیے کجھوروں کے باغ میں گیا وہاں کچھ خادم کام کررہے تھے ، کمبر نے خادموں سے سلام و دعا کرکے… Read more »
” میری کے گرتی ہوئی دیواروں کی گونج ” (چھٹی قسط)
مہمان خانے میں کمبر آگ کے قریب بستر پہ لیٹا کبھی مکران کی بغاوت کے بارے میں سوچتا تھا کھبی ماہ گنج اور بلوچ خان کو یاد کرتا تھا ، شادی کے بعد پہلی بار کمبر ماہ گنج سے الگ ہوا تھا ، جب ماہ گنج ہفتوں بعد کچھ وقت کے لیے اپنے ماں کی… Read more »
” میری کے گرتی ہوئی دیواروں کی گونج “
کمبر اور ماہ گنج ہر گزرتے دن ایک دوسرے کے مزید دیوانے ہوتے جارہے تھے ، کمبر اپنے والد کے ساتھ باغوں میں ہاتھ بٹھاتا تھا میری اور بلوچ سیاست پر مسلسل گہرا نظر بھی رکھا ہوا تھا ، شادی کے بعد انگریزوں کے خلاف لڑنے کے کمبر کی جنون ختم نہیں ہوا تھا لیکن مسلع مزاحمت کے لیے کوہی مناسب موقع نہیں مل رہا تھا ، وہ دن بھی آ گیا کہ ماہ گنج نے ایک بچے کو جنم دیا ، کمبر کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ، نام رکھنے والے دن گھر میں اجلاس ہوا سمندر خان نے مشورہ دیا کہ نصیر خان رکھ دو ، ماہ گنج نے کہا کہ مجھے چاکر نام بہت پسند ہے ،
میری کے گرتی ہوئی دیواروں کی گونج (چوتھی قسط)
رات کے وقت سمندر خان اور جان بی بی گھر میں بیٹھے تھے دروازے پہ دستک ہوئی ، سمندر خان نے دروازہ کھولا کمبر کھڑا تھا ، کمبر کو دیکھتے ہی سمندر خان کی آنسو نکل گئے اور شدت جزبات میں کمبر کو گلے لگاکر اندر لائے ، جان بی بی نے کمبر کی سر کو چھومنا شروع کردیا خود کو دعائیں دیتی رہی اور روتی رہی ، رات دیر تک جان بی بی کمبر سے باتیں کرتی رہی لیکن کمبر بالکل خاموش گم سم بیٹھا تھا
” میری کے گرتی ہوئی دیواروں کی گونج ” (تیسری قسط)
گوہر خان اور کمبر نے درہ سوہندہ میں مورچہ بندی کرکے پسند خان اور انگریزی فوج کی انتظار کرنے لگے ، کمبر درہ کے آس پاس کی جائزہ لینے کے لیے کمیپ سے نکل کر ایک تلار سے ہوتا ہوا پہاڑوں کے اندر چلاگیا ، اسے ایک گدان نظر آیا ، کمبر گدان کے قریب… Read more »
” میری کی گرتی ہوئی دیواروں کی گونج ” ( دوسری قسط)
گوہر خان ، کمبر اور یوسف میر گٹ کی چوٹی پہ بیٹھے مشاورت کررہے تھے ، کمبر نے گوہر خان سے کہا کہ اپ کو نورگامہ کے قمبرانیوں سے مدد حاصل کرنا چائیے ان کے مالی حالت بہت بہتر ہے ، گوہر خان نے کہا کہ میں نے تمام سرداروں کو جنگ میں شامل ہونے کی دعوت دیا تھا لیکن چند سرداروں کے سوا کسی نے بھی شرکت نہیں کیا، بعد میں یہ بھی ساتھ چھوڈ کر فرار ہوگئے ،
” میری کے گرتی ہوئی دیواروں کی گونج “
سردیوں کا موسم اپنے شدت گزارنے کے بعد بھی قلات میں خون جمارہا تھا، خان خدائیداد خان کی گرفتاری کی وجہ سے قلات اور میری کا ماحول اداس اور سوگوار تھا ،