|

وقتِ اشاعت :   April 14 – 2024

مہمان خانے میں کمبر آگ کے قریب بستر پہ لیٹا کبھی مکران کی بغاوت کے بارے میں سوچتا تھا کھبی ماہ گنج اور بلوچ خان کو یاد کرتا تھا ، شادی کے بعد پہلی بار کمبر ماہ گنج سے الگ ہوا تھا ، جب ماہ گنج ہفتوں بعد کچھ وقت کے لیے اپنے ماں کی گھر جاتی تھی تو کمبر بے چین ہوکر اسے جاکر فورا واپس لاتا تھا ، سفر کے تھکن کی وجہ سے سوچتے سوچتے کمبر کی آنکھ لگ گیا اور گہرے نہیند میں چلا گیا ، صبح اٹھر کر کمرے سے نکلا قلعے کی مسجد سے لوگ نماز پڑھ کر باہر نکل رہے تھے ، کمبر نے چاروں طرف دیکھا ہر طرف پتھریلے زمین تھے نہ کوہی درخت نہ فصل نہ ندی ، اسے یاد آیا کہ سمندر خان نے بتایا تھا کہ خدائیداد خان نے داروغہ عطاء محمد کی کمان میں خاران پر حملے کے لیے جو فوج بھیجا تھا اس میں سمندر خان بھی شامل تھا ، سمندر خان نے بتایا تھا کہ کس طرح قلعے کی مغربی برج سے بی بی مہناز نے خان کی فوج پہ حملے کیے تھے اور بلوچ خان نوشیروانی کی رات کے وقت قلعے سے نکل کر خطرناک حملوں کی داستان بھی سنایا تھا ، کمبر نے چادر اھوڈ کر ٹہل قدمی کرتے ہوئے قلعے کی مغربی برج کے قریب پہنچ گیا جہاں سے بی بی مہناز نے مزاحمت کی تھی ، برج کو دیکھ کر کمبر تاریخ میں چلاگیا سارے منظر اس کی آنکھوں کے سامنے تھا ، سوچتے سوچتے کمبر تاریخ کے اس مقام پہ پہنچ گیا جب خان محراب خان کی شہادت کے بعد نصیر خان دوئم سردار آزاد خان کے پاس پناہ لینے آیا تھا آزاد خان نے بلوچی ننگ داری کا مظاہرہ کرکے نصیر خان کو پناہ دیا تھا اور بی بی مہناز کی رشتہ بھی دیا تھا ، کمبر نے پلٹ کر شمالی طرف راسکوہ کی پہاڑوں کو دیکھا جہاں پناہ کے وقت نصیر خان کو آزاد خان نے ٹھہرایا تھا ، کمبر واپس مہمان خانے کی طرف روانہ ہوا اس نے سوچا کہ نصیر خان دوئم کے ساتھ آزاد خان نے اتنا مدد کیا میری کو انگریزوں کی قبضے سے آزاد کیا بدلے میں خدائیداد خان نے آزاد خان اور خاران پر لشکر کشی کیا ، کمبر کو یاد ہے کہ سمندر خان نے بتایا تھا کہ آزاد خان کی قلعے کی محاصرے دوران جس دن داروغہ عطاء￿ محمد نے راسکوہ پر حملہ کرنے کے لیے سپائیوں کو بھیجا تھا اس وقت سمندر خان نے بہت منت سماجت کیا کہ جن پہاڑوں اور ان کے لوگوں نے نصیرخان کو پناہ دیے تھے ان پر لشکر کشی مت کرو لیکن داروغہ نے راسکوہ پر حملہ کرکے بہت سے لوگوں کو قتل اور گرفتار کیے تھے ، کمبر مہمان خانے میں پہنچا سپائی نے کہا کہ سردار آپ کا انتظار کررہا ہے ، نوروز خان سے مل کر کمبر کو وہ روحانی تاثر نہیں ملا جو اس کے ذہین میں بچپن سے آزاد خان کے لیے تھا ، بلوچی سلام و دعا کے بعد کمبر نے نوروز خان کے ساتھ ناشتہ کیا ، اور بتایا کہ تجارت کے لیے مکران جارہا ہے ، کمبر نے کہا کہ جھالاوان اور ساراوان ہمیشہ سے خانہ جنگی کی آگ میں جلتے آرہے ہیں ان کے نسبت خاران پرامن علاقہ رہا ہے ، نوروز خان نے کہا کہ خاران میں بھی محدود سطع کی خانہ جنگی ہوئے ہے بڑے جنگ صرف چار بار ہوئے ہیں تین باہر سے حملے ہوئے ایک اندرونی خانہ جنگی ہوا ہے ، باہر سے منگلوں کی حملے ، نادرشاہ افشار کی حملے ، خان خدائیداد خان کی حملہ ہوا تھا ، اندرونی جنگ عباس خان سوئم کے زمانے میں ہوا جو تاگزی کے جنگ سے مشور ہے ، کمبر نے کہا سنا ہے مکران کے حالات خراب ہوچکے ہے ، نوروز خان نے سنجیدہ ہوکر کہا کہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے خدا کرے کہ افہام و تفہم سے حل ہوجائے ورنہ ہمارے لیے بہت سخت امتحان ہوگا ہم انگریزوں کو ناراض بھی نہیں کرسکتے اور مکران میں اپنے رشتہ داروں سے لڑ بھی نہیں سکتے ، انگریز ہم سے ضرور مالی اور عسکری مدد کی درخواست کرینگے ، کمبر نے کہا کہ بلوچ خاں بھی انگریزوں سے ناراض ہے اس نے خدائیداد خان کی خاران پر حملے کے وقت سردار آزاد خان کی بہت مدد کیا تھا اور آزاد خان کی جلاوطنی کے وقت قلعے کو بھی سنھبالا تھا ، نوروز خان نے کہا کہ میرا دادا عباس خان اور بلوچ کی دادا للہ خان بھائی ہے ، لیکن ہمارے لیے بہت بڑا آزمائش ہے ہم انگریزوں سے بغاوت کی حالت میں بھی نہیں ہے ، کمبر نے پوچھا کہ قلات کے موجودہ حالات کے حوالے سے آپ کی کیا خیال ہے ، نوروز خان نے جو ٹیک لگائے بیٹھا تھا سیدھا ہوکر بیٹھ کر کہا میری کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے ملک دوستین نوشیروانی نے خاران سے لشکر جمع کرکے میروانی جدگال جنگ میں بجار میروانی کا ساتھ دیا تھا اور بجار کی لشکر کا سپہ سالار بھی ملک دوستین تھا جنگ میں ملک دوستین کا بیٹا ملک دینار شہید ہوگیا تھا ، لیکن فتح کے بعد بجار میروانی نے خاران کو اپنے برادری کے دو افراد ملک شاہ بیگ قمبرانی اور ملک آلہ میروانی پہ تقسیم کرکے ہمارے سینے پہ خنجر گھونپ دیا واشک کا علاقہ ملک آلہ کو دے دیا گواش کے بوپے ریک سے مشرق میں قلات تک ملک شاہ بیگ کے حوالے کیے تھے ، قمبرانیوں اور آلہ زیوں نے قدیم مقامی بلوچوں کوئی سیاہ پاد ، کبدانی ، مموجہ ، تگاپی کو اتحادی بناکر ہمارے جڑوں کو کھوکلا کرتے رہے ، صدیوں تک خاران دو کیمپوں میں تقسیم رہے تاگزی کے جنگ میں مخالفین کی شکست سے یہ مسائل حل ہوگئے ، آحمدزیوں کے تخت نشین ہونے کے بعد ابراہیم خان نوشیرونی نے خان آحمد خان کے لیے باروزئیوں سے لڑتے ہوئے قربانی دیا تھا ، جب بعد میں رحمت خان کی افغانستان سے اچھے سفارت کاری کے بدلے میں حاکم قندھار شاہ حسین غلزی نے نوشیروانی سرداروں کو سند دے کر حاکم خاران تسلیم کرلیے تھے اور پھر شہنشاہ ایران نادرشاہ افشار نے بھی پردل خان کو حاکم خاران تسلیم کیا تھا لیکن خوانین قلات نے ہمیں تسلیم نہیں کیا ، خان قلات جو خود افغانستان کی طرف سے قلات کا والی تھا لیکن ہمارے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ، ایک بہت بڑا غلطی شہداد خان نوشیروانی سے ہوا تھا کہ اس نے قلات پر ابدالی کی حملے کے وقت ابدالی کا ساتھ دیا تھا ، قلات اور ہمارے درمیان طاقت کی یہ کشمکش چلتا رہا ماضی میں جب کبھی خوانین قلات کمزور ہوے ہے ہم نے اپنے خودمختیاری کا اعلان کیا ہے لیکن اب انگریزوں کی آمد کے بعد یہ صدیوں کا کشمکش ختم ہوچکا ہے، لیکن خدائیداد خان گرفتاری اور قلات کی موجودہ بحرانی حالت سے ہم بہت فکر مند ہے ، کمبر نے جواب دیا کہ خان قلات افغانستان کا والی نہیں تھا البتہ ماضی میں اس غلط فہمی میں افغان حاکم رہے ہیں لیکن نصیرخان اور ابدالی کے درمیان معاہدے کے بعد افغانستان کی مداخلت ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا تھا ، خیر یہ سارے ماضی کی باتیں ہے اور اب ہمیں مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا ہوگا کیونکہ آنگریزوں کے آنے کے بعد اس خطے کی قدیم سلطنتں ہندوستان ، افغانستان اور ایران ختم ہوچکے ہیں اور سلطنت عثمانیہ آخری سانسیں لے رہی ہے ، آنگریز اپنے ساتھ جدید سائنسی تعلیم اور نیا حکومتی نظام بھی لائے ہے انگریزوں کی جانے کے بعد ایک نیا دنیا وجود میں ائے گا ، نئے دنیا میں وہی قوموں کی وجود برقرار رہے گا جس میں نئے دنیا میں زندہ رہنے کی تمام اہلیت موجود ہو ، خان قلات سمیت قدیم سلطنتیں ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائینگے لیکن میری اور بلوچ ریاست کی وجود کو بچانا ہمارا قومی فرض ہے ، میں صرف قلات کی شاہی محل کو میری نہیں سمجھتا ہوں میری بلوچوں کی پایہ تخت کا نام ہے ، انگریزوں کی جانے کے بعد آگر راسکوہ بلوچوں کا پایہ تخت ہوا تو راسکوہ ہمارا میری ہوگا ، دو سال بعد نیا صدی آنے والا ہے نئے صدی میں سردار ، قبائل کی کوئی حثیت نہیں ہوگا ، جو قومیں قباہل اور چھوٹے چھوٹے ریاستوں میں تقسیم ہونگے وہ مٹ جائینگے یا نئے وجود میں آنے والے قوتوں کے غلام بن جائینگے ، اگر ہم چائتے ہیں کہ آنے والے دور میں بلوچ قوم کی وجود قائم رہے تو ہمیں دنیا کے مطابق چلنا ہوگا اس کے لیے ہمیں دو اہم فیصلے کرنے ہونگے ، پہلا یہ کہ ہمیں علاقوں اور قبائل سے نکل کر قوم تشکیل دینا ہوگا دریائے سندھ سے لے کر کوہ البرز تک آباد ہر وہ شخص جس کا تاریخ ، ثقافت ، زبان بلوچ اور بلوچستان سے وابستہ ہیں وہ بلوچ ہے اور سب کو برابری کی بنیاد پہ تسلیم کرنا ہوگا ، دوسرا اہم فیصلہ مزاحمت کی ہے ہمیں اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے مسلع مزاحمت کرنا ہوگا، ماضی میں جو مزاحمت ہم نے ایران اور افغانستان کیخلاف کیے تھے ان سے الگ طرز کی حکمت عملی بنانا ہوگا ہمیں مزاحمت کے لیے انگریزوں کی فطرت کو سمجھنا ہوگا انگریزوں کی فطرت افغانستان اور ایران سے الگ ہے یہ مکار اور چالاک ہے ان کا نہ کوہی زبان ہے نہ قول قرار جب بھی یہ کمزور پڑجائے معاہدہ کرتے ہے اور موقع ملتے ہی معاہدے پھاڑ کر حملہ کردیتے ہے ، یہ اپنے دشمن کو افواوں سے خوفزدہ کرتے ہے تاکہ کوہی سر نہ اٹھاسکے ، مکران کی بغاوت اس وقت بہت اہم ہے مسقط کی مدد سے یہ کامیاب ہوسکتا ہے ،۔ آپ آزاد خان کی فرزند ہو میں آپ کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ انگریزوں کو مکران بغاوت کے خلاف مالی اور عسکری مدد مت کرے ، ورنہ پورے خاران کو نسلوں تک اس تاریخی غلطی کی صفائی دینا پڑے گا۔ کمبر نے نوروز خان سے اجازت لے کر مکران کی طرف روانہ ہوگیا۔ (جاری ہے)

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *