پاکستان میں سب سے زیادہ ناکام ہونے والا کاروبار وہ ہے جو شراکت کی بنیاد پر کیا جائے۔میں نے بہت کم لوگوں کو اس میں کامیاب ہوتے دیکھا ہے۔اگر آپ بھی کسی کے ساتھ شراکتی کاروبار کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو اس تحریر کو غور سے پڑھیں اور اس میں بیان کردہ اصولوں کو اپنی گرہ میں باندھ لیجئے۔ انشاء للہ کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
عدالت میں ایک سے فیصلہ آتا ہے مگر پوری قوم کچھ جانے بغیر ایک شخص کی پیروی میں سڑکوں پر نکل آتی ہے آگ لگاتی ہے ٹائر جلاتی ہے اور پورے ملک میں دہشت پھیل جاتی ہے۔ فلاں فرقے کا مولوی اعلان کرتا ہے کہ فلاں کافر ہے تو سارے مکین علاقہ ایک پل سوچے سمجھے بغیر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور فلاں شخص کو جہنم واصل کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔
آج میں سٹیفن آر کوے کی بیان کروہ کامیاب ترین لوگوں کی سات عادات بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ہم میں سے اکثر لوگ مہنگائی کا رونا روتے ہیں۔ حکومت سے کسی جادو کی توقع رکھتے ہیں۔اپنی کم آمدنی اور بڑھتے ہوئے اخراجات سے پریشان رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ کسی جان لیوا بیماری کا شکار ہوکر اس دنیا سے چل بستے ہیں۔اس کے برعکس چند لوگ ایسے بھی نظر آتے ہیں جو مہنگائی کا رونا رونے کی بجائے اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کا سوچتے رہتے ہیں۔
بہت لکھا ہم نے پی ٹی آئی کی حمایت میں، اس کے ہر عمل اور ہر اقدام کو سَراہا کہ ملک میں قائم کرپٹ اداروں کی کارکردگی غیر موئثر ہو گی اور رشوت کا بازار سرد ہوگا۔ ادارے اس صورت آزاد اور خود مختار ہوں گے کہ اِن میں موجود کالی بھیڑیں اب یہاں اپنی جگہ نہ بنا پائیں گی۔
میر ا دبئی میں دوسرادن تھا کہ مجھے پہلے انٹرویو کی کال آگئی۔ کمپنی کو اکاونٹس مینجر کی ضرورت تھی ۔میں اس وقت میٹرو پر سفر کررہا تھا کہ مجھے کال آئی۔ میں نے پوچھا کہ کمپنی کا آفس کس جگہ ہے ؟ تو مجھے بتا یا گیا کہ آپ کو لوکیشن میپ بھیجتے ہیں۔
نیورو سرجن ڈاکٹر ابراہیم خلیل 48روز بعد بازیاب ہو کر گھر واپس پہنچ گئے ،زندہ واپسی کی خبر ان کے اہل خانہ کے لیے کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ ان کی یہ بازیابی تاوان کے عوض عمل میں آئی۔ 13دسمبر 2018کو شہباز ٹاؤن کوئٹہ سے انہیں اغوا کیا گیا تھا جبکہ ان کی بازیابی کراچی سے عمل میں آئی ۔
چلو یہ مان لیتے ہیں کہ ہم شہر خموشاں کے مغربی حصے کے خاموش باسی ہیں۔ ہم بھی ملک کے دوسرے شہریوں کی طرح ہر پانچ سال بعد اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے اپنے لئے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ روزگار سفارش کے تحت من پسند سیاسی حمایتیوں اور کارکنوں کا حق ہے۔ اور ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم کسی منتخب نمائندے سے یہ سوال کریں؟ کہ ہمیں روزگار کیوں نہیں مل رہا ۔
لافٹرتھراپی سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ اس کا ایک اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں جاننے کا اشتیاق ہوا۔میرے ایک مہربان دوست سرمد اقبال نے مجھے بتایا کہ لاہور میں باقاعدہ یہ تھراپی ہو رہی ہے اور لوگ پانچ ہزار روپے فیس دے کر کچھ دیر ہنستے ہیں اور اس سے ان کی بہت سی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔
کینسر کے مرض میں مبتلا دس سالہ حمل ظفر آغا خان ہسپتال کراچی میں زیرعلاج ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے خطیر رقم کے مطالبے نے ان کے والد ظفر اکبر اور دیگر ساتھیوں کو سوشل میڈیا پہ تعاون کی اپیل کرنے پر مجبور کیا۔ اپیل کے بعدبڑے پیمانے پر چندہ مہم کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال صاحب جن کی حکومت کو 6 مہینے ہونے کو ہیں, جیسا کہ سب کہ علم میں ہے کہ موصوف گاڑی دوڑانے کے بھی شوقین ہیں جنہوں نے گوادر آف روڈ ریلی میں بھرپور انداز میں شرکت کی۔