|

وقتِ اشاعت :   February 21 – 2019

میرا دوست کہتا ہے کہ آدمی کو کبھی بھی ایک خوراک ہضم نہیں ہوتی وہ خوراک بدلتا رہتا ہے۔ کبھی گوشت تو کبھی سبزی، کبھی دال چاول وغیرہ وغیرہ۔۔ یہ تو اچھا ہی ہے کہ پانی کوئی ذائقہ نہیں رکھتا ورنہ آدمی بوقت ضرورت اسے تبدیل کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتا۔

بنی اسرائیل پہ من و سلویٰ اتر رہا تھا من و سلویٰ سے جی بھر گیا تو خوراک کی تبدیلی کا مطالبہ کرڈالا۔ اب بھلا انسانی فطرت سے کون متصادم ہو جو برسوں سے اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوتا چلا آرہا ہے۔ بھلا ہو ڈھکاروں کا کہ معدے کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں ورنہ آدمی دسترخوان سے باغی ہوکر بھوکا مرجائے اور ایک مقولہ مشہور ہو جائے قبرستانوں میں جگہ کم تھی، مرنے کی ایسی کیا جلدی تھی۔

میری گزارش ہے کہ کم ہی مرا جائے اتنا ہی اچھا۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی بھی کسی عذاب سے کم نہیں، آبادی پر کنٹرول کیا جائے تو شاید قبرستانیں کاشتکاری کے کام آجائیں۔ خاندانی منصوبہ بندی کا نعرہ کافی زیادہ لگ چکا ہے۔ دوسرا دوست متضاد رائے رکھتا ہے، کا کہنا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے جتنی آبادی اتنی خوشحالی۔ چائنا کی مثالیں دے دے کر خود بھی میڈ ان چائنا لگنے لگا ہے۔

اب کس کا کہا مان لیں اور کسے رد کر یں۔ بس بھئی اگر میرا کہا مانیں میں تو یہی کہوں گا کہ زندوں کے بجائے مردوں پر توانائی صرف کی جائے تو شاید آبادی کنٹرول ہوجائے اب قبرستانوں میں اتنی بھی جگہ نہیں کہ مردوں کو دفنایا جا سکے اب ایسی صورتحال میں بھلا کون کمبخت مرنا چاہے گا جدھر دیکھو زندگی سے بیزار آدمی بھی موت سے پنا مانگتا نظر آئے۔میرا مشورہ تو یہی ہے کہ اداروں کے نام پر ہم جتنے تجربے کر چکے ہیں اگر ایک اور تجربہ کریں تو کیا حرج ہے۔

اگر محکمہ بہبود اموات کا اضافہ کریں تو ۔بلوچستان کے تعلیمی نظام کی حالت دیکھتا ہوں تو افسردہ ہوجاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ زمین کا چھوٹا سے ٹکڑا خرید کر کیوں نہ اسے زندہ ہی دفنا دوں اور مضبوط پلستر کا چادر چڑھا کر فاتحہ خوانی کر لوں۔ بٹے ہوئے وجود کو سمیٹتے سمیٹتے میں خود ہی حصوں میں تقسیم نہ ہو جاؤں تو دفنانے کا خیال ترک کرتا ہوں۔جدھر بھی دیکھو ٹکڑوں میں تقسیم اس کا وجود دیگوں میں پکایا جا رہا ہے کہیں یخنی تو کہیں کڑائی تو کہیں خالی سالن پہ اکتفا کیا جا رہا ہے۔

کئی ذائقے چھکنے کے بعد زبان کہنے سے قاصر ہوگا کہ کونسا ذائقہ اچھا تھا سوائے قصیدہ گوئی کرنے کے۔سنا ہے بلوچستان حکومت کو ٹیچرز بھرتی کا پرانا طریقہ کار راس نہیں آیا اس نے تعلیمی ایمرجنسی کے نام پر ٹیچرز بھرتی کرنے کا نیا طریقہ کار ایجاد کرلیا ہے، نئے طریقہ کار کو انٹرن/ ایجوکیٹر کا نام دیا جا چکا ہے۔ خدا جانے کیا بھلا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجودہ طریقہ کار پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

نئی پالیسی کے تحت سیکنڈری اسکول ٹیچرز گریڈ 17کی خالی آسامیوں پر بھرتی ضلعی سطح پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھرتیاں اب ڈسٹرکٹ سلیکشن کمیٹی کرے گی۔ کمیٹی کا سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوگا جبکہ چاروں ضلعی تعلیمی آفیسران کمیٹی ممبر ہوں گے۔

ریاضی، فزکس، بیالوجی، کیمسٹری، کمپیوٹر سائنس، انجینئرنگ ، انگلش، مطالعہ پاکستان ، سوشیالوجی اور اردو مضامین میں ایم اے ، ایم ایس سی پاس امیدواروں سے درخوستیں طلب کی جا چکی ہیں۔ بھرتیاں تحریری اور زبانی امتحانات کے بغیر ڈگری کے نمبرز پر کی بنیاد پر کی جا رہی ہیں جنہیں 25000روپے ماہوار معاوضے پر تعینات کیا جائے گا۔

اس سے قبل ایس ایس ٹی گریڈ 17کی خالی آسامیاں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے مشتہر کی جاتی رہی ہیں امیدوار کے لیے گریجویشن کے ساتھ ساتھ ایجوکیشن یعنی B.Ed پاس ہونالازمی قرار دیا جاتا تھا۔ تحریری ٹیسٹ میں پاس امیدواروں سے زبانی ٹیسٹ لیا جاتا تھا۔ انٹرویو میں کامیاب امیدواروں کا لسٹ جاری کرکے محکمہ ایجوکیشن کو بھرتی کے لیے سفارش بھیجی جاتی تھی ۔

رئیسانی دورِ حکومت میں جب آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے تحت ٹیچرز بھرتی کا فیصلہ کیا گیا تو اُس وقت بھی سیاسی بنیاد پر بھرتی کے الزامات سامنے آئے تھے۔ ہائی اسکول ٹیچر (HST) اور اسسٹنٹ لیکچرارز کی آسامیاں یہ کہہ کر عارضی طورپر پُر کی گئی تھیں کہ مستقل بنیادوں پر تعیناتی کا عمل بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے لائی جائے گی مگر بعد میں ایسا نہیں ہو سکا کمیشن کو پروسیس کا حصہ بنائے بغیر ریگولرائز کیے گئے۔

بھرتیوں کے موجودہ طریقہ کار اور شفافیت پر یہ کہہ کر سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ماضی میں سیاسی بنیاد پر من پسند افراد کو بھرتی کرنے کا جو طریقہ کار رائج تھا اسے دوبارہ نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہیجس سے میرٹ کی پامالی کے امکانات موجود ہیں ۔

بلوچستان میں اس وقت 13ہزار سے زائد اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں بجٹ کا بہانہ بنا کر ماضی میں یہ آسامیاں پر نہیں کی گئیں جس سے تعلیمی نظام کو گیپ کا سامنا رہا۔ موجودہ حکومت نے تمام آسامیوں کو پر کرنے کا عندیہ تو دیا ہے مگر طریقہ کار پر اعتراضات موجود ہیں۔

بلوچستان کے تعلیمی نظام میں اصلاحات لانے کے لیے حکومتی سطح پر بسا اوقات تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔ کبھی انتظامی امورتو کبھی درسی نظام میں، بھرتیاں کبھی این ٹی ایس کے ذریعے تو کبھی بلوچستان پبلک سروس کمیشن تو کبھی ضلعی انتظامیہ توکبھی ایڈہاک کی بنیاد پر۔ کبھی عارضی بنیاد پر تو کبھی مستقل بنیاد پر۔ بھرتیوں میں اتنی بے ضابطگیاں کی گئیں کہ کئی اعلیٰ آفیسران کو نیب کی گرفت میں آنا پڑا۔

اب بھلا کیا کیا جائے کہ محکمہ تعلیم کو ایک طریقہ کار ہضم ہی نہیں ہوتا ۔ تعلیمی بوٹی پر چٹخارہ دار مصالحوں کا اتنا تجربہ کیا جا چکا ہے کہ اسے بدہضمی کی شکایت رہتی ہی رہتی ہے۔ ہر بار ڈاکٹرز نے نئی دوائیں تجویز کرتے ہیں مگر دواؤں میں پاؤڈر اتنا زیادہ ڈالا جاتا ہے کہ اثر ہی نہیں کرتے لوکل میڈدوائیاں کھاتے کھاتے اس کا برا حال ہو چکا ہے۔ اب کی بار چور ن سے کام لیا جا رہا ہے سوچ رہا ہوں خدا نخواستہ چورن کام نہ کرے اور معاملہ سرجری تک پہنچ جائے تو کیاْ ہوگا۔