|

وقتِ اشاعت :   February 19 – 2019

کہتے ہیں کہ بچہ جب تک روئے نہیں ماں اسے دودھ نہیں پلاتی۔ حالانکہ ماں کو بخوبی پتہ ہوتا ہے کہ بچہ کب سیرِ شکم ہوگا اور کب خالی پیٹ۔ بچہ جب بڑا ہو جائے تو اس کے چھوٹے موٹے مطالبات سامنے آتے رہتے ہیں کچھ پورے ہوتے ہیں کچھ سنی سن سنی کردی جاتی ہیں۔ کچھ بچے خاموشی اختیار کرتے ہیں اور کچھ بچے مار پیٹ کر تے ہیں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ناراض ہو کر چلے جاتے ہیں۔ بچے اور گھر والوں کے درمیان انا کا مسئلہ آجاتا ہے نہ گھر والے بچے کو مناتے ہیں اورنہ ہی بچہ مان کر واپس آجاتا ہے ۔

گزشتہ روز جب رکن صوبائی اسمبلی حمل کلمتی کی تقریر سنی تو شش و پنج میں مبتلا ہوا کہ اسے بچوں کی کس کیٹگری میں رکھا جائے۔ جو وفاق کی ناانصافیوں اور سوتیلے پن پر سراپا احتجاج اور شکوہ کناں ہے۔ اسمبلی فلور پر اپنی باتیں ریاست کے کان میں ڈالنا چاہتا ہے۔ ان کا شکوہ ہے کہ 2013سے لے کر اب تک ا ن کے مطالبات پر کان دھرے جا رہے ہیں نہ اس کی آواز سنی جا رہی ہے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کیا کہا آئیے ذرا ملاحظہ کرتے ہیں۔

’’گوادر کے حوالے سے تیسرا ماسٹر پلان بن رہا ہے اور خبریں آرہی ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ گوادر کا نمائندہ میں ہوں مجھے آج تک اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی میری رائے لی گئی اور نہ ہی بلوچستان اسمبلی میں وہ معاہدہ لایا گیا۔‘‘

’’ وی آئی پی مومنٹ ہو یا سیکورٹی اربوں روپے گورنمنٹ آف بلوچستان ادا کرتی ہے۔ گوادر میں آئے روز تقریبات اور سیمینار کے نام پہ سڑکیں بند کی جاتی ہیں۔ ماہی گیروں سے ان کا سمندر چھینا جا چکا ہے۔ گوادر کے شہریوں کا جینا دو بھر ہو چکا ہے۔ منصوبے گوادر کے عوام کے لیے ریلیف نہیں بلکہ عذاب بن کر ان پر اتر آئے ہیں‘‘۔

’’ جس سرزمین کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے قربانیاں دیں پرتگیزیوں سے لڑے۔ آج ان زمینوں کو ہم سے پوچھے بغیر کوڑیوں کے دام بیچا جا رہا ہے۔ وہ زمین جہاں آئل ریفائنری لگائی جا رہی ہے وہاں کے مکینوں کی ہے ،تیسری دفعہ وہاں کی زمینوں کی سٹلمنٹ یہ کہہ کر منسوخ کی جا رہی ہے کہ فلاں نے اس سٹلمنٹ میں چیڑچھاڑ کی ہے۔گوادر والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں ہماری زمینوں سے بے دخل کیا جائے گا اور ہم کیچ و پنجگور نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوں گے‘‘۔

’’ جب تک گوادر کے حوالے سے پالیسی سازی نہیں ہو گی اس وقت تک ایک غیر یقینی صورت حال موجود رہے گی۔گوادر کی سرزمین گوادر کے باسیوں اور گورنمنٹ آف بلوچستان کی ہے۔ اللہ نہ کرے وہ دن آجائے کہ گوادر کی سرزمین بلوچستان کے ہاتھ سے چلا جائے اور وفاق کا حصہ بن جائے۔ گوادر کو بچانا ہے گوادر کے عوام کے تحفظات دور کرنے ہیں ایسا نہ ہو کہ پورا گوادر سڑکوں پر نکل آئے اور سراپا احتجاج بن جائے۔ بلوچستان اسمبلی اس پر سوچے‘‘۔

سات منٹ کی تقریر میں ان کا غم و غصہ دیکھا جاسکتا ہے اور اظہارِ بے بسی بھی۔ وہ اظہار کرتے ہیں اور کرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ امید اور حوصلہ کم، خدشات اور مایوسی سے پُر ان کی تقریر میں نظر آتی ہے۔ دورانِ خطاب پوری اسمبلی پہ خاموشی چھا جاتی ہے اور اسمبلی انہیں غور سے سنتی چلی جاتی ہے۔

ایک میر حمل کلمتی وہ تھے جس نے سرزمین کی خاطر پرتگیزیوں سے جنگیں لڑیں اور سرزمین کا دفاع کیا۔ ایک حمل کلمتی یہ ہیں جوغیر مسلح ہیں جنہیں گوادر کے عوام نے اپنا نمائندہ چنا جو گوادر کی زمینوں کی دفاع کے لیے اپنی تقریر کا سہارا لے رہے ہیں۔ اب خدا جانے سننے والوں کو ان کی یہ تقریر ہضم ہوتی ہے یا نہیں۔ البتہ وہ اپنی بات کہہ گئے ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں گوادر کا جو نقشہ کھینچا ہے کافی بھیانک ہے۔ حمل کلمتی مسلسل دوسری بار گوادر سے صوبائی رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں ۔ اسمبلی کے قاعدے و قانون کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی تقریر سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے وہ باتیں بھی کہہ گئے جو شاید وہ کرنا ہی نہیں چاہ رہے تھے مگر ایوان کے سامنے اظہارِ افسوس کے ساتھ اسے کہنے پڑ ے۔ گوادر منصوبوں اور معاہدوں کے حوالے سے حمل کلمتی کو تحفظات ہیں گوادر اور بلوچستان کے عوام کے خدشات اس کے علاوہ ہیں۔ شکایتیں ہیں شکایات ازالہ چاہتی ہیں۔

بلوچوں کا مدعا ہی یہی رہا ہے کہ بلوچستان سے نکلنے والی معدنیات پر انہیں پورا حق دیا جائے ۔ منصوبوں اور معاہدوں میں ان کی شرکت قابل قبول ہو۔ جب جب وفاق نے منہ موڑنے کی کوشش کی، آوازیں بلند ہوتی گئیں۔ آوازوں نے مزاحمت کی شکل اختیار کی، آوازوں کو پابندِ سلاسل کیا گیا ، کچلا گیا۔ نوروز خان ، اکبر خان نافرمانوں میں شمار کرکے مارے گئے۔ لیکن حمل کلمتی فرمانبردار بچوں میں سے ایک ہیں۔ انہیں سننے کی ضرورت ہے۔ گوادر کے عوام کو سننے کی ضرورت ہے تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہے۔ گوادر کا مقدمہ وہ اسمبلی کے کٹہرے میں لڑ رہے ہیں سو انہیں سنا جائے۔