میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی طالبہ ہو ں اورحال ہی میں اپنے ایک کزن کی شادی کے سلسلے میں گھروالوں کیساتھ کوئٹہ آنا ہوا۔ میرا ننیال یہاں کوئٹہ کے طوغی روڈ پر مقیم ہے۔ میرے نانا بطور سپاہی بلوچستان پولیس میں تعینات ہوئے اور 60 سال کی عمر تک بلوچستان کے مختلف اضلاع میں اپنے خدمات سرانجام دینے کے بعد بطور ڈی ایس پی پولیس ریٹائرڈ ہوئے ۔انہوں نے اخبارات کے مطالعے کو اپنا معمول بنایاہواہے۔
ایک حکومتی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چنیوٹ کی سرزمین قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ یہاں پائے جانے والے لوہے کے ذخائر 125 سال تک ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہاں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں۔ اس موقع پر سابق وزیر اعظم نے تمام قوم کو مبارک باد بھی دی تھی۔
سڑک حادثات بھی کسی دہشتگردی سے کم نہیں، ایک ہی حادثے میں کئی جانیں چلی جاتی ہیں بے شمار لوگوں کو عمر بھر معذوری کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔پاکستان بالخصوص بلوچستان میں سڑک حادثات کو کنڑول کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ سڑک حادثات کیوں رونما ہوتے ہیں، اس کے محرکات کیا ہیں؟
1929 میں مسلم لیگ کے 14 نکات میں درج ذیل دو نکات بھی شامل تھے: * مستقبل کے آئین کی طرزوفاقی ہو نی چاہیئے جس میں باقی ماندہ اختیارات صوبوں کے پاس ہوں۔ * تمام صوبوں کو یکساں خود مختاری دی جائے گی۔
آج کے کالم کا عنوان تحریر کرتے ہوئے میر ے ذہن میں آیا کہ قارئین یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ آج میں فیملی پلاننگ کی بات کرنے لگا ہوں، تو جناب میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں آج انتہائی اہم موضوع پر بات کرنے لگا ہوں جو آج ہماری زندگی سے بالکل مفقود ہو کر رہ گیا ہے۔ہم سب کچھ سوچتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم نے کبھی کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی۔
کہیں تیزاب گردی تو کہیں آگ میں جلانا ، کہیں مارنا پیٹنا اور کہیں عزت کے نام پر قتل، شاید اب تو لوگ اس کے عادی ہو گئے ہیں ۔عزت کے نام پر قتل تو ہماری ثقافت کا حصہ ہے جس پر نہ کوئی قانون کام کرتا ہے اور نہ سماج۔اور سب سے اعلٰی بات تو یہ ہے کہ یہ حق صرف مرد کو حاصل ہے ۔کیونکہ ساری کی ساری عزت مرد کی ہے عورت کی تو کوئی عزت ہے ہی نہیں۔
گزشتہ چند ماہ میں تجاوزات ہٹانے کے نام پر کیئے جانے والے آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لو گ بے روزگار اور بے گھر ہو گئے ہیں۔صرف کراچی شہر میں ہزاروں کی تعداد میں دکانیں اور گھر گرا ئے جا چکے ہیں اور نتیجہ میں پانچ لاکھ سے زائد افراد روزگار سے محروم ہو چکے ہیں۔پاکستان بھر کی بڑی شاہراؤں کے دونوں اطراف کا رقبہ ہائی وے محکمہ کی ملکیت ہوتا ہے۔ اسی طرح نہروں کے ساتھ سینکڑوں فٹ رقبہ محکمہ انہار کی ملکیت ہے۔
لسبیلہ کا علاقہ دریجی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے حوالے سے شہرت کا حامل علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ بھوتانی برادران کا انتخابی حلقہ اور آبائی علاقہ ہے۔’’ تیرے پیار کے چرچے ہر زبان پر‘‘ کے مصداق دریجی کی ترقی کے چرچے ہر زبان پہ سنتے اور ٹی وی چینلز کی رپورٹوں میں دیکھتے چلے آرہے تھے۔ دریجی کے خوبصورت مناظر ٹی وی اسکرین پہ دیکھ کر اور رپورٹرز کو اس کی خوبصورتی کے گن گاتا ہوا دیکھ کر دریجی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی چاہ پیدا ہوئی تھی۔
قارئین !وہ کونسا شخص ہے جوکہ’’ چاگئے ‘‘(چاغی) نام سے آشنائی نہ رکھتاہو۔یوں تو اسے ہرلحاظ سے حقیقی طورپرسونے کی چڑیاجیسے لقب سے نوازاگیاجس سے کوئی انکاری نہیں۔صوبہ بلوچستان کے چاغی جس کے راسکوہ کے پہاڑوں نے 28مئی 1998دوپہر3;28منٹ پرکالی چادراوڑھتے ہوئے ایٹمی تجربات کواپنے سینے میں سموکرارض پاک کوناقابل تسخیربنادیا۔
گوادر کے ماہی گیر آخر چاہتے کیا ہیں نوبت کیوں آن پڑی سمندر کے بجائے سڑکوں کا رخ کرنے کی۔ کیا سمندر ان کی نہیں سن رہا تھا یا وہ سنانے سے قاصر تھے۔ سمندر کی موجوں سے کہیں انہیں شکایت تو نہیں تھی اگر شکایت تھی تو شکوہ سمندر سے کر لیتے موجوں سے نمٹ لیتے نہ جانے انہیں کیا سوجھی کہ انہوں نے سڑکوں کا انتخاب کیا۔