|

وقتِ اشاعت :   January 8 – 2019

لسبیلہ کا علاقہ دریجی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے حوالے سے شہرت کا حامل علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ بھوتانی برادران کا انتخابی حلقہ اور آبائی علاقہ ہے۔’’ تیرے پیار کے چرچے ہر زبان پر‘‘ کے مصداق دریجی کی ترقی کے چرچے ہر زبان پہ سنتے اور ٹی وی چینلز کی رپورٹوں میں دیکھتے چلے آرہے تھے۔ دریجی کے خوبصورت مناظر ٹی وی اسکرین پہ دیکھ کر اور رپورٹرز کو اس کی خوبصورتی کے گن گاتا ہوا دیکھ کر دریجی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی چاہ پیدا ہوئی تھی۔

گزشتہ ہفتے جب ہم نے دریجی کا رخ کیا دریجی ٹاؤن کے اندر داخل ہوتے ہی ہم نے دریجی کو اُسی طرح پایا جس کا نقشہ ٹی وی رپورٹرزنے کھینچا تھا۔ کشادہ سڑکیں اور چوراہے، ان چوراہوں کے ساتھ لگی لائیٹس اور درخت ، معلومات کے لیے سائن بورڑ ،جگہ جگہ دفاتراور پارک ، ٹاؤن کے لیے بنی مارکیٹ، رہائش کے سرکاری کوارٹرز ،اسکول اور لائبریری ٹاؤن کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے تھے۔جنگلات و جنگلی حیات کو تحفظ دی جا رہی تھی بجلی کا کافی بہتر نظام موجود تھا۔بارانی پانی کو اسٹاک کرنے کے لیے ڈیمز کا اچھا خاصا نظام موجود تھا۔

بابِ دریجی کے اندر داخل ہوتے ہی ٹاؤن نے ہمیں اس قدر اپنے سحر میں مبتلا کیا کہ ہم اس کی جادو سے نکل نہیں پائے بلکہ ٹاؤن کی خوبصورتی کے گن گاتے رہے ۔مگر یہ کیا تھا کہ پارکوں کی موجودگی کے باوجود ہمیں وہاں کوئی آدمی چہل پہل کرتا نظر نہیں آیا۔ سڑکیں سنسان تھیں۔ لائبریری کھلی مگرمطالعے کے لیے کوئی فرد نظر نہیں آیا۔ تمام تر صورتحال نے ذہن میں کنفیوژن کی ایک فضا پیدا کی۔ ذہن میں سوال آیا کہ آخر یہ ڈویلپمنٹ ہے کس کے لیے ۔ 

خیالات و سوالات نے ذہن کو گھیرے میں لے رکھا تھا، الجھنیں اس قدر بڑھ گئیں کہ ہمارے سامنے دریجی کی ایک دھندلی تصویر آئی۔سوالوں کے جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہمارے سامنے ایک اور تصویر آویزاں تھی۔ تصویر تھی غربت کی، تصویر تھی ناخواندگی کی، تصویر تھی بے بس اور لاچار چہروں کی جو رورل ہیلتھ سینٹر میں لگائے جانے والی میڈیکل کیمپ کا رخ کر چکے تھے۔ یہ چہرے غذائی قلت کی طویل داستانیں بیان کر رہے تھے ۔ 

دریجی میں غربت کا خاکہ کس نے تیار کیا تھا اور اس خاکے کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ سوال پورے بلوچستان پہ صادق آتی ہے۔ بھلا سوال کی اوقات کیا جو ایک زمانے سے گمشدہ فضاؤں میں اڑان بھر رہا ہے۔۔ ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی گیس ملک کے طول و عرض میں پہنچ جاتی ہے مگر ڈیرہ بگٹی کے عوام گھر کا چولھا جلانے کے لیے لکڑیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ 

حب شہر سے دریجی کا 120کلومیٹر کا مسافت طے کرتے کرتے ہماری نگاہیں چالیس کے قریب ایسی گاڑیوں پر پڑیں جو دریجی کی سرزمین سے قیمتی پتھر نکال کر مارکیٹ پہنچا رہے تھے۔ اگر کیلکولیشن کیا جائے تو دن کے حساب سے نکلنے والی اس پتھر کی آمدنی کتنی ہوگی اور یہ آمدن کس کا خزانہ بھرنے کا کام کر رہی ہے۔دولت یا وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہر جگہ موجود ہے لیکن ہم اس موضوع پہ کبھی بھی بات نہیں کرتے حالانکہ غربت ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ 

دولت یا وسائل یا تو ریاست کے ہاتھوں غیرمنصفانہ تقسیم کا شکار ہے یا وڈیرے، جاگیردار، سردار نواب کے ہاتھوں۔اب دولت کی منصفانہ تقسیم بھلا کون اور کیوں کرے ۔بھلا استحصالی نظام سے آزادی ملے کیوں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈویلپمنٹ کے نام پر دریجی کا جو خاکہ تیار کیا گیا تھااس سے لوگوں کی زندگی میں خوشحالی آجاتی۔ بڑی بڑی عمارتیں پیٹ کا بھوک مٹا کر توانائی حاصل کر نے کا ذریعہ ہوتیں۔ دریجی کی زمین سے نکلنے والے پتھر دریجی میں غربت کا نام و نشان مٹا نے کا کام کرتے۔ ٹاؤن کے اندر بنا اسکول اور لائبریری لوگوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ باشعور بنا لیتے۔لیکن ہم ایسی تصویر کھینچنے سے قاصر رہے ۔ 

یہ بات طے شدہ ہے کہ انفراسٹرکچر کی ڈویلپمنٹ سے نہ ہی غربت کو مٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی سوچ بدلی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو دریجی والوں کی زندگی میں تبدیلی آجاتی۔وہ سوچتے سوال کرتے، انتخابات میں حصہ لیتے، پارک اور لائبریریاں آباد ہوتیں۔سڑکوں کو زیراستعمال لاتے۔ وہاں کے وسائل پہ انہیں اختیار ہوتا ۔ ایسا کچھ بھی نہیں تھا ایسے میں دریجی کی ترقی کے دعویدار اور ان کی وکالت کرنے والوں کی سوچ پہ ہنسا اور ان کی سوچ کا معیار ناپا جا سکتا ہے۔