|

وقتِ اشاعت :   January 1 – 2019

گوادر کے ماہی گیر آخر چاہتے کیا ہیں نوبت کیوں آن پڑی سمندر کے بجائے سڑکوں کا رخ کرنے کی۔ کیا سمندر ان کی نہیں سن رہا تھا یا وہ سنانے سے قاصر تھے۔ سمندر کی موجوں سے کہیں انہیں شکایت تو نہیں تھی اگر شکایت تھی تو شکوہ سمندر سے کر لیتے موجوں سے نمٹ لیتے نہ جانے انہیں کیا سوجھی کہ انہوں نے سڑکوں کا انتخاب کیا۔

گوادر کے ماہی گیر گزشتہ 14روز سے احتجاج پر ہیں۔ سمندر سے جڑے وہ اپنے قدیم اور مضبوط رشتے کی بقا کے لیے آواز اٹھائے ہوئے ہیں جس کی ڈوری اب آہستہ آہستہ کمزور کی جا رہی ہے۔ ان کے احتجاج پہ کان دھرے نہیں جارہے ، ان کی آواز سنی نہیں جا رہی۔ ایوان کے بند دروازوں تک ان کی آواز پہنچ کر واپس آ جاتی ہے۔ ماہی گیر چاہتے کیا ہیں۔ کیا وہ روزگار چاہتے ہیں؟ نہیں۔۔ کیا وہ سی پیک میں اپنا حصہ چاہتے ہیں؟ نہیں۔ کیا اب وہ سمندر سے تنگ آچکے ہیں مراعات چاہتے ہیں؟ نہیں۔۔ جب ان تمام سوالوں کا جواب نا میں ہے تو ایک اور سوال اٹھ کھڑ ہوتا ہے کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں۔

گوادر کے ماہی گیر گوادر کی ترقی سے قطعاً انکاری نہیں ہیں لیکن گوادر کی ترقی کا جو نقشہ تیار کیا گیا ہے اس نقشے میں ماہی گیری کا شعبہ بالکل پس منظر میں جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ماہی گیروں کو اس ڈیزائن سے شدید خدشات ہیں۔ جس ڈیزائن پہ چھ لائن کی ایسٹ ایکسپریس بے بن رہی ہے ۔شکایات سمندر سے نہیں بلکہ حکام سے ہیں سو خدشات کے اظہار کے لیے انہوں نے سمندر کے بجائے زمین کا رخ کیا ہے۔14روز سے نہ ہی حکومت نے ان کی آواز سنی اور نہ ہی شکایت کا ازالہ کیا۔

گوادر میں زیرتعمیر ایسٹ بے ایکسپریس وے مستقبل میں ماہی گیروں کی سمندر تک رسائی کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنے گی، ماہی گیروں کے لیے گوادر کی دیمی زر کے اندر داخل ہونے کے لیے جو تنگ گلی چھوڑی گئی ہے ماہی گیروں کو خدشہ ہے کہ یہ راہ مستقبل میں ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے گی جہاں سے وہ بمشکل ہی ساحل سمندر اور کشتیوں کا نظارہ کر سکیں ۔

حکومتیں جب روزگار کی فراہمی میں ناکام ہوتی ہیں تو لوگ روزگار کے ذرائع خود تلاش کرنے میں جھٹ جاتے ہیں بلوچستان میں بھی حکومتی بے رخی نے لوگوں کو ذریعہ معاش کے حصول کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے پہ مجبور کیا، ذریعہ معاش کے حصو ل کے لیے انہوں نے دو شعبوں کا انتخاب کیا ایک کھیتی باڑی اور دوسرا غلہ بانی۔ جہاں ان کی زمینیں وہاں ان کی بود وباش اور رہائش۔ آبادی کا ایک قلیل حصہ جس نے ذریعہ معاش اور زندہ رہنے کے لیے ایک اور شعبے پہ انحصار کیا وہ تھا ماہی گیری۔ 

ساحلی پٹی کی آبادی آج بھی روزگار کے ذرائع اور آمدن کے حصول کے لیے اسی شعبے پہ انحصار کرتی ہے۔ ماہی گیری کا شعبہ گوادر میں ایک صنعتی حیثیت رکھتا ہے گوادر کی کثیر آبادی کا ذریعہ آمدن ماہی گیری ہے۔ 

ماہی گیری کے لیے ان کے پاس اسپیڈ بوٹ اور یکدار موجود ہیں جو اس صنعت کو دوام دینے کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مقامی ماہی گیروں کے پاس اِس وقت 1200اسپیڈ بوٹ جبکہ 2200یکدار ہیں جن سے نہ صرف ماہی گیروں کے گھر کا چولہا جلتا ہے بلکہ گوادر کی معاشی نظام کو متوازن رکھنے میں ماہی گیروں کا اہم کردار کر رہے ہیں۔ گوادر کا منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ بدلتے منظرنامے میں ماہی گیری کا صنعت دھندلا نظر آرہا ہے۔ 

گوادر کے بدلتی منظرنامے میں ماہی گیر اور کچھ نہیں چاہتے بس اپنی پرانی حالت کی بحالی چاہتے ہیں وہ سمندر کے قریب رہنا چاہتے ہیں سمندر کی موجوں سے کھیلنا چاہتے ہیں، مچھلیوں سے آنکھ مچولی کرنا چاہتے ہیں سمندر اور ماہی گیری کے اُس رشتے کی بقا چاہتے ہیں جس کی جڑیں دونوں نے خود مضبوط کی ہیں۔

آنے والے وقتوں میں گوادر کیا روپ دھارے گا زمینی ساخت اور وہاں کی مقامی آبادی کی شناخت کیسی ہوگی ،ہر ایک کواندیشوں نے گھیر رکھاہے، گوادر کے بدلتے منظرنامے میں کون کتنا متاثر ہوگا اور کون فائدے میں، فی الحال مفروضوں سے کام لیا جا رہا ہے۔ 

جب تک گوادر کا منظرنامہ تبدیل نہ ہو، کہانی ایک نئی کروٹ نہ لے، اس وقت تک ایک ہیجانی سی کیفیت برقرار رہے گی۔ سی پیک سے گوادر کا حلیہ کس قدر بدل جائے گا یہ آنے والا وقت ہی بتا ئے گا مگر لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں جب گوادر کو کینوس پر پینٹ کیا جائے گا تو اس میں ماہی گیربمشکل دکھائی دیں گے۔