اگر قومی اسمبلی نے فنانس بل کو منظور بھی کرلیا تو بجٹ2018-19 کے دو اہم پہلو متنازع رہیں گے۔ ان دو پہلوؤں کی تفصیل اس طرح ہے: پاکستانیوں کے غیر ملکی زر مبادلہ کے کھاتوں کو ،خواہ وہ ملک کے اندر ہیں یا باہر، زیادہ سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کے بعد سفید کرنے کی اسکیم؛ اور متوسط طبقے کو بڑے پیمانے پر دی جانے والی رعایت ، جس کے ذریعے سالانہ آمدنی پر استثنا کی سطح 400,000 روپے سے بڑھا کر 1.2 ملین روپے کر دی گئی ہے۔
بلوچستان ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے ،زیادہ تر پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے ،قیام پاکستان سے قبل راستے اور بھی دشوار گزار تھے ،اس لیئے انگریز حکمرانوں کو امن وامان قائم رکھنے میں شدید دشواری پیش آرہی تھی ،چنانچہ ان مشکل حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اورقیام امن کو بحال کرنے کے لیئے بلوچستان میں لیویز فورس کا قیام عمل میں لایا گیا جوکہ اس دور میں بڑا ہی کامیاب تجربہ ثابت ہوا
نواب بہاولپور،صلاح الدین عباسی کی طرف سے2018 کے انتخابات سے قبل ایک بار پھر علیحدہ بہاولپور صوبے کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔نوجوان رکن قومی اسمبلی،خسرو بختیار کی قیادت میں علاقے کے بعض ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے علیحدہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ(جے پی ایس ایم) بنالیا ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے آزادیِ اظہار رائے کی صورتِ حال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ ” رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز” کی حالیہ رپورٹ میں ،اس موقر تنظیم کی طرف سے جن161 ملکوں کا جائزہ لیا گیا،ان میں پاکستان میں آزادیِ اظہار اور برداشت کی صورت حال کو139 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔البتہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس فہرست میں بھارت کا 138 واں نمبر ہے۔
یہ سال2013ء کے مہینے مارچ کی20 تاریخ تھی۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے احاطہ میں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کا جَمگھٹا تھا ۔جمعیت علماء اسلام، پشتونخوامیپ، نیشنل پارٹی کے لوگ موجود تھے۔ نوابزادہ طارق مگسی، شیخ جعفر خان مندوخیل ،اسلم بھوتانی ،مولانا عبدالواسع اور اس وقت کے بلوچستان اسمبلی میں اسپیکر سید مطیع اللہ آغا بھی حاضر تھے۔
تین مارچ کے سینیٹ انتخابات میں بلوچستان سے آنے والا نتیجہ غیر متوقع ہرگز نہ تھا، بلکہ طے شدہ اور یقینی تھا۔ یقیناًچیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بلوچستان کے میر صادق سنجرانی کی کامیابی بھی سیاست کی بازی گری کا کمال تھا۔
گوادر قدرتی جغرافیائی اہمیت کے حامل اور تین اطراف میں سمندری محل وقوع کی وجہ سے اس جزیرہ نما شہر کی اہمیت کو ڈیپ سی پورٹ سٹی نے مزید چار چاند لگادیئے ہیں جس سے اب پوری دنیا کی توجہ گوادر پر مرکوز ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے قبل آواران سے بیلہ اور تربت سے آواران کی سڑکیں کچی ہوا کرتی تھیں۔ لیکن انہی کچی سڑکوں پر ٹریفک کی روانی ہوتی تھی۔ اشیا ء خوردونوش ایران سے سستے داموں لائی جاتی تھیں۔ لوگوں کو ارزاں قیمت پر چیزیں دستیاب ہوتی تھیں۔ تربت ٹو آواران روڑ پر چلنے والے ٹریفک کی وجہ سے جگہ جگہ ہوٹل اور کیبن کھلے رہتے تھے۔
انسانی تاریخ کے عظیم ترین سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کی ایک تحریر نظر سے گزری جس کے مطابق کرہ ارض یاسیارہ زمین آئندہ چھ سوسے ایک ہزارسال تک انسانوں سمیت کسی بھی حیات کے رہنے کے قابل نہیں رہے گی اس کی وجہ انسان کے ہاتھوںآنے والی تباہی ہے وہ کرہ ارض پر رہتا ہے لیکن اس کے ساتھ بے رحمانہ کھیل کھیل رہا ہے یعنی جس شاخ بیٹھا ہے ۔