ایک ایسے خطہ میں جہاں کچھ عناصر اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر نا صرف خاموشی اختیار کرتے ہیں بلکہ اس معاملے کودھندلانے کی کوشش بھی کرتے ہیں جیسا کہ بھارتی شہر منی پور میں مسیحی برادری کی حالتِ زارپر کیا جارہاہے۔ پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ عدم برداشت اور جنونیت کی قوتوں سے نفرت کرتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کے زبردست اور واضح علمبردار اور حامی کے طور پر سامنے آئے۔
آج20اگست ہے میرحاصل بزنجو کی تیسری برسی، وہ شخص جوزندگی کی علامت تھا خراب ترین حالات میں بھی جس کے چہرے پر مسکراہٹ سجی ہوتی تھی یقین نہیں آتا کہ وہ مرگیا میرحاصل بزنجو سے ہماری شناسائی تین دہائیوں سے زیادہ عرصے پرمشتمل ہے یہ جنرل ضیاء کے خونی مارشل لاء کا دورہے قید،کوڑے،پھانسیاں اورعقبوت خانے سیاسی کارکنوں کا مقدرہیں۔
میرِجمہوریت میرحاصل بزنجو کو دنیا سے رخصت ہوئے تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اب بھی دل نہیں مانتا کہ میرصاحب ہم میں نہیں ہیں ہم ہر وقت ان کی کمی کو محسوس کرتے رہتے ہیں۔
میرغوث بخش بزنجو قابل ترین سیاستدانوں میں سے ایک ہیں وہ اسلام آباد میں ملک کے لیے ایک بڑا اور اہم کردارادا کرسکتے تھے،لیکن اپنی بلوچ شناخت اور بلوچ کاز سے وابستگی کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ (معروف امریکی صحافی سلیگ ایس ہیرسن کی کتاب ”In Afganistan Shodon”سے اقتساب) لیکن حقیقت یہ ہے کہ… Read more »
میر غوث بخش بزنجو نے طویل قید و بند کی زندگی گزاری ۔ وہ ہمیشہ اپنے اصول، قول و فکر اور نظریے سے جڑے رہے ۔ میر بزنجو کی سیاست کی سمت ہمیشہ یک طرفہ رہی ۔ اُنہوں نے جمہوریت کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ جمہوریت کو پروان چڑھایا ۔
8 اگست 2016 بلوچستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا کہ جس کو بھلانے میں صدیاں درکار ہوں گی کیونکہ اس روز صوبے اور ملک میں شعوری جدوجہد کے سرخیلوں، امن کے پیامبروں، سماجی انصاف کے علمبرداروں، ترقی پسند سوچ کے مفکروں، عدلیہ کی وقار کی سربلندی کے پروانوں کے قافلے کے ہردل اؤل دستے میں شامل ستر وکلاء کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشتگردی کا نشانہ بناکر ہم سے جسمانی طور پر الگ کیا گیا۔
پنجرہ پل وادی بولان کے بیچ واقع ہے۔ وادی بولان اور گرد نواح میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران وقفے وقفے سے بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور سیلابی صورتحال نے سندھ بلوچستان قومی شاہراہ NA 65 کوبولان پنجرہ پل کے مقام پر راستہ مکمل بندکردیا ہے۔ پنجرہ پل زیر آب آنے کے بعد ہر قسم کی ٹریفک رک گئی ہے۔کوئٹہ سے پنجاب اور سندھ کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ ہزاروں گاڑیاں اور مسافر بولان میں مختلف مقامات پر محصور ہو کر گئے ہیں۔ کسی زمانے میں انگریزوں نے یہ پل بنایا تھا جو پنجرہ پل کے نام سے مشہور ہوا۔غالباً 1985 ء میں ایک زوردار سیلاب آیا جس کی وجہ سے یہ لوہے کا پل ٹوٹ گیا تھا اور پھر اس وقت یہاں سے تقریباً دس فٹ اوپر کرکے سیمنٹ سریا کے لمبے بلاکس سے مقامی سطح پرپل تعمیر کیا گیا۔ پل کے درمیان میں ایک گول پلر دیا گیا تھا، جس پر پہ پل کھڑا تھا۔
پچھلے کچھ ایام سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا واقع معاشرے میں ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں کوئی ایسا شخص نہیں جسے اس واقعہ کا علم نہ ہو۔ اب تو یہ واقعہ بین الاقوامی سطح پر بھی خبروں کی گردش میں ہے۔ اس واقعہ کے مطابق یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی آفسر، ڈائریکٹر فنانس، پروفیسرز اور کچھ طلباء و طالبات کا نام آیا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے اندر منشیات کا کام کرتے تھے اور ان کے پاس سے تقریباً 5500 غیر اخلاقی ویڈیوز بھی موصول ہوئی ہیں۔ اسی بنیاد پر پورے معاشرے میں ایک گو مگو کی کیفیت ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بارشیں باعث رحمت اور زراعت کی ترقی کیلئے تریاق ثابت ہوتیں ہیں لیکن یہاں بلوچستان میں معمولی بارش بھی رحمت کی بجائے زحمت یا یوں کہا جائے کہ عذاب بن کر عوام پر نازل ہوتی ہے جہاں موثر پلاننگ کا فقدان ہو اور جزا وسزا کا نام تک ہی نہ ہو جہاں عوام کو کچھ بھی نہ سمجھا جاتا ہوں وہاں اس طرح کی ناانصافی اور ظلم و ستم روز کا معمول بن جاتا ہے۔