|

وقتِ اشاعت :   October 20 – 2023

پاکستان کے نامور مزاح نگار انور مقصود کے انیس سو اسی کی دہائی میں مزاحیہ خاکوں کی کیسٹ بڑی مقبول ہوئی ،

اس میں ایک خاکہ میں انور مقصود ایک بوڑھے افغانی سے پوچھتا ہے.

کہ آپ کب واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ’’ اس کا جواب تھا کہ اسی برس کا بوڑھا پہاڑ اتر تو سکتا ہے چڑھ نہیں سکتا، لہذا میں یہاں ہی رہوں گا‘‘
اس کا مطلب ہے کہ اس وقت کی حکومتوں نے جب افغانستان میں روس کے خلاف جذبہ جہاد کے ولولے کے نتیجے میں افغانیوں کی نقل مکانی اور پاکستان آمد کے لیے سرحدیں کھول دیں تھیں تو اس وقت سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے اعتراض کے ساتھ ساتھ انور مقصود جیسے ذی شعور لوگ بھی اس عمل کے نتائج سے خبردار کر رہے تھے.,

لیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی۔
کراچی جب بھتے، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان کی جکڑ میں آیا تو سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس کا ازخود نوٹس لیا اور اگلے کئی سال تک ہر پہلو پر بحث مباحثہ ہوا جس میں اس وقت کے وفاقی وزیر رحمان ملک نے خود قرار دیا تھا کہ اس بدامنی کی ایک بڑی وجہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں ۔اس کے بعد ان کے بار بار یہ بیانات سامنے آتے رہے ہیں انہیں جہازوں میں بھر بھر کر واپس بھیجا جائیگا لیکن تمام لوگوں نے دیکھا کہ جہاز تو کجا ایک آٹو رکشہ بھی بھر کر روانہ نہیں کیا گیا بلکہ انہوں نے اپنے قول اور فعل کے ذریعے اس کو ایک غیر سنجیدہ اشو بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان دہشت گردوں کے حملے کے بعد جب نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تو اس میں بھی ایک نکتہ طالبان کی واپسی تھی اس پلان کے ابتدائی دنوں میں کچھ ایکشن ہوا چند درجن افغانی شہریوں کو اپنے وطن واپس بھیجا گیا اس کے بعد ایک طویل خاموشی آگئی اور نیشنل ایکشن پلان تاریخ کا حصہ بن گیا۔
دس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد ایک بار پھر وفاقی حکومت کو خیال آیا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن بالخصوص افغانی شہریوں کو واپس بھیجا جائے کیونکہ وہ  بدامنی میں ملوث ہیں اس حوالے سے کچھ اعداد و شمار بھی پیش کیے جارہے ہیں کہ حالیہ دنوں جو خودکش بم حملے ہوئے ہیں ان میں ستر فیصد میں افغان شہری ملوث ہیں، وفاقی کابینہ ہو یا کور کمانڈر کانفرنس ان کا اتفاق ہے کہ اس بار پاکستان کو غیر قانونی تارکین وطن سے پاک کیا جائیگا تاہم اس ماضی کے تجربات ان دعوئوں کو مشکوک بنادیتے ہیں۔
پاکستان کے قیام سے لے کر مختلف ادوار میں دیگر ممالک سے مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا جن کی مذہبی جماعتیں مذہب اور بعض جماعتیں نسل کی بنیاد پر حمایت کرتی رہیں۔ 
لیاقت علی خان اور جواہر لال نہرو ملاقات کے بعد 1951 میں شہریت کا قانون لایا گیا تاہم اس کے بعد بھی انڈیا سے مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ 1980 کی دہائی تک جاری رہا۔
1971  میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد بہاری کمیونٹی نے پاکستان آنے کو ترجیح دی تاہم کئی خاندان وہاں رہ گئے، جو بعد میں انفرادی حیثیت میں 1985 تک آتے رہے۔ 1979 میں انقلاب ایران کے بعد ترقی پسند ایرانی شہریوں نے یہاں کا رخ کیا۔
بنگالیوں کے بارے میں پالیسی کے مطابق وہ بنگالی جنہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی، وہ پاکستانی جو اس وقت بنگلہ دیش میں موجود تھے اور پھر واپس پاکستان آئے یا وہ بنگالی جنہوں نے رضاکارانہ طور پر پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا، انہیں شہریت دی جائے گی لیکن اس کے لیے انہیں دستاویزات پیش کرنا ہوں گے۔
 1980 میں افغانستان پر روس کے حملے کے بعد آبادی کی ایک بڑی تعداد کو پاکستان نے پناہ دی۔ برما میں جب مسلمانوں پر حملے ہوئے تو برمی یا ارکانی مسلمانوں نے بھی پاکستان کارخ کیا۔
صنعتوں، روزگار کے مواقعوں کی فراوانی اور خوشگوار موسم کی وجہ سے غیر ملکیوں کی پہلی ترجیح ہمیشہ کراچی رہی ہے، پہلے شہر کے مضافاتی علاقوں میں کچی بستیاں اور پھر پکی بستیاں بن گئیں اس کی مثال مچھر کالونی سے لے کر افغان بستی تک موجود ہے۔
کراچی میں سہراب گوٹھ کے قریب1990 کی دہائی تک افغان پناہ گزینوں کے کیمپ موجود تھے، جو بعد میں فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث بند کر دیے گئے، جس کے نتیجے میں یہ پناہ گزین کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر شہروں میں بھی پھیل گئے ۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے بارے میں ادارہ یو این ایچ آر سی ، افغانستان حکومت اور حکومت پاکستان  میں تین فریقی معاہدے کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ افغانی شہریوں کو رضاکارانہ طور پر واپس بھیجا جاسکتا ہے نہ کے جبری۔ یعنی اگر وہ جانے سے انکار کریں تو ان کے پاس یہ حق موجود ہے، یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ کئی ایسے خاندان جن کو اقوام متحدہ کی طرف سے ہزاروں ڈالر دیکر افغانستان پہنچایا گیا گھرو ںکی تعمیر کے لیے پیسے دیئے گئے وہ کچھ عرصے کے بعد واپس آئے اور دوبارہ آکر بس گئے۔
سوال تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان اپنے فیصلے پر کیوں قائم رہتی ہے؟ اس کا جواب اس کی فارن پالیسی سے جڑا نظر آتا ہے جس میں اگر افغانستان حکومت سے تعلقات بہتر ہیں اور ایک دوسرے کا لحاظ رکھا جارہا ہے تو ہاتھ ہلکا ہوجاتا ہے اگر کشیدگی آتی ہے تو پھر دوبارہ اس کو کس لیا جاتا ہے، موجودہ وقت میں بھی ماہرین یہی سمجھتے ہیں کہ طالبان حکومت پر دباؤ کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے یہ کتنا کارگر ثابت ہوا ہے اس کا جواب ابھی آنا ہے۔
غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی تو معمول کی کارروائی ہے اس کے لیے وفاقی حکومت کے احکامات کی بھی ضرورت نہیں یہ تو صوبائی معاملہ ہے کیونکہ پولیس کے پاس فارن ایکٹ موجود ہے جس کے تحت ایسے غیر ملکیوں کو گرفتار کر کے پاکستان سے بے دخل کیا جا سکتا ہے، لیکن عمل نہیں ہوتا۔
افغانیوں کے علاوہ جو باقی برمی اور بہاری ہیں ان کے بارے میں پالیسی تھوڑی مختلف ہے چاہے ریاست ہو یا سیاسی جماعتیں۔ ایم کیو ایم، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ان کی حمایتی رہی ہیں مسلم لیگ ن اور اس کے بعد تحریک انصاف حکومت نے تو انہیں شناختی کارڈ دلانے کی بھی کوشش کی اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی کراچی میں ووٹ بینک بنانے کے لیے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن محتاط انداز میں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کراچی سے باہر سندھ کے عوام کا اس پر شدید رد عمل آئیگا۔
ایک دلیل یہ دی جارہی ہے کہ کیونکہ ان تارکین وطن کی تیسری چوتھی نسل یہاں پیدا ہوچکی ہے لہذا انہیں شہریت ملنی چاہئیے جیسا دوسرے ملکوں میں ہوتا ہے تاہم اس کا جواب بھی سوشل میڈیا پر ہی آیا کہ کیا دنیا میں ایسے تارکین وطن کو شہریت دی گئی ہے جو اسلحے و منشیات کی فروخت اور  بدامنی کا باعث بن رہے ہوں۔
کراچی ہو یا کوئٹہ وہاں کے اصل باشندوں یعنی سندھی اور بلوچوں کے یہ خدشات کہ یہ تارکین وطن آبادی میں عدم توازن پیدا کریں گے جس کے نہ صرف سیاسی ، معاشرتی اور تقافتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اوریہی وہ اثرات ہیں جن کا جھٹکا وفاق کو لگتا رہا ہے۔