|

وقتِ اشاعت :   October 15 – 2023

‘‘پاک چائنہ ایکانومک کوریڈور’’ (سی پیک) کھٹائی میں پڑگیا۔ منصوبہ اپنے سیکنڈ فیز میں داخل ہونے کے لئے فنڈز کی کمی کا سامنا کررہا ہے، منصوبے کے پہلے فیز پر چین اب تک 26 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے، جبکہ اس منصوبے کا کل تخمینہ 50 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

اس منصوبے کو 2013 میں شروع کیا گیا تھا۔ اس کا دوسرا فیز 2023 میں شروع ہونا تھا۔ دوسرے مرحلے میں توانائی، موسمیاتی تبدیلی، بجلی کی ترسیل اور سیاحت جیسے شعبوں پر کام شروع ہونا تھا۔ اس میں گوادر بندرگاہ کو کراچی کی بجلی کے گرڈ سے منسلک کرنے کا منصوبہ بھی شامل تھا، ان منصوبوں کو چین نے مسترد کر دیا ہے اور ‘‘سی پیک’’ پر مزید سرمایہ کاری سے انکار کردیا ہے۔ تاہم چینی اور پاکستانی حکام نے نہ اس بات کی تردید کی اور نہ ہی تصدیق کی۔


جاپانی مالیاتی اخبار نکی ایشیا کی جاری رپورٹ کے مطابق، چین نے مبینہ طور پر سیکیورٹی اور سیاسی عدم استحکام کے خدشات کے باعث سی پیک کے تحت پاکستان کی جانب سے نئے پروجیکٹس کی تجاویز کو مسترد کردیا ہے، جاپانی اخبار میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی ملاقات کے منٹس کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں چین نے مزید سرمایہ کاری کرنے میں اپنی ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔نکی ایشیاء کے مطابق چین نے اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے اپنے شہریوں کے عدم تحفظ کا بھی اظہار کیا، نکی ایشیاء میں چھپنے والی اسٹوری عدنان عامر کی تھی، نکی ایشیاء کے نمائندہ عدنان عامر کا تعلق بلوچستان سے ہے۔
گوادر ڈیپ سی پورٹ کی وجہ سے بلوچستان سی پیک کا مرکز ہے،

گوادر ڈیپ سی پورٹ کا افتتاح سابق صدر جنرل پرویز مشرف مرحوم نے کیا تھا جس پر 248 ملین ڈالر کی لاگت آئی تھی، اس تقریب میں کراچی، لاہور، کوئٹہ اور اسلام آباد سے صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ میں بھی اس تقریب میں شریک تھا، اس وقت میں دی نیشن لاہور کے کراچی بیورو سے منسلک تھا، جبکہ گوادر کے مقامی صحافیوں کو تقریب میں نظر انداز کیا گیا تھا جو ایک غیر اخلاقی فیصلہ تھا، جس پر اس وقت کی وفاقی وزیر زبیدہ جلال اور اس وقت کے ضلع گوادر ناظم بابو گلاب نے مقامی صحافیوں کو مدعو نہ کرنے پر متعلقہ انتظامیہ سے تشویش کا اظہار کیا تھا۔

اگر دیکھا جائے تو کسی بھی خطے میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے دو بنیادی وجوہات سرفہرست ہوتی ہیں جن میں امن و امان کی صورتحال ضروری ہوتی ہے، تاکہ آزاد نقل و حرکت ہوسکے۔ جوگوادر میں ناممکن نظرآرہا ہے۔ دوسری وجہ انفرااسٹرکچر ہے، سی پیک کے مرکزگوادر میں بجلی کا بحران موجود ہے۔ بجلی ایران سے آتی ہے، دن میں کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، بجلی کی کمی کی وجہ سے منصوبے پر کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے۔ ماڈرن دور میں بجلی کو انفرااسٹرکچر کی بنیاد کہاجاتا ہے، جس کا مطلب وہ ستون جس کے سہارے پورٹ کی سرگرمیاں اور صنعتوں کی چمنیاں چلتی ہیں۔


دوسری جانب گوادر پورٹ سے متعلق یہ انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان گوادر بندرگاہ کو صرف ٹرانزٹ پورٹ کے طور پر استعمال کرسکتا ہے، کیوںکہ گوادر کو انٹرنیشنل سی پورٹ کے معیار پر لانے میں مزید کئی سال درکار ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو سامان یہاں پہنچتا ہے، اس کی اکثریت مقامی مارکیٹ کے لیے نہیں ہوتی، بلکہ اندرون ملک نقل و حمل کے طریقوں کے ذریعے اندرونی علاقوں میں آخری منزل تک پہنچائی جاتی ہیں۔ اس وقت گوادر میں کوئی انڈسٹریل کمپلیکس یا تجارتی علاقہ نہیں ہے،

دوسرے اور تیسرے درجے کے منصوبے ہیں جن کی تکمیل میں طویل وقت درکار ہوگا۔
بدقسمتی سے اسلام آباد کی سرکار کی طرح بلوچ پارلیمانی جماعتیں بھی اقتدار میں ہوتے ہوئے سی پیک جیسے منصوبے کو سمجھ نہیں پائیں یا تو پھر یہ ان کی نااہلی تھی۔ سی پیک میں بلوچستان کی فشریز اور زرعی صنعت کو نظرانداز کیا گیا۔ مقامی ماہی گیروں، کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کو معاشی و اقتصادی طورپر مستحکم کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) نے بغل بچہ کا کردار ادا کیا اور اپنی اپنی مدتیں پوری کرلیں۔

جب یہ جماعتیں اقتدار سے باہر ہوجاتی ہیں تو یہ بڑے انقلابی بن جاتی ہیں۔

مجھے بلوچستان عوامی پارٹی سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے۔ کیونکہ وہ سردار نوابوں، میر اور معتبروں کی پارٹی ہے۔ جو اسٹیبلشمنٹ کا ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہے۔ جس کو 24 گھنٹے میں پیدا کیا گیا تھا، ان کے امیدواروں کو جعلی مینڈیٹ سے جتوایا گیا اور اقتدار ان کے حوالے کردیا گیا۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والی جماعتوں نے پنجاب کے لئے بڑی منصوبہ بندی کی۔ سی پیک کے سیکنڈ فیز میں پنجاب اور دیگر صوبوں میں صنعتی زونز اور ڈرائی پورٹس قائم کئے جانے کے منصوبوں کو حتمی شکل دے دی گئی ہے

جس سے پنجاب میں روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔
بلوچستان کے عوام کو سی پیک کے ثمرات سے دور رکھا گیا۔ بلوچستان کے تمام اضلاع میں زراعت، فشریز اور معدنیات سے متعلق اپنی اپنی نوعیت کے پوٹینشلز ہیں۔ بلوچستان محل وقوع اور اقتصادی حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل خطہ ہے۔

لیکن بدقسمتی سے سی پیک میں بلوچستان کو معاشی، اقتصادی اور سماجی ترقی کے حوالے کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ ہونا تویہ چاہیئے تھا کہ بلوچستان میں سی پیک کے تحت تمام اضلاع میں اقتصادی زونز قائم کئے جاتے،بلوچستان میں بڑے بڑے بارانی دریا ہیں۔

جو پانچ سو کلومیٹر سے لیکر دو ہزار کلومیٹر تک طویل ہیں۔

، جن میں دریا ہنگول، دریا بسول، دریا مولہ، دریا بولان، دریا پورالی، دریا کیچ، دریا رخشان، دریا ژوپ سمیت دیگر دریا شامل ہیں۔ ان دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیمز بن سکتے ہیں۔ ان منصوبوں سے بلوچستان کی زراعت کو فروغ مل سکتا ہے۔ جہاں کپاس، گندم، چاول، سبزی، پھل سمیت دیگر پیداوار وافر مقدار میں ہوتی ہے۔ انہیں پانی کی فراہمی سے مزید بہتر کرسکتے ہیں۔ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں لاکھوں ٹن کھجور کی پیداوار ہوتی ہے، اگر پانی کی قلت کو دور کیا جائے تو ان کی پیداوار بڑھ سکتی ہے۔

کھجور کی پیداوار کے لئے ایکسپورٹ پروسیسنگ یونٹس قائم کئے جائیں جبکہ ان ڈیمز سے بجلی کی پیداوار بھی ہوسکتی ہے۔ یہ بجلی نہ صرف ملک کی ضروریات پوری کرے گی بلکہ یہ بجلی دیگر ممالک کو فروخت بھی کرسکتے ہیں۔ آج ہم ایران سے بجلی خرید رہے ہیں،

ایران کی بجلی سے گوادر پورٹ سمیت دیگر منصوبوں کو چلا رہے ہیں جبکہ ہمارے غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے ہم بجلی کے منصوبوں کو حتمی شکل نہیں دے سکے۔ ان دریاؤں میں ’’ان لینڈ فشریز‘‘ کے شعبے کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔ ’’ان لینڈ فشریز‘‘ سے میٹھے پانی کی مچھلی کی پیداوار کرسکتے ہیں۔ ان ڈیمز کی تعمیر سے یہاں سیاحت کو بھی فروغ دے سکتے ہیں، یہاں پکنک پوائنٹس بناسکتے ہیں جس سے ریسٹورنٹس اور ہوٹلنگ کا بزنس پروان چڑھے گا۔ مذکورہ دریاؤں سے نہ صرف زراعت، بجلی اور سیاحت کے شعبے کو فروغ ملے گا۔

بلکہ وہاں ڈیری، پولٹری اور کیٹل فارمنگ کو باقاعدہ ایک کامیاب بزنس بنایا جاسکتا ہے جس سے غذائی قلت بھی دور ہوگی، روزگارکے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور کاروبار کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا۔
گزشتہ کئی سالوںسے جاری کچھی کینال کو سی پیک کا حصہ نہیں بنایا گیا،۔

جبکہ زراعت کو سی پیک کا اہم جز سمجھاجاتا ہے، کچھی کینال کا سالانہ فنڈز محدود ہونے کی وجہ سے منصوبہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا ، آئندہ دس سے پندرہ سال میں بھی یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔

کچھی کینال کی تکمیل سے نہ صرف ضلع کچھی بلکہ ضلع نصیرآباد، ڈیرہ بگٹی اورجھل مگسی میں بھی خوشحالی آئے گی، لاکھوں ایکڑبنجراراضی آباد ہوگی اور بہتر فصلیں پیدا ہوں گی۔
ضلع خضدار سی پیک کی نہ صرف ایک اہم گزرگاہ ہے

، بلکہ یہ سی پیک کا ایک جنکشن بھی ہے۔

جہاں ڈرائی پورٹ بنانے کامنصوبہ بھی ہے، اس منصوبے کے لئے ابھی تک جگہ کو مختص نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب گوادر پورٹ، گوادر ایئرپورٹ سمیت صنعتی زونز کو چلانے کے لئے مقامی نوجوانوں کی تعلیم و تربیت ضروری ہونی چاہیے تھی مگر صد افسوس کہ گوادر کو ایک الگ یونیورسٹی تک نہیں دی گئی، جبکہ گوادر سمیت بلوچستان میں میرین انجینئرنگ یونیورسٹی، مائننگ یونیورسٹی سمیت دیگر پروفیشنل ایجوکیشن انسٹیٹوٹ کا قیام ہونا چاہیئے تھا۔ بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بیرون ممالک میں اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے اسکالرشپ کا منصوبہ بنانا چاہیئے۔

تھا تاکہ یہاں کے نوجوان سی پیک کے منصوبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں۔ لیکن گوادر کے ساتھ دو ہاتھ کیا گیا، پورٹ تو بنالیا مگر تجویز کردہ یونیورسٹی کی اراضی پر قبضہ کرلیا گیا، یونیورسٹی کے قیام کے لئے 493 ایکڑ اراضی مختص کی گئی تھی جس کا باقاعدہ افتتاح سابق وزیراعظم میاں محمدنواز شریف اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کیا تھا، تاہم کچھ عرصے بعد یونیورسٹی کی اراضی بھی لاپتہ ہوگئی۔
سی پیک میں ماہی گیری کی صنعت کو نظرانداز کیا گیا،۔

بلوچستان کی ساحلی پٹی 700 کلو میٹر طویل ہے، ساحلی پٹی ضلع گوادر، ضلع لسبیلہ سے لے کر ضلع حب تک پھیلی ہوئی ہے، تینوں اضلاع کے 80فیصد لوگ ماہی گیری سے تعلق رکھتے ہیں، ماہی گیروں کی کشتیوں کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے ،انہیں جال اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں۔

سونمیانی، کنڈ ملیر اورماڑہ، تاک، کلمت سمیت دیگر ماہی گیر بستیوں میں چھوٹی چھوٹی فش ہاربرز (بندرگاہیں) بنائی جائیں، سی پیک کے منصوبے کے تحت پسنی فش ہاربر کی بحالی کا کام مکمل کیا جائے ۔

جو کئی عرصے سے مٹی تلے دب چکا ہے۔ علاوہ ازیں ماہی گیروں کے لئے کولڈ اسٹوریجز کا قیام ضروری ہے تاکہ سی فوڈ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوسکے اور وہ گوادر پورٹ کے ذریعے پوری دنیا میں ایکسپورٹ ہوسکے، جس سے ملک کو زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا اور ماہی گیر بھی خوشحال ہوں گے۔
لیکن اب بات کہیں دور نکل چکی ہے، اب بلوچ کا مسئلہ ترقیاتی منصوبے نہیں ہیں، اب بلوچ کا مسئلہ قومی تشخص کا ہے جوکہ خطرے میں ہے۔ بلوچستان میں ڈیموگرافک تبدیلی لائی جارہی ہے، بلوچوں کو اپنی ہی سرزمین پراقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے، بلوچستان کی ساحلی پٹی پر سی پیک کے نام پر رئیل اسٹیٹ کا کاروبار عروج پر ہے۔

One Response to “گڈ بائے ‘‘سی پیک’’”

  1. Sumera

    اخلاقی نتیجہ:-
    سی پیک کو اسٹیبلشمنٹ اور اس کی ناقص پالیسیاں لے ڈوبی۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی کوئی قانون پاس ہو جائے تو شاید ملک ترقی کر جائے ورنہ یہ زندہ قوم کم اور بھیڑ بکریوں کا ریوڑ زیادہ لگ رہا۔

Comments are closed.