پروفیسر ڈاکٹر سارہ عنایت کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ انہوں نے 2002 میں کوئٹہ سے ایم بی بی ایس کیا اور پھر 2005 میں پوسٹ گریجویشن کے لیے لاہور چلی گئیں۔ شیخ زاہد ہسپتال لاہور سے ایم سی پی ایس کیا اور پھر میو ہسپتال لاہور میں ڈاکٹر سبرینہ کے زیر سایہ میڈیسن اور ڈرمیٹالوجی میں اپنی تربیت شروع کی۔ انہوں نے ڈاکٹر سبرینہ سے نہ صرف ڈرمیٹالوجی بلکہ انسانی ہمدردی کا سبق بھی سیکھا تھا اور پھر وہ کوئٹہ کے لوگوں کی خدمت کے لیے ایم سی پی ایس اور ایف سی پی ایس کی ڈگریاں لے کر واپس کوئٹہ آگئی۔ وہ اپنے خاندان کی پہلی ڈاکٹر تھیں جو اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور گئیں۔
دنیا کی تاریخ جنگی کارناموں سے بھری پڑی ہے لیکن جنگی کارناموں کے حوالے سے جو تاریخ پاک افواج نے رقم کی ہے اس کی نظیر شاید ہی دنیا میں کہیں ملتی ہو ۔ایسے غیر معمولی واقعات کم ہی پیش آئے ہیں جب آپ ایسے کام کر جائیں کہ دنیا آپ کو رشک کی نگاہ… Read more »
ایک عام پاکستانی کا مسئلہ نا تو عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم کا حکومت میں آنا نہ کسی عام پاکستانی کو حمزہ شہباز کی حکومت جانے کا دکھ ہے اور نہ ہی پرویز الٰہی کی مشروط حکومت کی خوشی ہے۔ کسی عام پاکستانی کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ سندھ میں ابھی بھی بھٹو زندہ ہے اور ایم کیوایم مختلف ناموں کے ساتھ کراچی میں سیاست کر رہی ہے ۔ایک عام پاکستانی کو اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ بلوچستان میں کب کون کس پارٹی میں شامل ہوتا ہے اور کونسا نیا چہرہ وزیراعلیٰ کی مسند پر بیٹھتا ہے اسی طرح ایک عام پاکستانی کو نہ امپورٹڈ ترجمان شہباز گل کی گرفتاری سے غرض ہے اور نہ عمران خان پر درج ہونے والے مقدمات سے ایک عام پاکستانی عدلیہ کے فیصلوں میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا کہ کس کو ضمانت ملتی ہے اور کون جیل جاتا ہے۔ پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کیسے ہیں اور ٹی ٹی پی سوات میں کیوں واپس آئی ہے اس سے بھی ایک عام پاکستانی لاعلم ہے عوام کی اکثریت جو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اسے فکر لاحق ہے تو صرف بڑھتی ہوئی بے روزگاری غربت مہنگائی اور بنیادی سہولیات کے فقدان کی ۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ ملک میں ہر طرف سیلاب پھیلا ہوا ہے جس نے کے پی کے ،سندھ ،بلوچستان اور جنوبی پنجاب کو بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے گیارا سو سے زیادہ انسانی جانوں، آٹھ لاکھ سے زیادہ مویشیوں، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کا نقصان ہو چکا ہے ۔
ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع راجن پور کے تقریباً اسی فیصد مواضعات سیلاب کی وجہ سے مکمل طور پر ڈوب چکے ہیں۔لوگوں کا کچھ بھی باقی نہیں بچا سب کچھ پانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔گورنمنٹ سمیت سماجی تنظیموں اور پاکستان کے مخیر حضرات نے گزشتہ کئی دنوں سے ان اضلاع کے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں شروع کی ہوئی ہیں۔جس سے وہ متاثرہ لوگوں کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں خشک راشن ،ٹینٹ، کپڑے جوتے،بسترے،آٹا،ادویات سمیت ضرورت زندگی کی اشیاء سیلاب زدگان تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ابتدائی دنوں میں تو سب کچھ ٹھیک چلتا رہا لیکن اب پچھلے کئی دونوں سے دیکھنے اور سننے میں آ رہا ہے کہ غیر متاثرہ،پیشہ ور بھکاریوں اور جرائم پیشہ لوگوں نے لوٹ مار کرنے کیلئے مختلف گروہ بنا لیے ہیں جو امدادی سامان والی گاڑیوں پر یا جہاں امدادی سامان تقسیم کیا جا رہا ہو تا ہے وہاں دھاوا بول کر سب کچھ لوٹ لیتے ہیں۔یہ حقیقت ہے قدرتی آفات کے بعد متاثرہ علاقوں میں امدادی کاروائیاں شروع ہوتے ہی وہاں بڑے پیمانے پر لوٹ مار بھی شروع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے حقیقی متاثرین تک امداد نہیں پہنچ پاتی۔یہ حالات میں اپنی آنکھوں سے خود بھی دیکھ چکا ہوں۔گزشتہ رات بھی گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج تونسہ شریف کے کمروں میں رکھے ہوئے امدادی سامان پر ایسے ہی گروہ کے شرپسندوں نے دیواریں پھلانگتے ہوئے دھاوا بول کر سب کچھ لوٹ لیا۔پچھلے کئی روز سے ایسے واقعات معمول کے مطابق ہو رہے ہیں۔
بلوچستان میں طوفانی بارشوں نے تباہی مچا کے رکھ دی سیلابی ریلوں نے تو سب حدیں ہی مٹادیں اور پورے بلوچستان میں ہر طرف پانی ہی پانی بن گیا۔طوفانی بارشوں کا پانی اور سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزر رہے تھے وہاں موجود بستیوں کو اپنے ساتھ تنکوں کی طرح بہا کے لے جا رہے تھے۔ اس وقت بھی این ایف سی ایوارڈ کی مد میں بلوچستان کو فنڈز رقبے کے لحاظ سے نہیں بلکہ آبادی کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اس وقت ریاست اور حکومت کہاں ہے۔۔؟ فلڈ کنٹرول ادارے بھی شاید نیند کی گولیاں کھا کر خواب ِخرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔اس وقت بھی بلوچستان میں محکمہ موسمیات نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ گوگل پر موسمیات کی رپورٹ جھوٹی ہوتی ہے جب ہمارے شہر میں بارش ہو رہی تھی تب گوگل موسم صاف بتا رہا تھا جو عبرت ناک بات ہے ۔محکمہ موسمیات بھی عوام کو سیلابی صورتحال سے پہلے سے آگاہ نہ کر سکی۔ پورے بلوچستان میں کل تین بڑی سڑکیں ہیں۔کراچی سے کوئٹہ جعفرآباد سے کوئٹہ پشین سے لاہور تک ان سڑکوں کا برا حال ہے یا تو ان کے پل گر جاتے ہیں یا تو پھر ٹریفک کی وجہ سے جام ہو جاتے ہیں حالیہ بارشوں کی وجہ سے بلوچستان میں مجموعی طور پر سینکڑوں گھرانے تباہ ہوگئے ہیں۔
صوبہ بلوچستان کو اگر مسائلستان کا نام دیا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا یا یوں کہا جائے کہ مسائلستان ہی بلوچستان ہے تو یہ دریا کو کوزے میں بند کرنے والی بات ہوگی۔ یہ صوبہ رقبے اور زمینی اعتبار سے جتنا وسیع و عریض ہے مسائل کے اعتبار سے بھی ویسا ہی کشادہ اور بھرپور ہے ، بلوچستان کا بارڈر ملک کے باقی تینوں صوبوں کے علاوہ دو مسلم برادر ملکوں سے بھی جڑاہوا ہے۔اگرچہ اس صوبے کو ہر طرح کے مسائل اور خطرات درپیش ہیں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ اس میں وسائل اور قدرتی نعمتوں کی بھی کمی نہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ یہ وسائل یہ نعمتیں صوبے کے حق میں کبھی فائدہ مند ثابت نہ ہوسکیں جو کہ سب سے بڑا المیہ ہے۔ خیر بات ہورہی تھی بلوچستان یا مسائلستان۔ یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہے کہ بلوچستاں میں امن و مان کی صورتحال بد قسمتی سے کبھی پْرسکون نہیں رہی مگر حالیہ سیلاب کی صورت حال نے بھی سب سے پہلے بلوچستان کا رخ کیا اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی،جن اضلاع میں سیلابی صورتحال سے سب سے زیادہ تباہی پیدا ہوئی ان میں لسبیلہ، کوئٹہ،بولان،سبی ،جعفر آباد،صحبت پور،ڈیرہ بگٹی،کوہلو،بارکھان،لورالائی،قلعہ سیف اللہ،زیات،نوشکی اور چمن سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع شامل ہیں۔ ہلاقتوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے جن کی صحیح تعداد اس لئے بتانا مشکل ہے کہ بلوچستان کے اکثر اضلاع تک میڈیا کی رسائی ہی نہیں۔
اس دیس کے واسی کئی سال قحط جھیلتے رہے کئی سال افلاس برداشت کرتے رہے کئی سال بدامنی کا سامنا کرتے رہے۔یہ دیس تو ابھی بدل رہا تھا بزرگ واسی اپنے دیس لوٹے تھے ان کے چہرے کھل اٹھے ان کی امیدیں بر آئیں۔وہ قحط زدہ بدامن ماضی کو بھلا چکے تھے۔وہ اس دیس میں پھر سے جی اٹھے تھے۔وہ کھل کھلاتی لہلہاتی جھومتی فصلوں کو دیکھ کر شاد ہوتے تھے وہ تابناک مستقبل کے خوابوں سے ابھی نہیں نکلے تھے پھر اچانک سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا۔سب کچھ مون سون بارشوں کی نذر ہو گیا سب کچھ سیلاب برد ہوگیا۔نہ رہنے کے لیے گھر بچے نہ کھانے کے لیے اناج۔کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں جانور بہہ گئے۔
روم جل رہا تھا اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا۔ روم کے شہنشاہ نیرو کے بارے میں یہ ضرب المثل مشہور ہے۔ روم کو آگ لگانے کا الزام بھی نیرو کو ہی دیا جاتا ہے اور یہ کہ اس نے ایسا جان بوجھ کر کیا تھا۔ نیرو کو تاریخ کے ایک ایسے سفاک حکمران کے طور پر جانا جاتا ہے جس نے اپنی ماں، سوتیلے بھائی اور بیویوں کو قتل کرایا۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب سے شدید متاثرہ ضلع کوہلو ،شہر سے لیکر دیہاتوں تک تباہی کے مناظر پیش کررہا ہے اور کسی بھی سنسنی کے بغیر حقیقتاً کوہلو ڈوب رہا ہے۔ بلوچستان کا ضلع کوہلو کے باسی ہماری میٹھی زبان بلوچی بولنے والے میرے پاکستانی اشک بہانے پر مجبور ہیں نصوبہ، بلاول ٹائون ،اوریانی،تمبیلی ،ماوند ،تمبو پڑہ،کاہان سمیت ہر طرف دردناک داستانیں ہیں آج کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پاکستانیوں کا درد ان کے سوا کوئی اور محسوس نہیں کرسکتا ان بے یارو مدد گار انسانوں کا سہارا آسمان پر ہے اور زمین پر ہم خدا کا وسیلہ ہیں خدارا، ایسے نازک وقت میں اپنے تمام تر سیاسی اختلافات اور دیگر اختلافات بھلا دیں سیلاب سے متاثرہ پاکستانی ہماری راہ تک رہے ہیں ان کے آنسو پونچھیں اپنی حیثیت کے مطابق ان کی مدد کیجئے ایک مرتبہ پھر درد سہنے والے پاکستانی اپنی قوم کے منتظر ہیں۔ کوہلو میں طوفانی بارشوں سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال تباہی کی المناک داستانیں چھوڑ گیا ہے ۔
خدایا رحم فرما، میرا ملک ڈوب رہا ہے۔۔۔ پاکستان کے متعدد علاقے سیلاب کی نظر ہو چکے ہیں۔ کئی جانیں جا چکی ہیں۔ متاثرین بے یارو مددگار ہیں۔۔۔ یہ برِصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب بن گیا ہے جہاں رپورٹ کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں فصلیں، گھر، مال مویشی اور زمینیں برباد ہو چکی ہیں۔ بے سرو سامانی کا عالم ہے۔۔ خدایا رحم فرما…