|

وقتِ اشاعت :   November 13 – 2022

اورماڑہ شہر سے نکل کر جب ہم اورماڑہ کے دیہی علاقوں میں جارہے تھے تو میرے ذہن میں بار بار یہ سوال آرہا تھا کہ شہر میں تعلیم کا کوئی پرسان حال نہیں تو دیہی علاقوں میں کیا ہوگا؟ مکران کوسٹل ہائی وے سے جب ہم نے تاک لنک روڑ پر سفر شروع کیا تو لنک روڑ کی حالت بہتر دیکھ کر کچھ سکون ملی مگر ہمارا اگلا منزل اورماڑہ کے سکولز تھے جہاں تعلیمی صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا، کیونکہ ہم نے ماضی قریب میں یہ سنا تھا کہ بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کئی گئی تھی۔
اسی امید کے ساتھ ہم آگے چلتے رہے کہ دور درزا علاقوں میں کوئی ماڈل سکول نہ سہی البتہ بچوں اور بچیوں کو پڑھانے کے لئے استاد ہوں گے اور بچے کسی چھت کے سائے تلے بیٹھ کر اپنے مستقبل کے ادھورے خواب کی تکیمل کے لئے پڑھ رہے ہوں گے۔ اورماڑہ کے ایک سکول میں پہنچ کر ہمارے تمام خواب ادھورے نظر آنے لگیں۔
ہمارا پہلا منزل ایک مڈل سکول تھا، جب ہم سکول کے قریب پہنچ گئے تو دو درجن سے زیادہ بچے سکول کے احاطے میں کھلے آسمان تلے بیٹھ کر پڑھائی میں مصروف تھیں۔ سہانے مستقبل کے خواب سجائے انکی معصومیت دیکھ کر میں سوچتا رہا ہے کہ امیر خطے کے یہ غریب بچے تعلیم جیسی بنیادی سہولت سے کیوں محروم ہیں؟ چونکہ میری ڈکشنری میں لفظ کیوں کا جواب میسر نہیں اس لئے میں ہر چیز کو باریک بینیوں سے مشاہدہ کرتا رہا۔
ایک پانچ سالہ بچی، معصومیت اسکے چہرے سے عیاں تھی،بولنے لگی استاد نہیں اور کمرے بھی نہیں،ہم کھلے آسمان تلے پڑھائی پر مجبور ہیں۔ اقتدار کے کرسیوں پر براجمان والوں سے ہماری بس ایک التجاء ہے ہمیں ترقی نہیں صرف استاد اور کلاس رومز چاییے تاکہ ہم پڑھ کر ان سے سوال کرنے کے قابل ہوسکیں۔
آٹھویں گریڈ کے طالبہ بلندی جب سکول کے مسائل پر بول رہی تھی تو اسکی نم آنکھوں میں درجنوں سوال تھیں وہ رک رک کر کہہ رہی تھی کہ اس پسماندہ سماج میں ویسے بھی لڑکیوں کی تعلیم پر قدغن ہے مگر ہمارے علاقے کے بچیاں بڑی تعداد میں پڑھنے کی خواہش رکھتی ہیں، سکول میں صرف دو استاد ہیں اور دو کمرے۔
اورماڑہ شہر سے 25 کلومیٹر کی مسافت پر واقع بل گاؤں جہاں اکثریت کا ذریعہ معاش سمندر سے منسلک ہے اور یہ اورماڑہ کے دیہی علاقوں کا واحد سرکاری مڈل سکول ہے جہاں اسکول کے ایک استاد کے مطابق تین سو کے قریب طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔کلاس رومز میں بچوں اور بچیوں کی تعداد گنجائش سے کہیں زیادہ تھیں،لگ ایسا رہا تھا کہ ان بچوں اور بچیوں کو جانوروں کی طرح کسی بھاڑے میں بند کیا گیا۔
گورنمنٹ مڈل سکول بل کے دونوں کمرے طلبا اور طالبات سے بھری ہوئی تھیں اور اسکول کے احاطے میں کھلے آسمان تلے بچے اور بچیاں بھی کثیر تعداد میں موجود تھیں۔
ڈاکٹر بننے کی خواب آنکھوں میں سجائے ایک طالب علم نے درد بھری لہجے میں کہا کہ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ اپنے خاندان کے دوسرے لوگوں کی طرح سمندر کی بے رحم موجوں کا مقابلہ کریں، مگر سکول میں استاتذہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے خواب ادھورے رہ جائیں گے۔
اسکول کے ایک سئینر استاد نے دکھ بھری لہجے میں بتایا کہ قرب وجوار کے گاؤں میں یہ اکلوتا مڈل سکول ہے جہاں ہم صرف دو استاد فرائض منصبی سرانجام دے رہے ہیں اور کمرے نہ ہونے کی وجہ سے بچے اور بچیاں کھلے آسمان تلے بیٹھ کر پڑھائی جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ سخت گرمیوں اور سردیوں میں کھلے آسمان تلے بیٹھ کر پڑھنا ممکن نہیں۔ ہم نے ایجوکیشن کے اعلی حکام کو سکول کے مسائل کئی مرتبہ گوش گزار کئے ہیں مگر اب تک مسائل جوں کے توں ہیں۔
محکمہ تعلیم کے ضلعی حکام کہتے ہیں کہ ضلع بھر میں استاتذہ کی کمی ہے اور خالی آسامیوں کی لسٹ محکمہ تعلیم کے صوبائی حکام کو ارسال کی جاچکی ہیں۔
دوسری جانب محکمہ تعلیم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلع بھر میں گریڈ نو سے پندرہ کے پانچ سو آسامیاں خالی ہیں اور 2019ء میں محکمہ تعلیم گوادر کے آسامیوں پر امیدواروں کی کوالیفائی نہ کرنے کی وجہ سے تین سو سے زائد آسامیاں پر نہ ہوسکی ہیں۔