نظریاتی تعریف کے مطابق، قیادت ایک فرد یا افراد کے ایک گروہ کی وہ اہلیت ہے جو انہیں عوام کو متاثر کرنے اور ان کے تجویز کردہ راستے کو درست سمجھنے پر آمادہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ سیاسی قیادت کو عمومی طور پر ایک پسندیدہ خصوصیت سمجھا جاتا ہے، ماسوائے اس صورت کے کہ… Read more »
صوبائی حکومت کی اقدامات کے باعث بلوچستان خوشحالی کی جانب گامزن ہوچکاہے۔یہ بات فرح عظیم شاہ ترجمان صوبائی حکومت نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہی، اْنھوں نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت حقیقی عوامی حکومت کا فرض پورا کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ اْنھوں نے مزید بتایا کہ اہم صوبائی امور کی وزیر اعلیٰ سے منظوری کے لیے تیز رفتار فائل ورک پر گامزن ہے۔ فرح شاہ کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی دور حکومت میں میں کئی تعمیراتی منصوبوں پر عملدرآمد ہو رہا ہے اور تعطل کے شکار منصوبوں پر عملدرآمد کا آغاز ہو چکا ہے۔
تصورات کا فن اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی شان اور Ranking میں اضافے کا باعث ہے۔تصورات کا فن اور پولی میتھک طریقہ تعلیم اعلیٰ تعلیمی اداروں کی شان اور ranking کو بڑھاتا ہے۔
آج کے دور میں جب کوئی کہتا ہے نہ ہم پر بس آنکھیں بند کر بھروسہ کرو تو حیرت ہوتی ہے…یعنی دماغ کا استعمال شروع سے ہی ممنوع کر دیا گیا ہے۔ جبکہ ایسا تو خدا نے کبھی نہیں کہا، وہ کہتا ہے جانو، سمجھو پرکھو اور مانو۔
اقوام متحدہ تو واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ فیملی پلاننگ ہر انسان کا بنیادی حق ہے یہ بات سامنے رکھیں تو خود ساختہ تولیدی صحت اور فیملی پلاننگ غربت کے پہیے کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتی محسوس ہوتی ہے۔کیوں ایسی تمام عورتیں اور ان کے خاندان دنیا میں جہاں بھی رہتے ہیں بہتر زندگی گزارتے نظر آتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ ان کی زندگی میں پائیدار نشوونما نظر آتی ہے۔مسلمان ملکوں میں بنگلہ دیش اس کی واضح مثال ہے جو آبادی کے اعتبار سے دنیا میں اس دوڑ میں آگے کی بجائے پیچھے جاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔اور آبادی اور میسر وسائل کا بہترین توازن حاصل کرتا ہوا ملک نظر آرہا ہے۔یہ دنیا کا وہ حصہ ہے جو ایک وقت تک پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا حصہ تھا۔آج یہ اعزاز پاکستان میں صوبہ پنجاب کو حاصل ہے۔لیکن اس میدان میں پنجاب عملی طور پر اتنا کامیاب نہیں ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ قدرتی وسائل کی بہترین دستیابی کے باوجود عدم توازن کا شکار ہے۔کچھ جملے ہماری روز مرہ کی زندگی میں ایمان کا درجہ رکھتے ہیں اور اس ضمن میں برملا بولے سمجھے جاتے ہیں۔مثلا جان اللہ کو دینی ہے۔رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہے۔روح کے اعتبار سے یہ باتیں ٹھیک ہیں لیکن جس طرح اقبال نے کہا تھا کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔۔۔۔
ایک حقیقت یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ پاپولسٹ تحریکوں کے اندر عوام کی سب سے بڑی بھیڑ اْس آبادی سے ہوتی ہے جو اس سے پہلے کسی سیاسی تنظیم یا جماعت کا حصہ نہیں ہوتے۔ سو، انہیں کوئی غرض نہیں ہوتا کہ انہیں لیڈ کرنے والا کون ہے یا کہاں سے آیا ہے بلکہ انکے نزدیک انکے غم و غصے اور جذبات کی درست ترجمانی اہم ہوتی ہے۔یہاں اگر قیادت باصلاحیت ہو اور انقلابی وژن رکھتی ہو تو ایسی تحریک جلد ہی بڑی پارٹی کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ ایسی پارٹیاں چوک و چوراہوں پر بن جاتی ہیں اور ان میں مزاحمت کا بڑا جذبہ بھی ہوتا ہے۔ اسی لئے بھی روایتی لیڈرشپ خوفزدہ ہوتی ہے کہ کہیں انکی روایتی پارٹیوں کے بالمقابل کوئی نئی پارٹی تشکیل نہ پائے۔جو سیاسی کارکنان دیگر پارٹیوں کے اندر موجود ہیں وہ اکثر اس غلطی فہمی کے اندر مبتلا ہوتے ہیں کہ چونکہ وہ اور انکے جاننے والے دوسرے کارکنان اس پاپولسٹ تحریک کا حصہ نہیں ہیں، اس لئے اسے سماج کی مسترد شدہ تحریک مان لینا چاہیے۔ یہ صریحاً اجارہ پرست سیاسی کارکنوں کی بہت بڑی غلط فہمی و نابودی ہے۔اسی بناء پر حق دو تحریک کو یکسر اِگنور کرکہ اسے عوامی حمایت سے بے بہرہ قرار دے دینا بھی خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ حق دو تحریک کو عوام کے اندر پذیرائی حاصل ہے اور وہ ایک ایسے بڑے حلقے کو سڑکوں پر لے آئی ہے جو اس سے پہلے کبھی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ نہ تھے۔ البتہ تحریک کی قیادت کا امتحان اب آن پہنچا ہے کہ وہ اسکے مستقبل کا کیا فیصلہ کریں گے اور کیسے اسے عوام کی وسیع تر حلقوں تک پہنچانے کی حکمت عملی ترتیب دینگے۔ تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان کی ہچکولے کھاتی کشتی اس تحریک کو کیسے نیّا پار کرائے گی اب تک اسکے امکانات واضح و روشن نہیں نظر آ رہے ہیں۔
اکثر و بیشتر لوگوں کو یہ تعجب ہے کہ عمران خان کی حکومت پارلیمانی طریقے سے گئی ہے یا کسی سازش کے تحت۔ بظاہر تو عمران نیازی کی حکومت ایک جمہوری طریقہِ کار سے فارغ ہوئی ہے۔ پھر ایاز امیر، عمران ریاض جیسے پڑھے لکھے دیگر صحافی کیوں کر اس سازشی بیانیہ کے حق میں ہیں۔ چلیں آج اس تعجب کو دورِ کئے دیتے ہیں۔ ایکوڈارا جیسے غریب ملک نے جب امریکہ سے امداد کی اپیل کی تو امریکہ نے اپنے من پسند عہدیداران اور ملک میں اپنے طرزِ احکامات صادر کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ جارج بش نے اپنے دورِ اقتدار میں نہ صرف صدام حسین کی تعریف کی بلکہ محکمہ خزانہ کو احکامات جاری کئے تھے کہ انہیں امداد مہیا کی جائے۔ یکم اگست 1990کو صدام حسین نے امریکی وفاداریوں کو خاطر میں نہ لاکر کویت پر حملہ کردیا یہ صدام حسین کی پہلی غلطی تھی جس کا بعد میں انہوں نے خود اظہار بھی کیا تھا۔
اس کی ابتدائی زندگی نہایت ہی غربت اور تنگدستی میں گزری مگر غربت اور تنگدستی اس کے حصول علم کی جستجو پر غالب نہ آسکی۔ اسے علم حاصل کرنے کا بے حد شوق بلکہ جنون تھا۔وہ رات کو اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک کہ دن کا لیا ہوا سبق یاد نہیں کرلیتا۔اس دور میں چونکہ بجلی نہیں ہوتی تھی اس لئے اس کی چارپائی کے سرہانے مٹی کا ایک دیا جلتا تھا اسی کی روشنی میں وہ رات کو بہت دیر تک اپنے سبق کو یاد کرنے کے علاوہ اضافی مطالعے میں مصروف رہتا تھا۔ایک رات جب وہ پورے انہماک سے اپنے مطالعے میں مصروف تھا تو دیے کی روشنی مدھم ہونے لگی اور مدھم ہوتے ہوتے بج گئی دراصل دیے کا تیل ختم ہوگیا تھا۔
بلوچستان جوکہ سات دہائیوں سے جبر و استحصال اور سامراجی تسلط کے زیر اثر ہے۔ بالخصوص دو دہائیوں سے تو یہ دھرتی جنگی اکاڑہ بنا دی گئی ہے جس سے مکمل آبادی متاثر ہے۔ ماس کلنگ، ماس مائیگریشن، اجتماعی قبریں و اجتماعی سزائیں، جبری گمشدگیاں، وسائل کی بے دریغ لوٹ مار، سیاست و صحافت و ادب پر پابندی، ذریعہ معاش پر بندشیں۔۔۔ الغرض ہر طرح سے زمین زادوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ جمہوری سیاست کے داعی قوم پرست جماعتوں کو یا تو پیچھے دھکیل کر ختم کر دیا گیا یا پھر ان کے اندر سے ساری مزاحمت کی گرمائش نکال کر انہیں مصلحت پسندی و تابعداری پر لگا دیا گیا۔ ایسے میں عوام کے جذبات کی درست ترجمانی کا خلا پیدا ہوگیا اور عوام نے قوم پرست لیڈرشپ اور انکی جماعتوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
عالمی سطح پر نظام کے بحران اور زوال کے نتیجے میں ہر طرف سیاسی عدم استحکام پیدا ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر معاشروں کے بیلنس بگڑ چکے ہیں۔ افراتفری اور بیگانگی کی کیفیت پروان چڑھ چکی ہے۔ سماجی قدریں گِر چکی ہیں۔ عمومی سوچیں تنزلی کی شکار ہیں۔ تمام تر دانش اور تجزیے سطحی نوعیت پر چلی گئی ہیں۔ سائنس و نظریات کی جگہ نعرہ بازی اور لفاظی نے لے لی ہے۔