اس وقت بلوچستان کے ہر سو ماتم رچا ہوا ہے۔ پیرکوہ میں ہیضے کے باعث لاتعداد اموات ہوچکی ہیں، لیکن حکومت خواب خرگوش کی نیند سورہی ہے۔ بلوچستان سیاسی قیادت سے محروم ہے صرف اور صرف عوامی آواز اٹھتی رہتی ہے جسے بعدازاں دبادیا جاتا ہے۔ ظلم انتہا کو پہنچ چکا ہے اب صورتحال حکومت کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ کل ہوشاپ مظاہرین کے پاس ڈی سی کیچ اور ظہور بلیدی گئے جنہیں بے عزت ہوکر لوٹنا پڑا۔ ظہور بلیدی کے گاڑی پر پتھر برسائے گئے وہ جان راہِ فرار اختیار کرگئے۔ بلوچستان کے عوام کا جعلی سیاسی قیادت سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
وہ ملائیشیا کے علاقے ایلور ستار کے جنوبی سمت میں پیدا ہوا۔ جہاں غریبوں کی جھونپڑیاں تا حد نظر دکھائی دیتی تھیں۔ اس دور میں ایلور ستار دو حصوں میں تقسیم تھا شمالی حصہ، جہاں امیروں کے بنگلے اور محلات اور جنوبی حصہ، جہاں غریبوں کی جھونپڑیاں اور کچے مکانات تھے۔
17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے بالآخر ڈیڑھ ماہ بعد آرٹیکل 186 کے تحت صدر کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس پر اپنے رائے کا اظہار کردیا۔ گو کہ کئی سیاسی رہنما اسے عدالتی فیصلہ کہہ رہے ہیں تو انکی درستگی کرنا چاہتا ہوں کہ یہ صرف صدر مملکت کو بھیجی گئی رائے ہے کوئی فیصلہ نہیں، جس پر فوری عمل کیا جائے یا ماضی قریب میں ہونے والے اسمبلیوں کی رائے شماری پر اثر انداز ہو۔
اسلام شرف انسانیت کا علمبردار دین ہے۔ ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یاضابطہ روا نہیں رکھا گیا ہے جو شرفِ انسانیت کے منافی ہو۔ معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے جن… Read more »
باہم معذور یا اسپیشل پرسن ایسے افراد کو کہا جاتا ہے جو کسی ایسی بیماری یا ذہنی طور پر مفلوج محرومی میں مبتلا ہو جو انسان کے روزمرہ کے معمولات زندگی سرانجام دینے کی اہلیت پرگہرے اثرات مرتب کرے یا ایسے فرد کے کام کرنے کی اہلیت یا صلاحیت کو ختم کردے۔ باہم معذوری ذہنی جسمانی اور پیدائشی بھی ہو سکتی ہے اور حادثاتی بھی۔ عالمی ادارہ برائے صحت WHO کے مطابق ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں معذور افراد کی تعداد 10 سے 15 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔
ان دنوں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی متوقع ویڈیو اسکینڈل کے بڑے چرچے ہیں، اور مخالفین خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے حامی بڑے پْرجوش نظر آرہے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ یہ متوقع اسکینڈل خان کی ساری سیاست کا بازاری زبان میں دھڑن تختہ کردے گا۔ایک حد تک خان کے حامی اگر… Read more »
سال 1994 میں تھیلیسیمیا انٹرنیشنل فیڈریشن نے 8 مئی کو تھیلیسیمیا کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو جارج اینگلزوس کی محبت بھری یاد میں بین الاقوامی طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ ہر سال 8 مئی کو متاثرین کی حوصلہ افزائی کے لیے منایا جاتا ہے اور ان کی ہمت کو سراہنے کے ساتھ ساتھ وہ اس کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں جو کہ قابل تحسین ہے، اور اس دن کو منانے کا مقصد بھی اس کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ تاہم، سال بہ سال تھیلیسیمیا کے مریضوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق عالمی آبادی کا 1.5% تھیلیسیمیا کیئریر ہیں۔ پاکستان میں حیران کن طور پر ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریباً ایک لاکھ مریض تھیلیسیمیا کے شکار ہیں اور ہر سال 5000 سے 9000 بچے سالانہ اس مہلک مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔
ریکو ڈک بلو چستان کے ضلع چاغی کا ایک چھوٹا گاؤں ہے۔یہ نوکنڈی کے شمال مغرب میں 70 میل دور ایران افغا نستان کے بارڈر پر واقع ہے۔ضلع چا غی کی آ بادی 1998 کی مردم شماری کے مطابق 202562 تھی۔اس کے علاوہ یہاں53000 ہزار کے قریب افغان مہاجر بھی آباد ہیں۔گر میوں میں یہاں کا درجہ ہرارت 40-50 سنٹی گریٹ اور سردیوں میں منفی 10 سنٹی گریٹ تک جا سکتاہے۔ سالانہ بارش 40 ملی میٹر سے بھی کم ہے۔ریکو ڈک ’’ ٹی تھیان میگنیٹک آرک ‘‘میں واقع ہے ، یہ آرک مشرقی یورپ سے لے کرترکی ،ایران، بلو چستان کا ضلع چاغی ، ہما لیہ ، برما، ملا ئیشیا، انڈو نیشیا اور پا پوا نیو گنی تک پھیلی ہوئی ہے۔بلو چستان میں یہ معدنی زون کو ئٹہ تفتان ریلوے لائن اور افغانستان بارڈر کے ما بین چاغی کے آتش فشاں پہاڑی سلسلوں میں واقع ہے۔ٹی تھیان کمپنی کے مطابق ریکو ڈک میں دنیا کی پانچویں بڑی آ تش فشانی تانبے اور سونے کے ذخائر موجود ہیں۔
آج یکم مئی ہے مزدوروں کا عالمی دن ہے ۔ عہد و پیما کا دن ہے آج مزدور اپنی عہد کی تجدید کریں کہ ہم اپنے جائز اور قانونی حقوق ان غاصبوں سے لے کر رئینگے ۔ مزدور نہایت کسمپرسی کے حالات میں زندگی گزار رہے تھے مزدور کیلئے نہ کو ئی قانون تھا نہ کوئی چھٹی نہ مراعات ۔ حتیٰ کہ 16سے 18گھنٹے کام لیاجاتا تھا ۔ ملازمت کا کوئی تحفظ نہ تھا۔ 1780ء میں برطانیہ میں صنعتی انقلاب نے جنم لیا تو ساری دُنیا کی معیشت پر اس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے جاگیر داراور سرمایہ طبقہ اس میدان عمل میں آگیا جو کہ پہلے سے اپنے بزگر اوردھکان کو اپنا غلام سمجھتے تھے معمولی بات پر کڑی سزا دی جاتی تھی ۔ اپنے حق کیلئے آوازبلند کرنے پر ملازم برطرف کر دیا جاتا تھا۔