جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے بلوچستان کے عوام کے دلوں میں ایک ایسی آگ سلگ رہی ہے جس کو نہ بجھایا گیا تو لاوا بن کر پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔ کتاب کے مصنف عزیز سنگھور جو خود ایک پیشہ ور صحافی ہیں انھوں نے اس کتاب کو ان قلم کاروں کے نام کیا ہے جنھوں نے پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران جام شہادت نوش کیا۔
مکران کی ساحلی پٹی پر عوام کے احتجاج اور دھرنوں کے تسلسل نے نہ صرف اسلام آباد بلکہ بیجنگ کی سرکار کے بھی ہوش اڑادیئے ہیں۔ بیجنگ کے حکمرانوں نے پہلی بار بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر غلط بیانی کا سہارا لیا۔ چینی وزیرخارجہ کے ترجمان کے مطابق گوادر میں چائنیز ٹرالنگ کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔
یہ کامیاب ریلی بلوچ قوم پرست رہنما یوسف مستی خان کی قربانی کا ثمر ہے۔قوم پرست رہنما یوسف مستی خان کی عاجزی نے گوادر دھرنے کو طاقت سے بھرپور ایک نئی تازگی بخشی ہے، مستی خان کی گرفتاری نے اس کارواں کو منزل کے اور زیادہ نزدیک کر دیا،اس نے اپنی بہادری سے یہ ثابت کر دیا کہ کینسر جیسے موذی مرض کے باوجود وہ بلوچستان کے دکھ میں کٹ مرنے کو تیار ہے۔دھرنے پہ ہزاروں کی تعداد میں پولیس گردی نے آج کی ریلی میں آکسیجن کا کام کیا ہے، یہی پولیس جو کل شام لاٹھی اور بندوق لے کر کھڑی تھی آج ریلی میں شرکت کرنے کیلئے دھرنا گاہ میں بیٹھ چکی ہے۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ کوئی قدآور سیاسی و قبائلی رہنما پاکستانی سیاست سے بددل ہوکر سیاست کو ہمیشہ کے لئے خیرآباد کرنے کا سوچ رہا ہو بلکہ پاکستانی سیاست کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر سیاست سے بددلی کا راستہ تلاش کرنے والے ایک سے زائد موجود ہیں۔ مشہور و معروف کالم نگار تجزیہ کار سابق فوجی افسر اور روس میں پاکستان کے سفیر رہنے والے چکوال کے بے باک انسان ایاز امیر کئی سال پہلے پاکستانی سیاست کو خیرآباد کر چکے ہیں وہ دو مرتبہ مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ جیکب آباد سندھ سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف سیاسی رہنما الہیٰ بخش سومرو نے آخری مرتبہ دو ہزار دو کے انتخابات میں حصہ لیا تھا وہ تین مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
ہدایت الرحمن بلوچ کم وقت میں اپنی راست گوئی اور عوامی ایشوز پر بہادرانہ موقف کے سبب بہت مقبولیت پاچکے ہیں، ایک ایسے مقبول عوامی لیڈر کو طویل سیاسی جدوجہد درکار ہوتی ہے تب جاکر اسے نام اور مقام مل پاتا ہے۔ مگرگوادر سے ابھرنے والی حق دو تحریک کے بانی ہدایت الرحمن بلوچ کے ساتھ عوامی مقبولیت کا سفر اتنا طویل نہیں ہے۔
شیخ سعدی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب گلستان میں ایک دلچسپ و چشم کشا قصہ نقل فرمایا ہے جو ایک بادشاہ کے اولاد اور ان کے شہزادوں سے متعلق ہے ۔اس بادشاہ کے متعدد اولاد نرینہ ہیں جو قد آور ،خوبرو اور تنو مند ہیں مگر ان میں ایک بچہ کو تاہ قد اور بقیہ کے نسبت بد صورت ہے نیز چالاک اور بظاہر ہوشیار نہیں ہے اس لیے بادشاہ کا اس کی طرف کوئی التفات نہیں تھا اور بادشاہ زادوں میں اس کی حالت وحیثیت ایک عضو معطل کی طرح ہے۔ شاہی محل اور بادشاہ کی نظر میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے جبکہ دیگر شاہزادگان نازونعم میں پل رہے ہیں بڑھ رہے ہیں اور ہر طرح کے وسائل عشرت سے مالا مال ہیں ۔
کمشنر و ڈپٹی کمشنر آفس کوئٹہ کے سامنے اور جی پی او چوک میں پولیس ایک بہت بڑی جنگ لڑنے جارہی تھی ،پولیس نوجوان حتیٰ کہ کچھ بزرگ پولیس بھی سر سے پائوں تک حفاظتی تدابیرکے ساتھ مکمل تیار تھے۔سر پر سخت حفاظتی ٹوپی،کندھوں اور بازئوں کو بھی مکمل طور پر دشمن کے وار سے محفوظ رکھا گیاتھا۔چھاتی اور پیٹھ کو بلٹ پروف جیکٹ کے حصار میں لیا گیا تھا،پائوں سے گھٹنوں تک حفاظتی پیڈپہنے ہو ئے موٹے وسخت ڈنڈے اور ساتھ ہی لوہے کے مضبوط پائپ ہاتھوں میں اور دشمن کے شیلنگ و پتھروں سے بچاوٗ کے لیے مضبوط پلاسٹک و شیشہ نمایاں جنگی ہتھیار کو ساتھ رکھا گیا تھا۔مطلب کوئٹہ پولیس ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھی۔
“ہر کمالے راز والے” یعنی ہر بلندی کو پستی سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور ہر پست چیز کبھی نہ کبھی بلند ہوجاتی ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔ علامہ اقبال نے اس کو یوں بیان فرمایا ہے:
شعیب (فرضی نام) نے اسی امید کے ساتھ پی ٹی سی ڈپلومہ کیا کہ کہ اپنی گریجویشن میں زیادہ نمبروں کی بنیاد پر وہ محکمہ تعلیم میں استاد بھرتی ہوگا۔ مگر اس کے امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا۔ جب بلوچستان میں 2013 کے انتخابات کے بعد وزیر اعلی منتخب ہونے والے ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے محمکہ تعلیم میں پرائمری اورمڈل استاتذہ کے بھرتیوں کے لئے ایک پرائیوٹ ٹیسٹنگ سروس نیشنل ٹیسنگ سروس (NTS)کے ساتھ معاہدہ کیا اور بلوچستان میں پہلی مرتبہ گریڈ نو سے پندرہ تک کے آسامیوں کے تحریری امتحان محکمہ تعلیم کی بجائے نجی فرم کے ذریعے منقعد ہوئے