|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2021

یہ مضمون ڈیلی ڈان میں شائع ہوئی۔مضمون نویس مریم ضیا بلوچ ورلڈ بینک کے ریسرچ اینیلسٹ ہیں۔مضمون کی اہمیت کے پیش نظر اسکا اردو ترجمعہ قارئین کے لئے
حا ضر ہے۔
اس ہفتہ کے شروع میں جو کچھ گوادر میں ہوا ،پاکستان میں ہر ایک کے لئے حیران کن تھا۔سینکڑوں خواتین نے ’’گوادر کو حقوق دو ‘‘ ریلی میں حصہ لیا۔اس ریلی کی قیادت جماعت اسلامی کے مولانا ہدا یت الرحمان کر رہے تھے۔اس سے قبل بلو چستان میں کہیں بھی خواتین اتنی بڑی تعداد میں کسی ریلی یا پارٹی اجتماع میں شریک نہیں ہوئیں۔ یہ سچ ہے کہ گزشتہ 10 سال سے بلوچ لا پتہ افراد کی بازیابی کی کو ششوں میں بلوچ خواتین ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہیں۔لیکن یہ پہلی بار ہوا کہ خواتین اتنی بڑی تعداد میں بنیادی ضروریات جیسے پانی ،بجلی کے حصول ، غیر قا نونی ٹرالروں پر پا بندی اور پاک ایران بار ڈر پر تجارت میں آسانیاں پیدا کرانے کے لئے گھروں سے نکلی ہیں ۔انکی تقاریر کو سنکر کوئی نہیں کہے گا کہ یہ خواتین پہلی بار گھروں سے باہر آ ئیں۔وہ اچھی مقرر تھیں انکے تقاریر میں ربط تھا اورگوادر کے عوام کے جذبات کی عکاسی کر رہی تھیں ۔وہ جا نتی تھیں کہ کس سے مخاطب ہونا ہے اور کیا کہنا ہے۔انکی آواز ایک بار بھی نہیں ڈگمگائی اور نہ وہ وزیراعلیٰ اور اپنے علاقہ کے قومی ،صوبائی ممبران کی جواب طلبی سے گھبرا ئیں ۔ایک لڑ کی نے انگریزی میں اس لیئے تقریر کی کہ شاید سینٹ میں انکے نما ئندے کہدا بابر اسلام آباد میں رہ کر بلوچی بھول گئے۔سینیٹرز، ایم این اے، ایم پی اے اور وزیر اعلیٰ سے خواتین کی ناراضی حق بجانب ہے ،،میگا پرو جیکٹ، میگا انفرا سٹریکچر اور کر کٹ سٹیڈیم بناتے بناتے گوادر کے عوام کی بنیادی ضروریات کو فراموش کیاگیا۔چین پاکستان اکنامک کاریڈور کی ابتدا سے ہی گوادر توجہ کا مر کزبنا۔ مر کزی اور صوبائی حکومتوں کا خواب ہے کہ گوادر کو مستقبل میں سنگاپور یا دبئی بنا ئیں گے۔جیسا کہ مولانا نے کہا، گوادر میں بد قسمتی سے کرسٹل میتھ(crystal meth )تو آسانی سے دستیاب ہے لیکن ہسپتالوں میں پیرا سیٹا مول نا پید ہے۔
گوادر کے شہری ترقی، بہتر سہو لیات اور غربت سے نجات کی حکو متی دعؤوں سے بیزار ہوچکے ہیں۔مچھیروں کی روزگارپر قدغنیں ہیں۔غیر ملکی ٹرالر سمندر میں تین جگہوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔پسنی میں ’’ ہفت تلار‘‘ اوماڑہ اور کلمت کے درمیان ’’جزیرہ‘‘ میں اور پسنی اورماڑہ کے درمیان میں۔گوادری ان ٹرالروں کے عمدہ جالوں سے مچھلیاں پکڑتے، مچھلیوں کے انڈوں اور انکے ماحول کو جہاں وہ انڈے دیتی ہیں تباہ ہوتے اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔بحری حیات کی تباہی کے علاوہ ٹرالروں نے انکی صدیوں پرانی ذریعہ معاش کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔لیکن حکومت نے انکے خد شات کے ازالہ کے لیئے کچھ نہیں کیا، آ خر کار انہوں نے اپنے لئے ایک آواز جماعت اسلامی کے مولانا کی روپ میں ڈھونڈ لی۔مولا نا خود بھی ایک ما ہی گیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔اس لیئے وہ مچھیروں کی تکا لیف کو سمجھتے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمن نے احتجاج میں مکران ڈویژن کے عام لوگوں، مر د ، خواتین اور بچوں کو شامل کرکے اسے جامع (inclusive ) بنا یا۔لگتا ہے احتجاجی دھرنے کو عوام کی وسیع حمایت حاصل ہے۔15 نومبر سے میرین ڈرائیو (marine drive )پرلوگوں کا ایک وسیع مجمع دھرنے پر ہے۔مولانا گوادر کے سماجی اور معاشی مسائل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔یہ دکھانے کے لیئے کہ یہ احتجاج لوگوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے اس نے ایک کفن پوش مظاہرہ کرایا۔بچوں کے مظاہرے سے مزید واضح ہواکہ غیر ملکی ٹرالروں اور پاکستان ایران بارڈر پر ٹوکن سسٹم کی وجہ سے بیروزگاری کے بحران نے ہر ایک کو کتنا متاثر کیا۔خواتین کی ریلی بہت منظم تھی۔مقررین کو اپنے خدشات کے اظہار کے لیے کافی وقت دیا گیا۔خواتین حبیب جالب کی نظم ’’دستور‘‘ گا رہی تھیں ۔سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر لوگوں کو ہراساں کر نے کے خلاف وہ دلیری سے موجودہ حکومت اور سرکاری اہلکاروں کے خلاف نعرے لگا رہی تھیں۔انکے موئثر تقا ریر (powerful speeches ) سن کرکوئی بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ چار دیواری میں بند خواتین ہیں، یا اس سے پہلے انہوں نے کسی احتجاج میں حصہ نہیں لیا۔ وہ نہ صرف ان نعروں سے واقف تھیں جو پاکستان کے شہری علاقوں میں لگائی جاتی ہیں بلکہ وہ اپنے بنیادی مطالبات کے منوانے پر بھی ڈٹی ہوئی تھیں۔انہوں نے صوبائی حکومت کے حال ہی میں بنائے کا لے قانون ، جس کے تحت بلو چستان کے سڑکوں پر عوامی مظاہرے منع ہیں کو جرات مندی سے چیلنج کیا ۔ لوگوں کے اہم مطالبات سننے کی بجا ئے صوبائی حکومت ایک بیہودہ اور غیر آ ئینی آرڈر کے ذریعے سب سے محروم لوگوں کی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔گوادر مظا ہرین کے مطالبات جائز اور بنیادی نوعیت کے ہیں ۔اگر حکومت کو عوام کا ذرا برابر بھی خیال ہوتو ان مطا لبات کو تسلیم کرے۔بنیا دی مطا لبات میں غیر قانونی ٹرالروں کو روکنا،چیک پوسٹوں کو اٹھانا، ٹوکن سسٹم کو ختم کرکے پاک ایران بارڈر پر تجارتی سہولیات پیداکرنے کے علاو ہ پانی، بجلی،صحت اورتعلیم جیسے مطالبات شامل ہیں۔
میرے خیال میں گوادر جیسا شہر جو ملک کے لیئے ممکنہ طور پر گیم چینجر ہونے جارہا ہے کے لوگوں کو بنیادی سہو لیات کے حصول کی خاطر دو ہفتوں سے ہڑتال پر نہیں ہو نا چا ہیے ۔اب جبکہ گوادر کے لوگ اور خاص کر خواتین مو جودہ دھرنے میں اپنے بنیادی حقوق کے حصول میں پر عزم ہیں حکومت کو چاہیئے کہ وقت ضائع کیئے بغیرانکی خواہشات کا احترام کرے۔