بڑے بوڑھے کہتے ہیں بھلے وقتوں میں لوگ ایک دوسرے کے احترام میں کھڑے ہوتے تھے، ہاتھ اور گلے مل کر ایک دوسرے کیلیے بیٹھنے کی جگہ بناتے تھے۔چائے کھانا وغیرہ سے ایک دوسرے کی تواضع کی جاتی تھی۔ محافل تھیں خوش گپیاں تھیں۔کسی محفل میں نووارد کیلیے جگہ بنانا نوجوانوں کی مشرقی اقدار میں سے ایک نمایاں قدر ہوا کرتا تھا۔
بلوچستان کے نصیر آباد ڈویژن میں جاگیردارانہ نظام اور حکومتی ریشہ دوانیوں کے خلاف کسانوں کی تحریک ایک مرتبہ پھر متحرک ہوگئی ہے۔ پٹ فیڈر کینال سے پانی کی مصنوعی قلت اور چوری کے خلاف نیشنل پارٹی کی کال پر آل پارٹیز الائنس اور کسانوں نے احتجاج کیا۔ پٹ فیڈر کے پورے علاقے کے کسانوں کو ایک بار پھر سزا دی جارہی ہے۔ وہ اپنی زمینیں چھوڑیں یا اونے پونے داموں فروخت کردیں اور یہاں سے بھاگ جائیں۔ ان کا پانی بندکردیاگیاہے۔ کسان مرکز سے اپنے پانی کا حصہ مانگ رہے ہیں اور سندھ پر بھی الزام لگارہے ہیں کہ سندھ کے حدود میں ان کا پانی چوری ہورہا ہے۔
قارئین کرام۔ایک رپورٹ پہ نظر پڑی جس میں ایک سروے کے مطابق پاکستان کے 75 فیصد طلباء اور طالبات آئس نامی نشے کی لت میں پڑ چکے ہیں میں حیران تھا کہ کیا یہ واقعی سچ ہے یا جھوٹ۔ جب میں نے مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ واقعی یہ بات سچ ہے۔ پھر ایک دوست سے پوچھا کہ یہ آئس ہوتا کیا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ آئس نشہ ’میتھ ایمفٹامین‘ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔
قلات ایک زرخیز۔مردم خیز۔ سرزمین ہے۔ جہاں پراعلی پایہ کے شخصیات نے جنم لیا اور بین الاقوامی سطح پر نام کمایا۔ یہاں بزرگ ولی بھی گزرے یہاں پر ہزاروں ملک وقوم کے لییجان قربان کرنے والیپیر مرید مدفون ہیں قلات کے بغیر بلوچستان اور بلوچ قوم کی تاریخ مکمل نہیں قلات کے لوگ زندہ دلی اور مزاح کے حوالے سے بھی اپنی ایک پہچان رکھتے ھیں مجلسی لوگ ہیں براھوی ادب کے حوالے سیبھی ابتداء دور قلات کیارد گرد گھومتی ہے۔اقتباس از مرواری تالڑ۔میں انور نسیم کااظہار خیال صف 10۔جو انور نسیم اور اللہ بخش لہڑی کے ایک براھوی افسانے کے نام سے کتاب چھپی ہے۔ اس سے عنوان کا آغاز کر رھاھوں۔ کہ قلات کے صحافت کاایک اور ستون بھی گر گیا کچھ عرصہ قبل محمود احمد آفریدی ھم سے بچھڑ گئے وہ غم تازہ تھا کہ انور نسیم نیداغ مفارقت دے گیا انور نسیم مینگل کا نام محمد انور ولد محمد یوسف قوم زگر مینگل سے تھا بلوچستان کے ضلع خضدار کے گورنمنٹ کالونی میں محمد یوسف کے ہاں پیدا ھوے دینی تعلیم اور عصری تعلیم خضدار میں کچھ عرصہ پڑھا بعد میں جب والد محترم کا پوسٹنگ قلا ت ھوا تو قلات میں محلہ غریب آباد میں رھائش پزیر ھوے تو قاعدہ ملا اعظم اخند سے پڑھے اور مدرسہ تجوید القرآن بازار قلات میں مولانا نور حبیب سے قرآن مجید پڑھا اورمدرسہ انوارالتوحید رئیس توک میں فارسی زبان سیکھا مولانا حکیم شاہ محمد سے کریما پڑھا حافظ نور محمد سے ایک پارہ پڑھا جب میں راقم الحروف نے حفظ شروع کیاتھا تو بتانے لگے کہ میں نے یہ پارہ ایک ہفتہ میں یاد کیا ابتدامیں والد صاحب کی کتابیں اور رسالے اپنے مطالعہ میں رکھتے تھے۔
سردار حمیداللہ سے میری پہلی ملاقات 2003ء میں کراچی میں الہٰی بلوچ کے گھر بادبان D.H.A میں ہوئی، سردار کے ساتھ بھی دوست واحباب تھے، پہلی ملاقات میں سردار حمیداللہ سے ایسی قربت بڑھی کہ اسی دن سے لیکر آخرتک ایک دوستانہ تعلق رہا۔ میں نے ڈی ایچ اے صباء کمرشل میں اپنا آفس 2003میں تیارکیا توسردار حمیداللہ سے درخواست کی کہ آپ آئیں اس کا افتتاح کریں تو سردار صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ آئے،الہٰی بلوچ، عاشق جاموٹ، سردار ظفرگچکی، حفیظ ہوت اوربھی بہت سے دوست واحباب تھے توسردارصاحب نے ازراہ مذاق کہاکہ فداحسین میں افتتاح کررہاہوں اللہ تعالیٰ آپ کوکامیاب کرے اگر کاروبارنہیں چلا تومجھ پر ناراض نہ ہوں کہ سردار نے افتتاح کیا، کاروبارنہیں چل رہا۔میں نے کہاکہ انشاء اللہ برکت ہوگا، اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت کامیاب کیا جب بھی ہم ملتے توسردار صاحب پوچھتے، میں کہتا کہ اللہ کاکرم ہے۔
۶ مئی ۱۲۰۲ء کو یہ خبر کشمیری عوام پر قیامت بن کے ٹوٹی کہ زیر حراست مذاحمتی تحریک کے مخلص ترین قائد جناب محمد اشرف خان صحرائی جموں کے ہسپتال میں انتقال کر گئے: اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اس طرح سے کشمیر کی تحریک آزادی کے ایک اور قائد کی جدوجہد کا باب اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
کچھ واقعات ناصرف انسان کو جھنجوڑتے ہیں بلکیں دماغ تا دیر اْن کے زیر اثر رہ جاتا ہے۔ 20 جولائی 2021 کی ایک خاموش شام جہاں اسلام آباد کے ایک پوش علاقے کی ایک خوبصورت بنگلے میں ایک 27 سالہ جوان نازک اندام لڑکی نور مقدم کی بنا سرکی لاش پڑی تھی جن کی گردن… Read more »
افغانستان کی موجودہ صورتحال نے نہ صرف ہمسائے ممالک کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے بلکہ افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کو عدم تحفظ جیسی صورتحال سے بھی دوچار کردیا ہے۔ افغان طالبان اور بلوچ مزاحمت کاروں کے درمیان تصادم کے خدشات کا اظہار کیاجارہا ہے۔
سال 2019 میں ایک وباء نے چین کے شہر ووہان میں جنم لیا اور تیزی سے دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ آج تک کوئی جان نہیں سکتا کہ یہ وباء منصوعی یا قدرتی ہے کوئی کہتاہے کہ مصنوعی اور کوئی قدرتی کہتا ہے۔اس کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے ہاں البتہ ویکسین کو اس سے بچنے کا طریقہ کہا جاتاہے لیکن اس کا مکمل علاج نہیں اور لگانے کے بعد کرونا وائرس بھی ہوسکتاہے۔
تحریر: شہزاد سید گزشتہ دنوں بیجنگ میں کیمونسٹ پارٹی آف چائینہ CPCکی 100 سوویں سالگرہ کی پریڈ کے موقع پرچینی صدراور CPCکے سیکرٹری جنرل شی چن پنگ کے غیر روایتی خطاب نے چینی قوم اور دنیا کے محکوم و مظلوم اکثریتی اقوام جو آزادانہ منصفانہ معاشی ترقی کے طلبگارہیں انکے مخالفین کو واضح پیغام دیا کہ ہمارے خلاف سازشیں یا رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کے سردیوارچین سے مارکر پاش پاش کر دیں گے ۔