مملکت خداداد میں بلدیاتی نظام پر نظردوڑائی جائے تو کہیں بھی ملک کی نصف آبادی خواتین کوموثر نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ یہاں بلدیاتی نظام کی بات کی جائے تو برٹش بلوچستان کے دور میں 1910ء میں بازار فنڈ ریگولیشن اور کوئٹہ میونسپل لاء کے تحت بلدیاتی نظام رائج کیا گیا جبکہ 1952ء میں امریکن امداد کے تحت “ویلج ایڈ” یعنی دیہات سدھار پروگرام شروع کیا گیا۔ مگر بیرونی امداد بند ہونے کے سبب 1961ء میں دیہات سدھار پروگرام ختم کر دیا گیا۔
کچھ عرصہ قبل کراچی پرتحقیق کرنے والے ایک محقق کے ساتھ شہرکے مضافاتی علاقے فقیرکالونی جانے کااتفاق ہوا۔۔ خوب صورت حب ریور روڈ سے جیسے ہی اس بستی کی طرف مڑے پہلے تو اندازہ ہواکہ ہم کسی پہاڑی سلسلے میں داخل ہورہے ہیں۔۔۔ دونوں جانب پتھریلے پہاڑوں اور پھر ٹوٹی پھوٹی سڑک نے بھر کس نکال دیئے۔۔بڑی مشکل سے علاقے میں داخل ہوئے تو صحافی دوست نے استقبال کیا اور روایتی انداز میں تھکان دیکھ کرپہلے پانی پیش کیا۔ہم شہری لوگوں کی ایک عادت ہے کہ آدھاکھاتے ہیں۔
ضلع چاغی دنیا کے امیر ترین خطوں میں سے ایک خطہ ہے۔ لیکن بدقسمتی یہاں کے باسی دنیا کے غریب ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کو پاؤں میں پہننے کے لئے چپل بھی میسرنہیں، پینے کے لئے صاف پانی نہیں، رہنے کے لئے چھت نہیں، علاج کے لئے اسپتال نہیں، پڑھنے کے لئے تعلیمی ادارے نہیں، زندہ رہنے کے لئے روزگار نہیں ہے۔ حکومتی رویے کی وجہ سے غریب عوام جسمانی اور اعصابی مسائل سے دوچار ہیں۔ پالیسی ساز ضلع کی زمین میں دفن معدنیات نکالنے کے لئے پالیسیاں تو مرتب کرتے ہیں ۔
کورونا کے بڑھتے کیسز کے باعث نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے وفاقی دارالحکومت سمیت ملک بھر میں کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔وفاقی وزیر اور این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں بتایا کہ این سی او سی نے آج ہونے والے اجلاس میں کورونا کے باعث لگائی گئی پابندیوں میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔اسد عمر کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے مثبت کیسز کے باعث مختلف سرگرمیوں پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسلام آباد اور صوبائی انتظامیہ کو کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سینیٹ کے قیام کا مقصد قومی سطح پر تمام صوبائی اکائیوں کو برابرکی نمائندگی فراہم کرنا تھا تاکہ قومی اسمبلی میں نمبر گیم کے عدم توازن کو برابر کیا جاسکے کچھ لوگوں کے خیال میں اب یہ ایک ڈبیٹنگ کلب ہے کچھ لوگ اسے ملک کے بڑے قانون ساز ادارے کے طور پر دیکھتے ہیں پر میری رائے میں اب گزرتے وقت کیساتھ یہ بلئینر اور ٹھیکیدار کلب بنتا چلا جا رہا ہے اب کسی سیاسی کارکن کیلئے طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اس معزز ایوان کا رکن بننا آنے والے دنوں میں خواب ہی ہوگا ایک ایسا خواب جسکی تعبیر ممکن نہیں ہوگی اور پتہ نہیں اس وقت تک یہ ایوان اتنا معزز رہے بھی یا نہیں۔
یہ کتاب سیمیول پی ہنٹنگ ٹن (Samuel P Huntington) ۔(1927-2008)نے لکھی۔وہ ہارورڈ یونیورسٹی کے پرو فیسر تھے۔کتاب بر طا نیہ میں (Simon & Schuster)نے 1996 میں شائع کی۔مصنف نے سویلا ئزیشن(Civilization)،مغرب اور باقی دنیا(West and rest)اور تہذیبوں کے تصادم کے بارے میں خیالات کا ظہار کیا۔ ان کے مطابق بیسویں صدی کے آ خر اور اکیسویں صدی کے شروع تک دنیا کی سیا ست کو سمجھنے میں تہذیبی نقطہ نگاہ مدد گار ہو سکتی ہے۔ ہرتہذیب شہری (urban) اور ہمہ گیر ہو تی ہے۔
آج پوری دنیا میں پانی کا عالمی دن اسی سوچ کے تحت منایا جارہا ہے کہ حکومتوں کی توجہ پانی کی عدم دستیابی اور لوگوں میں پانی کے ضیاع کی روک تھام کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔کرہ ارض میں پانی کے بڑھتے ہوئے مسائل کی بنیاد پر چین بھارت اور مشرقی وسطیٰ سمیت دیگر ممالک کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پانی کو اقوام عالم کے مابین فائدہ اٹھانے اور یہاں تک کہ “دہشت گردی کے مقاصد کو مزید آگے بڑھانے کے لئے ایک ہتھیار” کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی کے عوام کی زندگی کو ریت کے ٹیلوں نے عذاب میں ڈال دیا ہے۔ شہر کے بیشتر علاقے ریت کے ٹیلوں کی زد میں ہیں۔ریت کے یہ ٹیلے متعدد مکانات، اسکول اور کھیل کے میدانوں کو نگل چکے ہیں جس کی وجہ سے سینکڑوں خاندان بے گھر ہوگئے ہیں جس کے بعد یہاں رہائش پذیر افراد بے چینی کی کیفیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لوگ اپنی چھتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ پسنی میں رہائش ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے جبکہ دوسری جانب بلوچستان حکومت کے متعلقہ ادارے اس اہم قدرتی آفت سے بچاؤ کے لئے لوگوں کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔
پاکستان میں مذہبی سطح کی سیاست ہویا پھر بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست ، ان میں بلند پایہ کے سلجھے ہوئے سیاستدان اور قومی رہنما موجود ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کا آدھے سے زیادہ حصہ سیاسی اور قومی جدوجہد میں گزارا۔قومی سطح کی سیاست ہو یا پھر صوبوں کی بدقسمتی سے اس میں اسٹیبلشمنٹ اور پس پردہ قوتوں کا ہمیشہ سے مداخلت رہا اور انھوں نے مختلف ادوار میں مذہبی ،سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کواپنے مفادات اور مرضی کے فیصلے کرنے کے لئے استعمال کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ سیاست اور سیاسی معاملات میں مداخلت بڑھائی گئی ۔
سیاست کو بلاشبہ عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے اور عوام و انسانیت کی خدمت عبادت سے ہرگز کم نہیں اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں اپنی سوچ اور نظریات پر کاربند رہ کرعوام اور علاقے کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خدمت کرکے عبادت کی طرح اپنے مقاصد طے کرتے ہیں۔ نظریات ایک اصول اور عمل ہی کی مانند ہوتی ہیں جہاں سوچ اور خیالات کے باہمی ملاپ سے ہی نظریات چٹان بن کر سیاسی قائدین اور جماعتوں کو کامیابی وکامرانی سے ممتاز کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی آزادی بھی ایک نظریہ اور انسانیت کی خدمت اور اسلامی و فلاحی مملکت کے قیام کی بنیاد تھی۔