|

وقتِ اشاعت :   March 23 – 2021

سینیٹ کے قیام کا مقصد قومی سطح پر تمام صوبائی اکائیوں کو برابرکی نمائندگی فراہم کرنا تھا تاکہ قومی اسمبلی میں نمبر گیم کے عدم توازن کو برابر کیا جاسکے کچھ لوگوں کے خیال میں اب یہ ایک ڈبیٹنگ کلب ہے کچھ لوگ اسے ملک کے بڑے قانون ساز ادارے کے طور پر دیکھتے ہیں پر میری رائے میں اب گزرتے وقت کیساتھ یہ بلئینر اور ٹھیکیدار کلب بنتا چلا جا رہا ہے اب کسی سیاسی کارکن کیلئے طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اس معزز ایوان کا رکن بننا آنے والے دنوں میں خواب ہی ہوگا ایک ایسا خواب جسکی تعبیر ممکن نہیں ہوگی اور پتہ نہیں اس وقت تک یہ ایوان اتنا معزز رہے بھی یا نہیں۔

لیکن ہاؤس آف فیڈریشن کہلانے والے اس ادارے سینیٹ کیساتھ جو کچھ ہماری سیاسی جماعتوں اور ملک کے الیکٹیبلز نے کیا ہے اسکے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ اسکی اہمیت اسکے قیام کے مقصد سے دورہوتی جارہی ہے جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے وقتاً فوقتاً سندھ اور پنجاب سے ایسے سینیٹرز منتخب کروائے جنکا ان صوبوں سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔دو ہزار آٹھ میں جب پاکستان پیپلزپارٹی بر سر اقتدار آئی تو اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی نے بلوچستان سے رحمان ملک اور فاروق ایچ نائک کو سینیٹر بنانے کی کوشش کی اور اس کام کیلئے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپر کوئٹہ پہنچیں۔گورنر ہاؤس میں تمام حکومتی ایم پی ایز کا اجلاس جاری تھا اور وہ ایک ایسی حکومت تھی جہاں کوئی اپوزیشن نہیں تھیں تو تمام سیٹیں حکمراں اتحاد کو آسانی سے ملنے کی امید تھی، اسی لئے پاکستان پیپلزپارٹی نے کچھ باہر کے امیدوار لانے کی ٹھان لی تھی اس سارے کھیل میں رنگ میں بھنگ اس وقت کے گورنر بلوچستان نے ڈالا جب انہوں نے اپنے روایتی انداز کو اپنایا اور واضح لفظوں میں کہاکہ اراکین کو چاہئے کہ وہ انہیں منتخب کریں جنکا تعلق کم از کم بلوچستان سے ہو۔

(دبے لفظوں میں انہوں نے کہا تھا کہ کسی نے ووٹ بیچنا ہے تو کوشش کرے کہ کسی غیر مقامی کو نہ بیچے بلوچستان میں بھی اچھے خریدار مل جائینگے) اورپھر ہم نے دیکھا کہ فریال تالپر اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوئیں اور پھر نواب مگسی، نواب ثنا ء اللہ خان زہری، محمد اسلم بھوتانی اور نواب اسلم رئیسانی کی کوششوں سے ہی اس وقت میر حاصل خان بزنجو کو آزاد اراکین کا گروپ سینیٹر بنوانے میں کامیاب ہوا جبکہ اسی سینیٹ کے انتخاب میں بلوچستان سے ایک نامی گرامی ٹھیکیدار بھی آزاد سینیٹر کامیاب ہوئے۔ ملک کی بڑی عمارتوں اور سڑکوں کی تعمیر میں انکا اہم کردار تھا۔

اور وہ ملک کے جانے مانے کنسٹرکشن کمپنی کے مالک تھے میں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ ایوان بالا میں ٹھیکیدار بلوچستان کے حقوق کیلئے کوئی آواز اٹھاتے تھے لیکن سینیٹ کی سیٹ وہ اپنے قبضے میں ضروررکھتے تھے۔ایک بار اسلام آباد میں بلوچستان کے ایک قوم پرست رہنما ء کے ہمراہ انکے فلیٹ پر موجود تھا جب انکے ملازم نے اطلاع دی کہ ٹھیکیدار سینیٹرصاحب ملنے آئے ہیں سلام دعا کے بعد پوچھنے لگے کے خیریت سے آئے ہیں تو ٹھیکیدار سینیٹر نے بتایا کہ ایک قومی ادارہ بلوچستان کے فنڈز کو جاری نہیں کررہا ہے جسکی وجہ سے بڑی مشکلات ہیں اور یہ صوبے کیساتھ سراسر ناانصافی ہے۔

آپ اور ہم سب کومل لکر اس پر آواز بلند کرنی چاہئے۔ جیسے ہی بلوچستان سے زیادتی کا معاملہ آیا تو قوم پرست سینیٹر نے فوری اسلام آباد میں موجود بلوچستان کے سینیٹرز سے رابطے کئے اور اگلے روز سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر بلوچستان کے سینیٹرز نے ایوان بالا کو سر پر اٹھا لیا۔ حکومت ہو چاہے اپوزیشن دونوں بینچز سے سینیٹرز اٹھے اور قوم پرست سینیٹر کی سربراہی میں واک آؤٹ کیا،رضاربانی سمیت تمام حکومتی اراکین قوم پرست سینیٹرز کو کیا مناتے جو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے تھے،بلوچستان کے حکومتی بینچز پر بیٹھے سینیٹرز بھی ڈٹ گئے کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا واک آؤٹ ختم نہیں ہوگا۔

حکومت کی دوڑیں لگیں افسر شاہی کی فوری طلبی ہوئی، فوری احکامات جاری ہوئے اور بلوچستان کے احساس محرومی کو کم کرنے کی کوشش کی گئی جسکے بعد بلوچستان کے سینیٹرز واک آؤٹ ختم کرکے آئے اور پھر اسی شام رضا ربانی قوم پرست سینیٹر کی رہائش گاہ پر پہنچے اور ایک فائل قوم پرست سینیٹر کو تھماتے ہوئے بتایا کہ کیسے آج ٹھیکیدارنے بلوچستان کے نام پر شور شرابہ کرواکے اپنی کمپنی کے فنڈز کی ریلیز حاصل کی۔ اس واقعے کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ حال ہی میں بلوچستان لایا ہوا تحفہ عبدالقادر بھی ایسے ہی کام کروانے ایوان بالا پہنچے ہیں۔

موجودہ عبدالقادر اور اُس وقت کے ٹھیکیدار سینیٹر میں میری نظر میں کوئی فرق نہیں ہے وہ بھی اپنے کاروباری مفادات کیلئے ایوان بالاگئے تھے اور انہوں نے اپنے عمل سے ثابت بھی کیا اسلئے میرا خدشہ ہے کہ موجودہ سینیٹر بھی ماضی کے ٹھیکیدار سینیٹرز کی طرح اپنے کاروباری مفادات کا تحفظ کرینگے اور اگر کہیں موقع لگ گیا تو وفاقی وزارت یا پھر کسی بڑے عہدے کے بھی حق دار ٹھہرینگے،ایسے لوگوں کا ایوان بالا کا رکن بننے سے چرواہے کا بلوچستان نہیں بدلے گا عبدالقادر کو سینیٹر بنانے والے صادق سنجرانی صاحب گزشتہ تین سالوں میں بلوچستان کیلئے کچھ نہ کرسکے اور آئندہ تین سال بھی کچھ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

ماسوائے ایک قانون سازی کے جس میں بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی سیٹوں میں اضافے کے وہ خواہش مند ہیں تاکہ انکے لئے انکے آبائی علاقے ضلع چاغی میں ایک نیا حلقہ بن سکے۔اور ماہ رمضان قریب ہے عیدالفطر پر صادق سنجرانی گو رنر ہاؤس کوئٹہ میں قیام کرکے لوگوں سے عید ضرور ملیں گے۔ بحر حال جو ہونا تھا ہو چکا، قصہ مختصر ایوان بالاکو انیس سو اکہتر کے بعد جس مقصد کیلئے قائم کیا گیا تھا وہ مقصد فوت ہوگیا ہے اسکی ابتداء ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے کی تھی اب انکی ڈگر پر دیگر جماعتیں بھی چل نکلی ہیں اس ریس میں بلوچستان کے اصول پسند قوم پرست رہنماء بھی پیچھے نہیں ہیں۔

اسکے بعد ایوان بالا کی عمارت میں جیسے ٹھیکیدار داخل ہو رہے ہیں مستقبل میں ایوان بالا ٹھیکیداروں کا بلین کلب ہاؤس ضرور کہلائیگا اور حقیقی سیاسی کارکن اور ٹیکنو کریٹ اسکی عمارت کے باہر لکھے ایک نوٹس بورڈ پر لکھی تحریر پڑھ کر مسکرا کر چل دینگے۔اس نوٹس بورڈ پر لکھا ہوگا”سینیٹ کی نشست چھ سال کیلئے ٹھیکے پر دستیاب ہے۔۔۔۔ ارب پتی ٹھیکیدار پہلے آئے پہلے پائیں کی بنیاد پر قسمت آزمائیں، بلوچستان میں کامیابی یقینی ارب پتی ٹھیکیدار ہونا شرط ہے“

2 Responses to “سینیٹ ٹھیکے پر”

  1. Shoukat Ali

    بات تو سچ ھے مگر بات ھے رسوائی کی

Comments are closed.