|

وقتِ اشاعت :   March 23 – 2021

The Clash of Civilizations And The)
Remaking of World Order
یہ کتاب سیمیول پی ہنٹنگ ٹن (Samuel P Huntington) ۔(1927-2008)نے لکھی۔وہ ہارورڈ یونیورسٹی کے پرو فیسر تھے۔کتاب بر طا نیہ میں (Simon & Schuster)نے 1996 میں شائع کی۔مصنف نے سویلا ئزیشن(Civilization)،مغرب اور باقی دنیا(West and rest)اور تہذیبوں کے تصادم کے بارے میں خیالات کا ظہار کیا۔ ان کے مطابق بیسویں صدی کے آ خر اور اکیسویں صدی کے شروع تک دنیا کی سیا ست کو سمجھنے میں تہذیبی نقطہ نگاہ مدد گار ہو سکتی ہے۔ ہرتہذیب شہری (urban) اور ہمہ گیر ہو تی ہے۔

اسکی بنیاد ایک بڑے مذہب پر رکھا ہو تا ہے۔تہذیب کی عمر لمبی اگر چہ آ خرکار ختم ہونے والی ہو تی ہے۔ایک تہذیب کئی ثقا فتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ تہذیب ایک سیاسی حقیقت (Political entity) ہے۔مصنف کے مطابق سرد جنگ کے بعد دنیا کئی قطب میں بٹ چکاہے اور 6-7 تہذیبوں میں تقسیم ہے۔ ہر تہذیب کا ایک مذہب اور کلیدی ریاست(Core state) ہے جیسے مغربی تہذیب کیتھو لک عیسائی ہے اور امریکہ اسکا کلیدی ریاست ہے، آر تھو ڈاکس تہذیب آر تھو ڈاکس عیسائی ہے اور روس اسکا کلیدی ریاست ہے،سینک (Sinic) تہذیب کنفو شین (Confucian) ہے۔

اور چین اسکا کلیدی ریاست ہے، انڈین تہذیب ہندو ہے اوراسکا کلیدی ریاست انڈیا ہے، جا پانی تہذیب کنفو شین اور بدھ اسٹ ہے اور کلیدی ریاست جاپان ہے۔افریقہ اور لا طینی امریکہ کی ریاستیں کمزور ہیں اور لوگوں کا مذ ہب اسلام یا کیتھو لک عیسا ئیت ہے۔مسلم تہذیب کا مذہب اسلام ہے لیکن بد قسمتی سے بغیر کلیدی ریاست کے ہے اور یہ کمی اندرونی اور بیرونی تصا دموں کا موجب ہے جو اسلامی پہچان بن چکی ہے۔ اسلامی دنیا کی یہ کمزوری دوسرے تہذیبوں کے لیئے بھی ایک چیلنج ہے۔

مصنف کے مطابق سرد جنگ کے بعد لوگوں میں سب سے اہم تفریق (Distinction) نظریہ، سیاست اور معیشت نہیں بلکہ ثقافت (Culture) ہے، جیسے ہم کون ہیں (Who we are )لوگ اپنی تعریف خاندان، زبان، تاریخ،اقدار،رواج، مذہب، اداروں اور ثقافتی گروہ کی حیثیت سے کر تے ہیں۔وہ سیاست اپنے مفاد کے لیے نہیں بلکہ اپنی پہچان کو نمایاں کر نے کی خاطر کرتے ہیں۔جو لوگ اپنی شناخت اورنسل کی تجدید یت چاہتے ہیں انکے لیے دشمن لازمی ہے۔(People seeking identity reinventing ethnicity enimies are essential)۔

جب تک ہم نفرت نہ کریں ہم یہ نہیں ہیں اس وقت تک ہم جو ہیں اس سے محبت نہیں کر سکتے۔اب ریاستوں کے اہم کا رندے دنیا میں تہذیبی بنیاد پر تقسیم ہیں نہ کہ نظریا تی بلاکس کی بنیاد پر۔مغربی تہذیب سب سے طاقتور ہے لیکن زوال کا شکار ہے۔مغرب والے کوشش کرتے ہیں کہ اپنے اقداردوسروں پر مسلط کریں اور اپنے مفادات کو تحفظ دیں۔ مستقبل میں مغرب کا تکبر اسلامی عدم برداشت اور چینی اسرار (Assertiveness)کے ما بین خطر ناک تصادم کا خطرہ ہے۔اسلامی اور سینک تہذیبیں مغرب کو للکارنے والی تہذیبیں ہیں۔روس،انڈیا اور جاپان کی درمیانی تہذیبیں ہیں۔

لا طینی امریکہ اور افریقہ کی کمزور تہذیبیں ہیں۔اسلامی تہذیب وہ واحد تہذیب ہے جس نے مغرب کے وجود کو شکوک میں ڈال دیا اور اسلام نے یہ کام دو مرتبہ پہلے بھی کیا۔اس وقت اسلامی طاقت بہت سے سر حدی جنگوں (Fault line wars) کی بنا ہے۔مغرب کے لیے مسئلہ اسلامی انتہا پسندی نہیں بلکہ اسلام ہے۔مسلمانوں کو اپنی کلچر کی بر تری کا پورا یقین ہے لیکن طاقت میں کمی کے سبب وہ بیقرار (Obsessed)ہیں۔مسلما نوں کے لیے بڑا مسئلہ سی آئی اے (C I A ) یا امریکہ نہیں بلکہ مغرب اور اسکی تہذیب ہے۔مغرب کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا کلچر بین ا لا قوامی ہے۔

اور انہیں یقین ہے کہ انکی برتر طاقت،اگر چہ زوال پذیر،نے ان پر یہ ذمہ داری عائد کی کہ اپنے تہذیب کو دنیا میں پھیلائیں۔یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں جو اسلام ا ور مغرب میں تصادم کو ہوا دیتی ہیں۔سرد جنگ کے بعد اب دنیا کی سیاست مغرب اور دوسری سو سا ئیٹیوں کے ما بین تعلق(Interaction) پر منحصر ہے۔مغرب کی طاقت دوسرے تہذیبوں کے مقابلہ میں کسی قدر کم ہو رہی ہے پھر بھی اسے 400-500 سال لگیں گے بشر طیکہ مغرب نے اپنی بچت (Surplus) کی تخلیقی پیداواری (Productive innovation) شعبوں میں سر مایہ کاری نہیں کی۔

تہذیب ترقی کر تی ہے جب اس کے پاس ترقی کے ہتھیار، جیسے فوج، مذہب، سیاسی اور معاشی ادارے ہوں جو اسکی بچت کو اکھٹی کر کے اسے تحقیقی پیداواری شعبوں میں لگا تی ہوں۔تہذیب تنزلی کا شکار ہوتی ہے جب اسکی بچت کو جدید شعبوں میں نہ لگایا جائے۔یہ اس وقت ہو تا ہے جب حکمرانوں کے ذاتی مفادات ہوں اور وہ بچت کوغیر پیداواری شعبوں پر خرچ کریں۔مغربی تہذیب کا 500-A-D تک وجود نہ تھا، 1500A-D تک وہ پھلا پھولا اور 2500A-D تک وہ ختم ہوگا۔اس کے بعد چین اور انڈیا کی تہذیبیں اسکی جگہ لیں گیں۔

مغرب کی جمہوریت اور معیشت اسکی کلچر کی وجہ سے ترقی کر رہی ہے۔مشرقی ایشیاء کی کئی سما جوں نے بھی جمہوریت اور معیشت میں کا میابیاں حا صل کی ہیں۔مسلم سماج میں جمہوری اور معاشی کامیابیاں معدوم (Bleak)ہیں۔آر تھو ڈاکس عیسائی سماج میں ایسی کا میا بیاں غیر وا ضح (Uncertain) ہیں۔چین کی ترقی مستقبل میں ممکنہ طور کلیدی ریاستوں (Core states) کے ما بین تصادم کا باعث ہو سکتی ہے۔ بہت سے مشرقی ایشیائی ملکوں میں کنفیو شین مزاج(Ethoes) کا راج ہے جہاں اقتدار (Authority) اور درجہ بندی(Hierarchy) کے قدروں کی اہمیت ہے۔

انفرادی حقوق اور مفادات تابع ہوتے ہیں۔ریاست کی سماج پر اور سماج کی فرد پر بالا دستی ہوتی ہے۔یہ رویے مغربی عقیدے کے متضادہیں جہاں بنیادی اہمیت فرد کی ہوتی ہے مغربی جمہوریت میں کنفو شین عقیدے کے بالکل الٹ فرد کو سماج پر اور سماج کو مقتدرہ پر بالا دستی حا صل ہے۔اگر امریکہ نے چین کو چیلنج کیا تو جنگ شروع ہو سکتی ہے اس صورت میں کنفو شین اور اسلام کے مراسم نہ صرف قائم ہونگے بلکہ ہو سکتا ہے اور گہرے ہوں۔اس نزدیکی کی ایک وجہ انسانی حقوق جمہوریت اور اسطرح کے دوسرے مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔

اس کے مرکز میں چین پا کستان اور ایران کے مضبوط تعلقات ہو نگے۔پا کستان میں اس سوچ کی آزاد خیال اور اسلامی نظریہ رکھنے والے حمایت کر تے ہیں۔ممکن ہے تینوں ریاستوں کے ساتھ دوسرے اسلامی اور مشرقی ایشیائی چھو ٹی ریاستیں بھی شامل ہوں۔اگر مشترکہ مفادات کا دشمن تیسری تہذیب سے ہو تو یہ مختلف تہذیبوں کے ملکوں کے ما بین اتحاد کی بنیاد بن سکتی ہے۔ مغربی تہذیب میں تنزلی کی بڑی وجوہات میں معاشی ترقی میں سست رفتاری، آبادی میں اضافہ کی سست رفتاری، اخلاق،تعلیم، دانشوری،خاندانی نظام اور مذہب کی پیروی میں کمی،امریکہ اور یورپ کا ایک دوسرے کو نہ سمجھناہیں۔ 1500-1900 تک یورپ دنیا پر چھائی رہی اور بیسویں صدی میں امریکہ چھایا رہا۔اگر امریکہ یورپ ایک ہوں تو مغرب کے زوال کو کسی حد تک روک سکتے ہیں اور تیسرا دور (Phase)یورو امریکن ہوگا۔

تمام تہذیبیں ایک طرح سے پیدا ہوتی ہیں۔پھیلتی اور پھر تنزلی کا شکار ہوتی ہیں۔لیکن یورپی تہذیب اپنے اقدار اور اداروں کی وجہ سے ایسا نہیں۔اس میں اجتما عیت (Pluralism)ا نفرادی آزادیاں،قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق، ثقافتی آزادی،بولنے کی آزادی(خیالات کے تکرار سے سچ سامنے آجا تی ہے) اور سیاسی جمہوریت ہے۔ ان سب نے مل کر مغرب کو جدیدیت ایجاد Invent moderanity)) کر نے میں مدد دی۔یہ خالصتا ًیورپی خیالات(Idias) ہیں افریقی یا ایشیائی نہیں ماسوائے کسی نے انہیں اپنا یا ہو۔

مغربی لیڈر دوسرے تہذیبوں کو مغرب کی طرح بدلنے کی بجا ئے جو انکی کم ہو تی طاقت کے بس کی بات نہیں، مغربی تہذیب کی منفرد صلا حیتوں (Unique qualities)کو بچا ئیں، فروغ دیں اور انکی تجدید(renew) کریں۔کمزور ہوتی طاقت کو مدنظررکھ کر ”مغربی اقدار (Values) کے تحفظ کے لیئے لازم ہے“ کہ امریکہ یورپ ایک ہوں۔مشرقی یورپ اور لا طینی امریکہ کو ساتھ لیں،روس اور جاپان کو قبول (accomudate)کریں،اسلامی اور سینک ممالک کے ملٹری طاقت کو بڑھنے سے روکنے کی کوشش کریں۔

یہ بات سب کو تسلیم کر نی چا ہیے کہ مغرب کی کسی دوسرے تہذیب میں مدا خلت سب سے خطرناک عمل ہے جو عدم استحکام اور ممکنہ عالمی تصادم کی وجہ بن سکتا ہے۔عبوری جنگیں (Transitional wars) ایک تہذیب میں نسلی یا قومی جنگیں ہوتی ہیں اور فا لٹ لائن جنگیں (Fault line wars) عقیدے کی جنگیں ہیں جو مختلف تہذیبوں کے ما بین ہوتی ہیں۔جیسے انڈیا اور پاکستان، انڈیا اور چین کے ما بین یا مشرقی یورپ اور افریکہ میں مسلما نوں اور دوسروں کے ما بین جنگیں۔آ نے والے وقت تہذیبوں کے ما بین جنگوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ کلیدی ریاستیں دوسرے تہذیبوں میں مدا خلت نہ کریں۔

یہ ایک سچ ہے جسے کئی ریاستیں جیسے امریکہ ما ننے میں مشکل محسوس کرتی ہیں اور دنیا میں امن کے لیئے یہ پہلی شرط ہے۔دوسری شرط کلیدی ریاستوں کی مشتر کہ ثالثی کا کردار ہے۔تیسری شرط سیاسی اور مذہبی لیڈروں اور دانشوروں کی امن کے لیے کو ششیں، چوتھی شرط اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہرسویلائزیشن کی نما ئندگی اور امن کے لیے۔پانچویں شرط ہر تہذیبوں کے مشترکہ اقدار کو سامنے لانا اور فروغ دیناہے جیسے سنگا پور جہاں 60 فیصد چینی، 15 فیصد مالی اور مسلم، 6 فیصد ہندو اور سکھ بستے ہیں۔حکو مت ملک میں ہم آہنگی اور استحکام کی خاطرمشترک اقدار کی پرورش کر رہی ہے۔

”تہذیبوں کی تصادم کی صورت میں امریکہ اور یورپ متحد ہوں ایک دوسرے کی مدد کریں ورنہ ہر ایک الگ الگ سولی چڑھ جا ئیگا، (In the clash of civilization Europe and Ameraca hang togather or hang separatly.)۔حقیقی اورعظیم عا لمی تصادم جو تہذیب اور بربریت Barbarism))کے ما بین ہوگی۔ اس میں دنیا کی بڑی تہذیبیں جنہوں نے مذہب، آرٹ،ادب، فلاسفی ،سائنس، ٹیکنا لو جی، اخلا قیات اور ہمدردی کے میدانوں میں جو عظیم کا میا بیاں حاصل کیں ان تہذیبوں میں اتحاد نہ ہونے کی صورت میں تہذیبیں اور انکی یہ عظیم کا میابیاں لا زمی مٹ جا ئیں گیں۔“

آ نے والے دور میں ایک بین ا لا قوامی آرڈر جو تہذیبوں کی بنیاد پر ہو دنیا میں جنگ سے یقینی حفاظت ہے۔(In the emerging era, an international order based on civilizations, is the surest safeguard against world wars.) ۔۔۔۔ختم