سیاسی، سماجی اور طالبہ تنظیموں کی جانب سے ملک بھر میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کی غائبانہ نماز جنازہ کی ادائیگی سمیت دیگر تعزیتی اجلاس منعقد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔اجلاسوں میں خواتین کی کثیر تعداد بھی شریک ہورہی ہے۔تعزیتی اجلاس اورغائبانہ نماز جنازہ سے قبل کریمہ بلوچ کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔ تمپ، بلیدہ، تربت، پنجگور، خضدار، چاغی، خاران، قلات، کوئٹہ، کراچی سمیت دیگر تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں یہ خراج تحسین کا سلسلہ جاری ہے۔
ڈیرہ مراد جمالی صوبے کے زرخیز اور گنجان آبادی والا ضلع اور ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ نصیرآباد سیاسی اور زرعی حوالے سے بلوچستان کی اہمیت کا حامل علاقہ رہا ہے اور ضلع کی سیاسی زعماء روز اول سے ہی سیاسیمیدان میں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ڈیرہ مراد جمالی صوبے کی زرعی معیشت کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے شہر کی آبادی میں روز بروز اضافہ کے باعث اب ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان کا چھٹا بڑا شہربن چکا ہے ۔نصیرآباد ضلع کی سیاسی قیادت ہر دور میں وزارتوں اور حکومتی اتحادیوں پر براجمان رہنے کے باوجود شہر کی عدم ترقی اور پسماندگی اہل سیاست کا منہ چھڑا رہی ہے ۔
آج دنیا ترقی کے منازل طے کرتی جارہی ہے اس سے لوگ ذیادہ سے ذیادہ مستعفید ہورہے ہیں یہ ترقی زندگی کے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ علمی حصول میں بھی لائی گئی ہے لوگ انٹر نیٹ کے ذریعے تعلیم کے حصول کو یقینی بنارہے ہیں اور اس انٹر نیٹ کی دنیا سے استعفادہ حاصل کررہے ہیں مگر انٹر نیٹ کی جتنی سہولیات فراہم کی گئی ہیں اس سے ہٹ کر لا علمی میں بعض نقصانات بھی وقوع پزیرہورہے ہیں انٹر نیٹ نے لوگوں کو کتب بینی سے کافی دورکردیا ہے کیونکہ دورجدید سے پہلے علم پرمہارت رکھنے والے لوگوں نے اپنی تمام ترصلاحتیں کتابوں میں پوشیدہ کرکے محفوظ کروادیںہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کو سینکڑوں افراد کی موجودگی میں ان کے آبائی گاؤں تمپ میں سپرد خاک کردیاگیا۔ یہ تدفین ان کی وصیت کے مطابق کی گئی۔ ان کے وصیت کے مطابق وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تمپ میں گزارنا چاہتی تھیں۔جہاں ان کی روح موجود ہے۔ ان کی وصیت ’وائے وطن ہشکیں دار‘ کے فلسفے کے عین مطابق تھی۔’وائے وطن ہشکیں دار‘ کے معنی ہیں کہ ’ہمارے وطن میں اگر خشک لکڑی بھی ہو تو ہمارے لیے وہ بھی بہت بڑی چیز ہے۔
دنیا کے ہر کھیل میں ایک ہتھیار (ٹول) ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ کھیل کھیلا جاتا ہے اور سیاست وہ کھیل ہے جہاں وہ ہتھیار دوسرا انسان ہے جس کے ذریعے سارا کھیل کھیلا جاتا ہے اور جیتا جاتا ہے کوئی بھی سیاست دان اس انسانی ہتھیار کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ عام الفاظ میں اس ہتھیار کو عوام کہتے ہیں جو ان سیاست دانوں کی تقدیر پلٹ سکتی ہے۔ اس لیے پوری کوشش کی جاتی ہے کہ یہ عوام دماغ سے پیدل ہی رہے اور دماغ کو استعمال نہ کر پائے اس مقصد کے لیے ایسے حربے استعمال کیے جاتے ہیںجس سے عوام کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے۔
آج کل کا زمانہ ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔ہر گوشئہ زندگی میں نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں ان جدید اکتشافات کے سامنے عقل و خرد محو حیرت ہو جاتی ہے۔انسان ترقی کے نام پر ایسی جگہ پہنچ چکا ہے جس کا اس نے کبھی وہم و گمان بھی نہیں کیا تھا۔خدا باری تعالیٰ سے اشرف المخلوقات کا درجہ پانے والا انسان اپنی جوانمردی،مستقل مزاجی، محنت سے،تجرباتی،تجزیاتی اور تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر فلک کے ستاروں پر قدم رکھ چکا ہے۔جہاں ہم اور آپ رہتے ہیں،طرح طرح کی نت نئی جدید ترین ایجادات کو دیکھتے ہوئے ہمیں وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں۔
لیاری میں ڈرگ مافیا سے زیادہ طاقتور بلڈر مافیا ہے جس کی آمدنی دوگنا اور سرکاری سرپرستی چارگنا ہے۔ جس نے لیاری کوگنجان جنگل میں تبدیل کردیا۔ لیاری کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔مکینوں کی ضروریات بڑھ رہی ہیں جبکہ وسائل میں کمی آرہی ہے۔ لیاری میں سیوریج کا نظام درہم برہم، بجلی اور گیس کی… Read more »
ایلفن بین کے مطابق بلو چستان (ایران ،افغانستان اورپاکستان )میں جہاں جہاں تحقیق ہوئی ادیب اور ماہر ین لسا نیات کے مطابق بلوچی زبان بولیوں کی ایک زنجیر(series of dialects ) ہے۔بلوچ آپس میں ان بولیوں کو سمجھتے ہیں ۔فرق صرف الفاظ(vocabulary ) اور بلوچی پر ہمسایہ زبانوں خاص کر فارسی کے اثرات تک محدود ہے۔بلوچی 3 سے5 ملین بلوچوں کی زبان ہے، جو پاکستان ،افغا نستان ، ایران، خلیج فارس کے ممالک،ترکما نستان ،مشرقی افریقہ اور دنیا کئی ممالک میں آباد ہیں ۔بلوچوں کے کئی گروہ جو اس تقسیم کے سر حدوں پر تھے۔
گزشتہ سے پیوستہ برس ایک مختصر وڈیو سے متعلق کام کرنے کا موقع ملا جو کوئٹہ میں مقیم ایک کراٹے چیمپئن نرگس کے بارے میں تھی۔ کئی ملکی اور غیر ملکی مقابلوں کی فاتح یہ بچی میرے اور مجھ جیسے بہت سے اور لوگوں کے لئے سوچ کے کئی در وا کر گئی۔ چند منٹوں کی ایسی وڈیو کسی بھی کھلاڑی کا تعارف ، اسکا ارتقا اور کامیابی کے متعلق ہونی چاہیے تھی، لیکن اس وقت میں اور میرے کئی ساتھی دل تھام کر رہ گئے جب اس وڈیو کا آغاز دور تک پھیلے ہوئے ایک شہرخموشاں سے ہوا جہاں تاحد نگاہ قبریں ہی قبریں تھیں۔اور ان کے قریب کراٹے کی مشقوں میں مصروف بچیاں اور بچے جن کے لئے موت گویا زندگی کی سب سے اہم رفیق بن چکی ہے۔
انسان کا دوسرے انسان تک اپنی آواز پہنچانے کا ذریعہ زبان ہے اور زبان کے ذریعے خیالات اور حالات پہنچانے کی ضرورت پیش آئی،جو آج کے دور میں صحافت کہلاتی ہے۔ صحافت ہر سماج ملک خطہ اور دیہات کی ضرورت تھی چنانچہ اسے ایک شعبہ قراردیدیا گیا ہے،دنیا نے آج اس میں نت نئے طریقے ایجاد کئے ہیں،جہاں تک ہمارے خطے کی بات ہے تو یہاں ریاست قلات کے دور میں حکومتی احکامات سمیت دیگر ضروری اعلانات شہر کے چوراہے پر ریاست کے طابع ایک مخصوص طبقے کے افراد ڈھول بجا کر سب کو جمع کرتے اور پھر حکومتی احکامات کا اعلان کرتے جس سے لوگوں میں حکومتی احکامات اور اعلانات سامنے آتے۔