شعبہ صحت وزیر اعظم خان کی ترجیح پھربانجھ فیصلے کیوں؟

| وقتِ اشاعت :  


بڑی سے دنیا کے نقشے پرچھوٹا سا ملک پاکستان، جو اپنی ایک پہچان رکھتا ہے کرکٹ ہو تو پاکستان کا نام، فٹبال کی ٹیم نہیں ہے لیکن دنیا بھر میں بہترین فٹبال پاکستان بناتا اور ایکسپورٹ کرتا ہے ہاکی میں بھی کبھی ہمارا طوطی بولتا تھا پھر چاہے اسنوکر ہو یا باکسنگ ہم نے اپنے نام کو کھیلوں میں کسی حد تک زندہ رکھا ہواہے یعنی کھیل ہماری شناخت ہیں پھر چاہے کھیل میدان میں ہو یا سیاست میں ہم اس کھیل کے ماہر ہیں۔ یوں تو ہر ملک کسی خاص وجہ سے جانا جاتا ہے جیسے ہماری ثقافت میں تنوع ہے ہماری شہرت کی وجوہات بھی تنوع گیر ہیں جیسے پاکستان واحد اسلامی ایٹمی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاکا چھٹا آبادی والا ملک بھی ہے۔



میرے بدنصیب دھرتی میں!

| وقتِ اشاعت :  


یہ جو آنے والے کل کی سوچ رکھتے ہیں یہ جوکھلی آنکھوں سے سنہرے خواب دیکھتے ہیں یہ جو ایک تصورکامل پریقین رکھتے ہیں میرے دیس میں یہ وقت سے پہلے کیوں مٹ جاتے ہیں یامٹادئیے جاتے ہیں؟میرے دیس میں کیوں ایک بہترمستقبل کی خواب دیکھنے والے کا، ایک زرخیز ذہن رکھنے والے کا، ایک نئی دنیاکی آرزو کرنے والے کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔ ہمارے سمیت ہمارے دیس کے حقیقی وارثوں نے کبھی یہ سوچاہے کہ یہ خونی کھیل کیوں رچایا گیاہے اورکب تک اسے یونہی رچایا جائے گا۔جبکہ ایک بہترکل کیلئے سوچنا، ایک سنہرے مستقبل کاخواب دیکھنا اوران خوابوں کی تعبیرکی تمنا رکھنا پوری دنیاکے انسانوں کابنیادی حق مانا جاتاہے۔



*بلوچستان کے روڈ سیکٹر کی بدحالی میں این ایچ اے کا کردار، صوبائی حکومت کی عدم توجہی اور عوام کی بے حسی*

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان میں سب سے زیادہ روڈ حادثے بلوچستان میں ہوتے ہیں اور ان حادثات کی بدولت بلوچستان میں ہی پاکستان کے مقابلے میں روڈ حادثات کی شرح سب سے زیادہ ہے ایک ماہ یعنی جولائی میں روڈ حادثات میں ایک ہزار سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہونے والی انسانی اموات کا صرف جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اتنی اموات کا ذمہ دار نہ تو ریاست ہے اور نہ ہی قومی وصوبائی حکومتیں ہیں۔ تاہم ان قومی شاہراؤں سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کروڑوں روپے کا ٹول ٹیکس یعنی جگا ٹیکس وصول کر رہا ہے جبکہ اس کے باوجود بلوچستان میں قومی شاہراؤں کی تباہ حالی اور خستہ حالی کو بہتر کرنے میں این ایچ اے اور وفاق اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔



حاصل خان کی ادھوری کہانی

| وقتِ اشاعت :  


: نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو کے والد ممتاز سیاست دان میر غوث بخش بزنجو نے اپنی وصیت میں کہا تھاکہ اس کی سیاست کا وارث ان کی اولادیں نہیں ہیں بلکہ اس کے سیاسی کارکنان ہیں۔ لیکن حاصل خان نے کبھی بھی اس سیاسی وراثت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور نہ ہی سیاست کے میدان میں انہوں نے اپنے والدکا نام استعمال کیا۔ انہوں نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی الگ شناخت بنائی۔ طالعبلمی کے دور میں سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے کیا۔ اور اپنی بنائی ہوئی سیاسی جماعت، نیشنل پارٹی سے اختتام کیا۔



منظرنامہ

| وقتِ اشاعت :  


ملک میں ہمشیہ سیاسی پارٹیاں ہی خود کو عوامی مسیحا گردانتی ہیں اور خود کو عوامی مفادات اور عوام کی بھلائی کا محافظ پیش کرتی ہیں لیکن ساٹھ کے عشرے کے عوام اور آج کے عوام میں ارض و سما کا فرق ہے۔اہل ملک کو اچھی طرح علم ہے کہ سیاسی پارٹیاں صرف اور صرف اپنے آور اپنی رفیقوں کی مفادات کی نگہبان ہوتی ہیں اس میں عام لوگوں کی بھلائی کے لیئے کوئی منصوبہ ہی نہیں ان کا منزل عوامی خدمت نہیں صرف اقتدار ہوتا ہے یہ عوامی خدمت کے جذبے سے بالکل عاری ہوتی ئاس لیئے اب عوام میں ان کی پزیرائی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ان کے لیئے سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ یہ عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے کبھی اکھٹے نہیں ہوتے یہ صرف اپنے مفادات اور اپنے حواریوں کے فائدے کا سوچتے ہیں۔ ملکی سیاست میں سب سے تکلیف دہ سیاست بلوچستان کی ہے۔



سمندر برائے فروخت

| وقتِ اشاعت :  


آج کل اسلام آباد میں ایک مصنوعی سمندر بنایا گیا ہے لیکن اس سمندری میں مچھلیاں نہیں پائی جاتیں۔ اس کے باوجود آکشن ہال قائم کیاگیا۔ اس آکشن ہال میں مچھلیوں کی نیلامی نہیں ہورہی ہے بلکہ سندھ اور بلوچستان کے ساڑھے گیارہ سو کلومیٹر پر پھیلے ہوئے طویل سمندر کو فروخت کیا جارہا ہے۔ سمندر کی بولی لگائی جارہی ہے۔ایک اطلاع کے مطابق تقریبا ایک سو چائینیز جہازوں کو سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں ماہی گیری کے لائسنس دیئے جاچکے ہیں۔ ان میں سے 18 سے 20 جہاز چین سے سندھ اور بلوچستان کے سمندر پہنچ چکے ہیں۔



اسٹریٹ لائبریری، لیاری کے علم دوست تمدن کی کڑی

| وقتِ اشاعت :  


بلوچ دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کتاب کو معاشرے کے ماتھے کا جھومر لکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس معاشرے اور گھر میں کتاب نہیں ہوتی وہاں سے تہذیب و تمدن کا گزر نہیں ہوتا۔ جب کتاب کا ذکر ہو تو یہ لامحالہ لائبریری تک پہنچتا ہے۔ پاکستان میں بے شمار لائبریریاں ہیں تاہم کراچی میں اسٹریٹ لائبریری کا ایک نیا تصورِ کچھ عرصہ پہلے متعارف کرایا گیا۔ کراچی میں میٹروپول ہوٹل کے پاس اسٹریٹ لائبریری کا قیام کچھ عرصہ قبل ہوا۔ اس سلسلے میں دوسری اسٹریٹ لائبریری کے قیام کا افتتاح کراچی کی معروف قدیم بستی لیاری میں چند روز پہلے ہوا۔



بلوچستان کی ترقی، مون سون بارشیں اور گڈ گورننس کی حقیقت

| وقتِ اشاعت :  


گزشتہ دنوں بلوچستان میں بارشوں نے جہاں حکومت کی کارگردگی اور نام نہاد ترقی کو زمین بوس کیا وہاں بلوچستان میں گڈ گورننس کی بھی قلعی عوام کے سامنے کھل گئی۔ بلوچستان کے چند اضلاع مون سون زون میں شامل ہیں اور سالانہ مون سون سیزن میں بارشیں تباہی مچاتی رہتی ہیں لیکن اب تک بلوچستان کی گڈ گورننس کے دعویدار حکمرانوں کی بہترین گورننس ہمیشہ ہی ان بارشوں کی نظر ہوتی رہی ہے۔ گڈ گورننس کا نعرہ عوام کافی عرصے سے سنتے آ رہے ہیں لیکن یہ گورننس اب تک حقیقی معنوں میں صرف خواب اور سرآب ہی ثابت ہوا ہے۔



فلسطین پر مسلمانوں کا حق

| وقتِ اشاعت :  


حال ہی میں عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے امت مسلمہ کے جگر میں خنجر پیوست کیا ہے جس سے امت مسلمہ کے احساسات اور جذبات کو سخت ٹھیس پہنچاہے۔اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اب یہ زمین مسلمانوں کی نہ رہی اور اس کے جملہ مالکانہ حقوق یہود ہی کے پاس رہیں گے۔یہ بہت بڑا المیہ ہے، ایک گز زمین سے دستبرداری کتنی گران گزرتی ہے چہ جائیکہ ایک بڑے مملکت اور وہ بھی ارض مقدس ہو، انبیاء اور رسل کا مسکن رہاہو اور جس کو پاک قدموں نے پامال کیا ہو۔یہ تو غیرت ایمانی کے بالکل برعکس چیز ہے جو ناقابل برداشت ہے۔



مثبت سوچنا ہی زندگی میں کامیابی اور خوشی کا سبب ہے

| وقتِ اشاعت :  


انسان کو بے شمار نعمتیں ودیعیت کر دی گئیں ہیں جس میں سے ایک عقل بھی ہے۔ عقل کے ذریعہ حضرت انسان سوچتا ہے۔ اور سوچنے کے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔مثبت اور منفی۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے۔ کہ ہم سوچتے تو ہیں لیکن منفی سوچنا ہمارا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔منفی سوچنے کی وجہ سے ہمارے جذبات ابھرتے ہی ہمارے منہ سے جو الفاظ تسلسل کے ساتھ نکلتے ہیں۔بالآخر منفی کام سرزد ہوجاتا ہے۔کام کے بعد کردار کا حصہ بن جاتا ہے۔دوسری جانب مثبت اور منفی خیالات کے ہماری زندگی پر نمایاں اثرات ہوتے ہیں۔