آج کل اسلام آباد میں ایک مصنوعی سمندر بنایا گیا ہے لیکن اس سمندری میں مچھلیاں نہیں پائی جاتیں۔ اس کے باوجود آکشن ہال قائم کیاگیا۔ اس آکشن ہال میں مچھلیوں کی نیلامی نہیں ہورہی ہے بلکہ سندھ اور بلوچستان کے ساڑھے گیارہ سو کلومیٹر پر پھیلے ہوئے طویل سمندر کو فروخت کیا جارہا ہے۔ سمندر کی بولی لگائی جارہی ہے۔ایک اطلاع کے مطابق تقریبا ایک سو چائینیز جہازوں کو سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں ماہی گیری کے لائسنس دیئے جاچکے ہیں۔ ان میں سے 18 سے 20 جہاز چین سے سندھ اور بلوچستان کے سمندر پہنچ چکے ہیں۔
بلوچ دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کتاب کو معاشرے کے ماتھے کا جھومر لکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس معاشرے اور گھر میں کتاب نہیں ہوتی وہاں سے تہذیب و تمدن کا گزر نہیں ہوتا۔ جب کتاب کا ذکر ہو تو یہ لامحالہ لائبریری تک پہنچتا ہے۔ پاکستان میں بے شمار لائبریریاں ہیں تاہم کراچی میں اسٹریٹ لائبریری کا ایک نیا تصورِ کچھ عرصہ پہلے متعارف کرایا گیا۔ کراچی میں میٹروپول ہوٹل کے پاس اسٹریٹ لائبریری کا قیام کچھ عرصہ قبل ہوا۔ اس سلسلے میں دوسری اسٹریٹ لائبریری کے قیام کا افتتاح کراچی کی معروف قدیم بستی لیاری میں چند روز پہلے ہوا۔
گزشتہ دنوں بلوچستان میں بارشوں نے جہاں حکومت کی کارگردگی اور نام نہاد ترقی کو زمین بوس کیا وہاں بلوچستان میں گڈ گورننس کی بھی قلعی عوام کے سامنے کھل گئی۔ بلوچستان کے چند اضلاع مون سون زون میں شامل ہیں اور سالانہ مون سون سیزن میں بارشیں تباہی مچاتی رہتی ہیں لیکن اب تک بلوچستان کی گڈ گورننس کے دعویدار حکمرانوں کی بہترین گورننس ہمیشہ ہی ان بارشوں کی نظر ہوتی رہی ہے۔ گڈ گورننس کا نعرہ عوام کافی عرصے سے سنتے آ رہے ہیں لیکن یہ گورننس اب تک حقیقی معنوں میں صرف خواب اور سرآب ہی ثابت ہوا ہے۔
حال ہی میں عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے امت مسلمہ کے جگر میں خنجر پیوست کیا ہے جس سے امت مسلمہ کے احساسات اور جذبات کو سخت ٹھیس پہنچاہے۔اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اب یہ زمین مسلمانوں کی نہ رہی اور اس کے جملہ مالکانہ حقوق یہود ہی کے پاس رہیں گے۔یہ بہت بڑا المیہ ہے، ایک گز زمین سے دستبرداری کتنی گران گزرتی ہے چہ جائیکہ ایک بڑے مملکت اور وہ بھی ارض مقدس ہو، انبیاء اور رسل کا مسکن رہاہو اور جس کو پاک قدموں نے پامال کیا ہو۔یہ تو غیرت ایمانی کے بالکل برعکس چیز ہے جو ناقابل برداشت ہے۔
انسان کو بے شمار نعمتیں ودیعیت کر دی گئیں ہیں جس میں سے ایک عقل بھی ہے۔ عقل کے ذریعہ حضرت انسان سوچتا ہے۔ اور سوچنے کے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔مثبت اور منفی۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے۔ کہ ہم سوچتے تو ہیں لیکن منفی سوچنا ہمارا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔منفی سوچنے کی وجہ سے ہمارے جذبات ابھرتے ہی ہمارے منہ سے جو الفاظ تسلسل کے ساتھ نکلتے ہیں۔بالآخر منفی کام سرزد ہوجاتا ہے۔کام کے بعد کردار کا حصہ بن جاتا ہے۔دوسری جانب مثبت اور منفی خیالات کے ہماری زندگی پر نمایاں اثرات ہوتے ہیں۔
یار کورونہ وائرس نے زندگی عذاب بنادی اب ویسے بھی کلاسز نہیں ہونگے اس لیے میں نے سوچا ہے کچھ ٹائم اپنے گھر جاکر گزارا جائے،وہاں میری ماں، میرے بابا اور بھائی بہن کب سے میرے منتظر ہیں۔ مجھے اپنے بلوچستان کی مٹی یاد آرہی ہے مجھے اپنی زمین سے پیار ہے، میں بلوچستان ہوں، ویسے بھی اب کراچی یونیورسٹی میں میرا آخری سال ہے اس کے بعد میں سی ایس ایس کر کے ملک اور قوم کا نام روشن کرونگا۔ چہرے پر ہمیشہ مسکان رکھنے والا جوان جو یاروں کا یار اور محفل کی جان بھی تھا سب دوستوں سے الوداع کیا اور کراچی سے تربت کا سفر شروع کیا۔
حضرت خالد بن ولید ؓ کا تعلق قریش کے ایک نمایاں خانوادے سے تھا۔ ابتدا ہی سے ان کی شناخت ایک جرات مند اور زیرک سپاہی کی تھی۔ قبول اسلام سے قبل مسلمانوں کے خلاف میدان اُحد میں وہ قریش کے گھڑ سواروں کے دودستوں میں سے ایک کی سربراہی کررہے تھے، جب کہ دوسرا دستہ عکرمہ کی سربراہی میں تھا۔ اُحد میں جب لشکر اسلام کے تابڑ توڑ حملے کے سامنے قریش کی پیادہ فوج کے قدم اکھڑ رہے تھے تو خالد دور سے میدان کا جائزہ لے رہے تھے اور موقعے کی تلاش میں تھے۔ اسی وقت اس جنگی حکمت کار کی نگاہوں نے دیکھا کہ عقب میں گھاٹی سے مسلمانوں کے تیر انداز میدان میں اپنی برتری دیکھتے ہوئے اپنی پوزیشن چھوڑ گئے ہیں۔ نبی ﷺ نے ان تیر اندازوں کو اس مقام پر جمے رہنے کی تاکید کی تھی لیکن یہاں موجود چند تیر اندازوں کے علاوہ دیگر اس فرمان سے روگردانی کے مرتکب ہوئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو میدان میں پہلی مرتبہ پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان 14اگست کو وجود میں آیا۔دنیا میں دو ممالک پاکستان اور اسرائیل ہیں جو مذہب کے نام پر معرض وجود میں آئے اسی وجہ سے ہی پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ کے نعرے لگائے گئے۔ لیکن قائداعظم کا پاکستان ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کے باعث ترقی سے ہمکنار ہونے کے بجائے ایشیاء کے تمام چھوٹے بڑے ممالک میں معاشی و اقتصادی حوالے سے سب سے آخری نمبر پر آچکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان قائداعظم کی انتھک محنت اور قائدانہ صلاحتیوں کی بدولت مسلمانان ہند کو عرض پاک جیسا عظیم اور خوبصورت ملک نصیب ہوا، یقینا آزادی جیسی عظیم نعمت پاکستانیوں کیلئے قدرت کا ہی تحفہ ہے۔
اگست آزادی کا مہینہ ہے جشن آزادی ہر سال کی طرح اس بار بھی جوش سے منائیں گے جہاں توپوں کی سلامی ہو گی، تقاریب ہونگی، سیمینار ہونگے، گلی گلی قریہ قریہ قومی پرچم، جھنڈا، برقی قمقمے سجے ہونگے لیکن بے انصافی، ظلم، جبر، حقوق کی پامالی اور ان دیکھی بندشوں سے آزادی کا جشن کب منائیں گے، نہیں معلوم۔ اگست آتے ہی جہاں قومی دن کی تقریبات کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں وہیں ذرائع ابلاغ کے ذرائع ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے جشن آزادی کی تیاریاں، لوگوں کا جوش و جذبہ اور ساتھ ہی کبھی کبھار علیحدہ وطن کے اغراض و مقاصد، تحریک آزادی اور دو قومی نظریے پر بھی روشنی ڈال دیتے ہیں۔
بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جس کے حکمران اپنے عوام کو سوائے جھوٹی تسلی اور سبز باغ دکھانے کے اورکچھ نہیں کرتے۔ پچھلے کئی دہائیوں سے حکمرانوں نے اپنی نااہلی اور کمزوری کا ذمہ دار کبھی وفاق کو یا کبھی قبائلی سرداروں کو ٹھہرایا ہے تاکہ اپنی نااہلی کو چھپا سکیں۔بلوچستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں ان کا ہمیشہ سے دعویٰ رہا ہے کہ انھوں نے یہاں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا ہے مثلاً تعلیمی اداروں کے لئے رنگ ورغن کے اخراجات، ایسے سکول،کالجزکو اپ گریڈ کرنا جہاں پہلے سے ہی اساتذہ اورپروفیسرز کی کمی ہویا۔