ملک بھر میں کورنا وائرس کے تیزی کے ساتھ پھیلاؤ کو مد نظر رکھتے ہوئے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیاگیا بلوچستان کی صوبائی حکومت نے انسداد کورنا کیلئے سب سے پہلے محدود وسائل میں رہ کر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے۔ صوبائی حکومت نے جہاں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے وہی حکومت نے بروقت اقدامات اٹھاتے ہوئے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد اور مستحقین کیلئے امداد ی پیکچ اور ریلیف فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا تاکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیہاڑی دار افراد متاثر نہ ہوں اور اب تک حکومت کی یہ حکمت عملی دیہاڑی دار اور مستحق خاندانوں کیلئے معاون ثابت ہوئی ہے۔
پاکستان کے دیگرعلاقوں کی طرح بلوچستان کے باسی بھی عیدالفطر کو میٹھی عید کے نام سے پکارتے ہیں، اس عید کو محبتوں کی مٹھاس کے علاوہ اس سے جْڑی میٹھی سوغاتوں کی بدولت اس کو میٹھی عید کا نام دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں میٹھی عید پہ سیویّاں لازم وملزوم ہیں۔ میٹھی عید پر سیویّاں نہ ہوں تو عید ادھوری سمجھی جاتی ہے۔بلوچستان میں پہلے ہاتھوں سے تھوڑی تھوڑی کر کے سیویّاں تیار کی جاتی تھیں، اب مشینی ہاتھوں نے اس کام کو تیز رفتار بنا دیا ہے مگر آج بھی بلوچستان میں ان مشینی ہاتھوں کا استعمال بہت کم ملتا ہے۔ شاید اس کی وجہ غربت ہے یا صدیوں پرانے رسم و رواج۔
غلام صرف ایک شخص ایک فرد نہیں ہوتا غلامی صرف فرد یا قوم سے آزادی چھن جانے کا نام نہیں ہے اور نا ہی اپنی مرضی سے زندگی نا جینے کا نام ہے غلامی ایک گہرا روگ ہے ایک خوفناک مرض ہے۔۔جب ایک قوم غلام ہوتی ہے نا تو صرف اس قوم کے لوگ غلام نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ پوری دھرتی غلام ہوتی ہے پورا خطہ جس میں غلام قوم آباد ہوتی ہے غلامی کا لحاف اوڑھ لیتا ہے۔وہاں کی فضاء چرند پرند وہاں پہ پھیلا امبر سب غلام ہوجاتے ہیں۔ وہاں کی مٹی میں غلامی کی بو ہوتی ہے۔غلاموں کی زمین پہ پہلے بلند وبالا سنگلاخ پہاڑ ان پہاڑوں کا سینہ چیرتی سرنگیں اور ان پہاڑوں کی گود میں پلنے والے نایاب جانور سب غلام ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ روز میں بھٹو صاحب کی سندھی میں تقریر سن رہا تھا جس میں وہ ایک فقیر کا واقعہ بتا رہے تھے کہ تخلیق پاکستان سے قبل لاڑکانہ سے ہم ٹرین کے ذریعے بمبئی جاتے تھے اس وقت لوگ جمعہ کے دن خیرات کا اہتمام کرتے تھے، ہم بھی اسی روز خیرات کرتے تھے۔ ایک فقیر اسی روز ہمارے ہاں خیرات کے لیے آتا تھا ایک دن اس فقیر نے مجھ سے کہا آج ٹرین لاڑکانہ سے بمبئی نہیں جائے گی، میں اسے اپنی روحانی طاقت سے جانے نہیں دونگا۔ میں اس وقت چھوٹا تھا اس بات کو سچ سمجھ بیٹھا اور اپنے والد سے کہا کہ فقیر کہہ رہا ہے میں ٹرین کو جانے نہیں دونگا۔
صحافت عربی زبان کے لفظ ”صحف“ سے ماخوذ ہے جس کا مفہوم صفحہ یا رسالہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ انگریزی میں جرنلزم، جرنل سے ماخوذ ہے یعنی روزانہ کا حساب یا روزنامچہ۔صحافت کسی بھی معاملے کے بارے میں تحقیق یا پھر سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے بشرطیکہ اس سارے کام میں نہایت ایمانداری اور مخلص انداز میں کیا جائے۔صحافت لوگوں کی رہنمائی کرنے، افراد کو ایک دوسرے سے جوڑنے، معلومات بہم پہچانے اور تبصروں کے ذریعہ عوام الناس کو حقائق سے روشناس کرانے کا نام ہے۔تین مئی کو دنیا بھر میں عالمی یوم صحافت منایا جاتا ہے، اس دن صحافت کی راہ میں ایثار و قربانی پیش کرنے والے صحافیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، مختلف تقاریب منعقد ہوتی ہیں اور دانشور حضرات پرمغز تقاریر کرکے اس شعبے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
نصیرآباد ڈویژن بلوچستان کا کوئٹہ کے بعد گنجان آبادی کے حامل ڈویژنوں میں سے ایک ہے جس میں پانچ اضلاع، نصیرآباد، جعفر آباد، صحبت پور،جھل مگسی اور کچھی شامل ہیں۔ان اضلاع میں نصیرآباد اور کچھی دو ایسے اضلاع ہیں جہاں کبھی کبھی یا کسی طویل وقفے کے بعد کسی سیاسی حریف کو کامیابی ملتی ہے اور کم از کم پانچ سال صرف ان ہونے والی تبدیلی پر سیاست ہوتی رہتی ہے تاہم جعفر آباد،جھل مگسی اور صحبت پور ایسے انتخابی حلقے ہیں جہاں موروثی سیاست یا سیاسی جاگیر دار یا قبائلی نشست سمجھے جا تے ہیں۔ اوستہ محمد کی نشست پر ہمیشہ میر جان جمالی صاحب وزیر اعلیٰ، اسپیکر وزیر تک منتخب ہوتے رہے ہیں۔
ہم زندگی میں تین طرح کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ پہلی قسم کورس اور نصاب کی کتابوں پر مشتمل ہے۔ ان کو پڑھے بغیر اور یاد کئے بغیر ہم امتحانات میں پاس نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمیں ان کے بغیر ڈگر ی ملتی ہے۔ کورس کی کتابوں کو اپنے وقت کے ماہرِتعلیم، دانش ور، سائنسدان اور علماء کرام ترتیب دیتے ہیں۔ ہر دور اور ہر زمانے کی تحقیق کے مطابق کورس تبدیل ہوجاتے ہیں۔اس لئے تعلیم اور تعلیم یافتہ کو ماپنے کے معیار بھی بدل جاتے ہیں۔ دوسری قسم کی کتابیں ہمارے شوق اور مزاج کے انتخاب کا حصہ ہوتی ہیں۔ یہ کتابیں سیاست، مزاح، فکشن، مذہب، سوانح عمری، سفرنامے، سیلف ہیلپ، فلسفہ، شاعری، حکمت و دانش، روحانیت کی ہوسکتی ہیں۔
نور اپنے شوہر جمیل پر مسلسل دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ اس بار سالگرہ پر اسے صرف سونے کا ہار ہی تحفے میں دے، بالکل ویسا ہی جیسا اس کی ہمسائی کو شوہر سے ملا ہے ورنہ وہ گھر چھوڑ کر میکے چلی جائے گی۔ نور کو شکوہ تھا کہ جمیل کو اْس سے ذرا بھی محبت نہیں، کبھی مہنگا اور قیمتی تحفہ نہیں دیا جیسے رضیہ (ہمسائی) کا شوہر اسے اکثر دیتا رہتا ہے۔
ٹھیک آج سے چھ ماہ پہلے جو ناکارہ چیزیں پاکستانی مارکیٹ میں سمجھی جاتی تھیں وہ چائنہ کی ہی چیزیں تھیں حتیٰ کہ پاکستانی دکاندار قسم اٹھا اٹھا کر تھکتے ہی نہیں تھے کہ یہ چائنہ کا مال نہیں کسی اور ملک کا مال ہے۔ مگر آج کل پھر چائنہ سے آئے ہوئے کرونا وائرس سیفٹی مال لاکھوں اربوں روپے کا سامان اعلیٰ کوالٹی سمجھا جا رہا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر یہ وقت کیوں آ گیا کل کی خراب چیزیں اچھی کیسے ہونے لگیں۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ مڈوائفری پیشے کی حالت زار یہ ہے جس نے اپنی کوئی شناخت نہیں حاصل کی ہے اور غلطی سے نرسنگ کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ تر طلباء حقیقی ڈلیوریوں میں کسی کے ساتھ یا بہت ہی کم تجربہ رکھنے والے ڈپلومے محفوظ رکھتے ہیں، اور اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ پاکستان ہماری زچگی کی اعلیٰ شرح اموات کے لئے خاص طور پر ان معاشروں میں، جہاں 40فیصد پیدائشیں ہوتی ہیں، کے لئے مضر اثرات کے ساتھ قابل دایہ پیدا نہیں کررہی ہیں۔مڈوائف کے پاس اپنے پیشے پر عمل کرنے کے لئے کچھ مواقع موجود ہیں۔ لہذا، اگرچہ ہزاروں افراد کو ہر سال تربیت دی جاتی ہے لیکن وہ نظر نہیں آتے ہیں۔ ریگولیٹری میکانزم کے بغیر نہ تو مڈوائف اور نہ ہی ان خواتین کی جن کو وہ خدمت کرتے ہیں ان کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ مزید برآں، ان کے کیریئر کے امکانات نرسوں سے کہیں زیادہ تاریک اور کمتر ہیں۔