نصیرآباد ڈویژن بلوچستان کا کوئٹہ کے بعد گنجان آبادی کے حامل ڈویژنوں میں سے ایک ہے جس میں پانچ اضلاع، نصیرآباد، جعفر آباد، صحبت پور،جھل مگسی اور کچھی شامل ہیں۔ان اضلاع میں نصیرآباد اور کچھی دو ایسے اضلاع ہیں جہاں کبھی کبھی یا کسی طویل وقفے کے بعد کسی سیاسی حریف کو کامیابی ملتی ہے اور کم از کم پانچ سال صرف ان ہونے والی تبدیلی پر سیاست ہوتی رہتی ہے تاہم جعفر آباد،جھل مگسی اور صحبت پور ایسے انتخابی حلقے ہیں جہاں موروثی سیاست یا سیاسی جاگیر دار یا قبائلی نشست سمجھے جا تے ہیں۔ اوستہ محمد کی نشست پر ہمیشہ میر جان جمالی صاحب وزیر اعلیٰ، اسپیکر وزیر تک منتخب ہوتے رہے ہیں۔
ہم زندگی میں تین طرح کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ پہلی قسم کورس اور نصاب کی کتابوں پر مشتمل ہے۔ ان کو پڑھے بغیر اور یاد کئے بغیر ہم امتحانات میں پاس نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمیں ان کے بغیر ڈگر ی ملتی ہے۔ کورس کی کتابوں کو اپنے وقت کے ماہرِتعلیم، دانش ور، سائنسدان اور علماء کرام ترتیب دیتے ہیں۔ ہر دور اور ہر زمانے کی تحقیق کے مطابق کورس تبدیل ہوجاتے ہیں۔اس لئے تعلیم اور تعلیم یافتہ کو ماپنے کے معیار بھی بدل جاتے ہیں۔ دوسری قسم کی کتابیں ہمارے شوق اور مزاج کے انتخاب کا حصہ ہوتی ہیں۔ یہ کتابیں سیاست، مزاح، فکشن، مذہب، سوانح عمری، سفرنامے، سیلف ہیلپ، فلسفہ، شاعری، حکمت و دانش، روحانیت کی ہوسکتی ہیں۔
نور اپنے شوہر جمیل پر مسلسل دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ اس بار سالگرہ پر اسے صرف سونے کا ہار ہی تحفے میں دے، بالکل ویسا ہی جیسا اس کی ہمسائی کو شوہر سے ملا ہے ورنہ وہ گھر چھوڑ کر میکے چلی جائے گی۔ نور کو شکوہ تھا کہ جمیل کو اْس سے ذرا بھی محبت نہیں، کبھی مہنگا اور قیمتی تحفہ نہیں دیا جیسے رضیہ (ہمسائی) کا شوہر اسے اکثر دیتا رہتا ہے۔
ٹھیک آج سے چھ ماہ پہلے جو ناکارہ چیزیں پاکستانی مارکیٹ میں سمجھی جاتی تھیں وہ چائنہ کی ہی چیزیں تھیں حتیٰ کہ پاکستانی دکاندار قسم اٹھا اٹھا کر تھکتے ہی نہیں تھے کہ یہ چائنہ کا مال نہیں کسی اور ملک کا مال ہے۔ مگر آج کل پھر چائنہ سے آئے ہوئے کرونا وائرس سیفٹی مال لاکھوں اربوں روپے کا سامان اعلیٰ کوالٹی سمجھا جا رہا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر یہ وقت کیوں آ گیا کل کی خراب چیزیں اچھی کیسے ہونے لگیں۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ مڈوائفری پیشے کی حالت زار یہ ہے جس نے اپنی کوئی شناخت نہیں حاصل کی ہے اور غلطی سے نرسنگ کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ تر طلباء حقیقی ڈلیوریوں میں کسی کے ساتھ یا بہت ہی کم تجربہ رکھنے والے ڈپلومے محفوظ رکھتے ہیں، اور اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ پاکستان ہماری زچگی کی اعلیٰ شرح اموات کے لئے خاص طور پر ان معاشروں میں، جہاں 40فیصد پیدائشیں ہوتی ہیں، کے لئے مضر اثرات کے ساتھ قابل دایہ پیدا نہیں کررہی ہیں۔مڈوائف کے پاس اپنے پیشے پر عمل کرنے کے لئے کچھ مواقع موجود ہیں۔ لہذا، اگرچہ ہزاروں افراد کو ہر سال تربیت دی جاتی ہے لیکن وہ نظر نہیں آتے ہیں۔ ریگولیٹری میکانزم کے بغیر نہ تو مڈوائف اور نہ ہی ان خواتین کی جن کو وہ خدمت کرتے ہیں ان کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ مزید برآں، ان کے کیریئر کے امکانات نرسوں سے کہیں زیادہ تاریک اور کمتر ہیں۔
تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب،مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے یہ انسان کا حق ہے جو کوئی اس سے نہیں چھین سکتا اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہے تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کیلئے ترقی کی ضامن ہے، یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول،کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تعمیر اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور قتدار کا خیال رکھ سکے۔تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوارتی ہے دنیا میں اگر ہر چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ تعلیم کی وجہ سے دیا گیا ہے۔
نوجوانوں کو سماج کا دل دماغ یا ریڑھ کی ہڈی کہنے میں کوئی حرج نہ ہوگا کیونکہ نوجوان ملک اور معاشروں کا مستقبل اور معمار ہوتے ہیں انھوں نے ہی آگے چل کر ہر شعبہ ہائے زندگی کی باگ دوڑ سنبھالنی ہوگی لہٰذا مستقبل کے معماروں کی جسمانی ذہنی اور جذباتی صحت کو ہر اعتبار سے مکمل اور پرفیکیٹ ہونا چاہئے کیونکہ کمزور و لاغر انسانی وسائل کمزور معاشرے اور قوم تشکیل دیتے ہیں آج ہمارے نوجوانوں اور بچوں میں منشیات کا بڑھتا رحجان ایک خطرناک صورتحال اور مستقبل میں ایک اٹھتے طوفان کی پیش گوئی کررہا ہے منشیات کا استمال ایک ایسا فعل ہے جس کی اسلامی شریعت سماجی علوم اور ہر مذہب میں ممانعت ہے۔
بارہ مئی کو دنیا بھر میں نرسنگ ڈے منایا جاتا ہے لیکن اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کے نرسز کیلیے صورتحال قدرے مختلف ہے کئی نرسز اپنی زندگی کی بازی ہارچکے ہیں ان میں ترقی یافتہ ممالک امریکہ، برطانیہ، اٹلی اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی نرسز بھی شامل ہیں۔ یہ دن بنیادی طور پر فلورنس نائٹ انگیل کی پیدائش کا دن ہے جو نرسنگ کے شعبے میں جدت لانے والی خاتون تھی یہی وجہ ہے کہ اس دن کو ان سے اور نرسنگ سے منسوب کیا گیا ہے۔جب کریمیا جنگ اختتام کو پہنچی تو ایک پروقار فوجی تقریب رکھی گئی تھی جس میں فوجیوں سے کہا گیا کہ وہ کاغذ کی پرچی پر اْس شخصیت کا نام لکھیں۔
ایک گاؤں جو وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ گاؤں کی آبادی اچھی خاصی ہے۔لیکن گاؤں کے مکین چودھریوں کے آپس کے گتھم گتھاسے پریشان رہتے ہیں۔گاؤں میں پچھلے تیس سالوں سے ایک چودھری کی چودھراہٹ چلی آرہی ہے۔جس کا نام چوہدری نذیر ہے اس کا اثر رسوخ گاؤں کے اوپر بہت زیادہ ہے۔چودھری کی معاشی حالت مضبوط اور عسکری قوت سے مالامال، خیر ہر طرح سے چودھری کا سکہ چلتا ہے۔چودھری نذیر نے اپنے حلقہ احباب کو مضبوط کرنے کے لیے کسی کو پیسوں کی لالچ اور کسی کو دھونس دھمکی کے ذریعہ اپنا ہمنوا بنایا ہوا ہے۔
ماؤں کا دن منانے کا آغاز ایک امریکی خاتون اینا ہاروس کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ اینا ہاروس چاہتی تھیں کہ اس دن کو ایک مقدس دن کے طور پر سمجھا اور منایا جائے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں 8 مئی 1914 کو امریکا کے صدر ووڈرو ولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو سرکاری طورپر ماؤں کا دن قرار دیا۔یومِ ماں یا ماں کا عالمی دن ہر سال یہ دن مختلف ممالک میں منایا جاتا ہے، عالمی طور پر اس کی کوئی ایک متفقہ تاریخ نہیں، یہ دن مختلف ممالک میں مختلف تاریخوں کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان اور اطالیہ سمیت اکثر ممالک یہ دن مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔۔