بالآخر جنوبی بلوچستان کے قیام کا آغاز ہو ہی گیا۔ گزشتہ کئی عرصے سے بلوچستان میں دو صوبے بنانے کی تیاریوں کی اطلاع چل رہی تھی جس کو حتمی شکل دے دی گئی۔ اس سلسلے میں گوادر کو جنوبی بلوچستان کے دارالحکومت کا درجہ مل گیا۔ حکومت نے گوادر پورٹ اتھارٹی کے ریسٹ ہاؤس کو سول سیکرٹریٹ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیاہے۔ حکومت نے سول سیکرٹریٹ کی تزئین و آرائش کے لئے کروڑوں روپے مختص کئے ہیں اور اس پر باقاعدہ کام کا آغاز ہوچکا ہے۔جنوبی بلوچستان کے قیام کے سلسلے میں سرکاری طورپر ہمیشہ اس کی تردید کی گئی۔
مو جودہ بجٹ اجلاس میں بلو چستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے صدر سردار اختر جان مینگل نے حکمران اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر کے پا کستان تحریک انصاف کے حکومت کو دھچکا لگا یا۔علیحدگی کا اعلان قوم کے لیئے اچھا شگون نہیں۔حکومت پر الزام لگایا گیا کہ وہ بلوچستان کے مسائل پر غیر سنجیدہ رویہ اختیار کئے ہوئے تھااور وہ ان دو معاہدوں پر عمل درآمد میں ناکام ہوئی جو تحریک کے لیڈر شپ سے حکومت بنانے سے پہلے اور2018 کے الیکشن کے بعد ہوئے تھے ۔دو تکلیف دہ مسائل جو سردارمینگل نے اپنی تقریر میں اٹھائے۔
پاکستان میں سویلین بالادستی کی تبلیغ کو کئی دہائیاں بیت چکی ہیں۔ مادرِ ملت متحرمہ فاطمہ جناح کا ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینا ہو یا ایم آر ڈی کی تحر یک ، سویلین بالادستی کا خواب اب بھی تعبیر کی منتظر ہے۔ بظاہر ملک میں متفقہ آئین نافذ ہے اور اٹھارویں ترمیم کو انقلابی پیش رفت بھی قرارد یا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود سویلین بالا دستی کا حصول تشنگی کا شکارہے۔ امید تھی کہ موجودہ عہد میں ظہور پذیر اپوزیشن اتحاد یعنی پی ڈی ایم سویلین بالادستی کے قیام کے لئے تاریخ رقم کرے گی لیکن پی ڈی ایم شاید خود تاریخ بننے جارہی ہے۔
اہل علم و ادراک چاہے ان کا تعلق کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو اس بات پر متفق ہیں کہ ملکی نیتاؤں کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، جو بھاشن یہ جلسے جلوسوں میں دیتے ہیں سب کزب عظیم ہیں، یہ اپنے مفاد کی خاطر خوب صورت جالیں بننے کے ماہر ہیں۔ ملکی تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو کبھی بھی ایسا موڑ نہیں آیا جہاں حکمران طبقہ نے عوامی مفادات کی خاطر جلسے جلوس کیے ہوں۔
انتیس مارچ کی صبح اپنی صاحبزادی کو اسکول چھوڑ کر آتے ہوئے ریڈ زون کو دیکھا اور سوچنے لگا کہ کیا مارچ کے بعد مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا اصل امتحان شروع ہوگیا ہے۔ کوئٹہ کے اس ریڈ زون کے گرد کنٹینر لگنے کا منظر اس سے قبل میری نظروں سے نہیں گزرا ہے، یہ منظر کیوں نظر آرہا ہے کیونکہ بلوچستان کے سرکاری ملازمین تنخواہوں میں پچیس فیصد اضافے کے مطالبے کو لیکر میدان میں اترے ہیں اور انہوں نے آج وزیر اعلیٰ ہائوس کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے اور موجودہ حکومت کے دور میں بڑے احتجاج دیکھے لیکن کسی احتجاج کیلئے حکومت کو اتنا الرٹ نہیں دیکھا جتنا اب دیکھ رہا ہوں۔
مملکت خداداد میں بلدیاتی نظام پر نظردوڑائی جائے تو کہیں بھی ملک کی نصف آبادی خواتین کوموثر نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ یہاں بلدیاتی نظام کی بات کی جائے تو برٹش بلوچستان کے دور میں 1910ء میں بازار فنڈ ریگولیشن اور کوئٹہ میونسپل لاء کے تحت بلدیاتی نظام رائج کیا گیا جبکہ 1952ء میں امریکن امداد کے تحت “ویلج ایڈ” یعنی دیہات سدھار پروگرام شروع کیا گیا۔ مگر بیرونی امداد بند ہونے کے سبب 1961ء میں دیہات سدھار پروگرام ختم کر دیا گیا۔
کچھ عرصہ قبل کراچی پرتحقیق کرنے والے ایک محقق کے ساتھ شہرکے مضافاتی علاقے فقیرکالونی جانے کااتفاق ہوا۔۔ خوب صورت حب ریور روڈ سے جیسے ہی اس بستی کی طرف مڑے پہلے تو اندازہ ہواکہ ہم کسی پہاڑی سلسلے میں داخل ہورہے ہیں۔۔۔ دونوں جانب پتھریلے پہاڑوں اور پھر ٹوٹی پھوٹی سڑک نے بھر کس نکال دیئے۔۔بڑی مشکل سے علاقے میں داخل ہوئے تو صحافی دوست نے استقبال کیا اور روایتی انداز میں تھکان دیکھ کرپہلے پانی پیش کیا۔ہم شہری لوگوں کی ایک عادت ہے کہ آدھاکھاتے ہیں۔
ضلع چاغی دنیا کے امیر ترین خطوں میں سے ایک خطہ ہے۔ لیکن بدقسمتی یہاں کے باسی دنیا کے غریب ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کو پاؤں میں پہننے کے لئے چپل بھی میسرنہیں، پینے کے لئے صاف پانی نہیں، رہنے کے لئے چھت نہیں، علاج کے لئے اسپتال نہیں، پڑھنے کے لئے تعلیمی ادارے نہیں، زندہ رہنے کے لئے روزگار نہیں ہے۔ حکومتی رویے کی وجہ سے غریب عوام جسمانی اور اعصابی مسائل سے دوچار ہیں۔ پالیسی ساز ضلع کی زمین میں دفن معدنیات نکالنے کے لئے پالیسیاں تو مرتب کرتے ہیں ۔
کورونا کے بڑھتے کیسز کے باعث نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے وفاقی دارالحکومت سمیت ملک بھر میں کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔وفاقی وزیر اور این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں بتایا کہ این سی او سی نے آج ہونے والے اجلاس میں کورونا کے باعث لگائی گئی پابندیوں میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔اسد عمر کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے مثبت کیسز کے باعث مختلف سرگرمیوں پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسلام آباد اور صوبائی انتظامیہ کو کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سینیٹ کے قیام کا مقصد قومی سطح پر تمام صوبائی اکائیوں کو برابرکی نمائندگی فراہم کرنا تھا تاکہ قومی اسمبلی میں نمبر گیم کے عدم توازن کو برابر کیا جاسکے کچھ لوگوں کے خیال میں اب یہ ایک ڈبیٹنگ کلب ہے کچھ لوگ اسے ملک کے بڑے قانون ساز ادارے کے طور پر دیکھتے ہیں پر میری رائے میں اب گزرتے وقت کیساتھ یہ بلئینر اور ٹھیکیدار کلب بنتا چلا جا رہا ہے اب کسی سیاسی کارکن کیلئے طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اس معزز ایوان کا رکن بننا آنے والے دنوں میں خواب ہی ہوگا ایک ایسا خواب جسکی تعبیر ممکن نہیں ہوگی اور پتہ نہیں اس وقت تک یہ ایوان اتنا معزز رہے بھی یا نہیں۔