جنوبی بلوچستان ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح کے تحت بلوچستان کے عوام کو ذہنی طورپر تیار کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں بلوچستان کو انتظامی امور کی بنیادوں پر دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں جنوبی بلوچستان کا نام میڈیا کی زینت بنایا جارہا ہے۔ مکران اور جھالاوان ناموں کو مٹایا جارہا ہے۔ حالانکہ ان ناموں کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔۔ ریاست مکران کی اپنی تاریخ ہے۔ جبکہ جھالاوان ریاست قلات کا ایڈمنسٹریٹیو ڈویژن تھا۔ ایک پالیسی کے تحت اس تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے۔ تاریخ کو مسخ کرنا قوموں کو مسخ کرنے کے مترادف ہوتاہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ملکی سیاسی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور یہ بتدریج شدت اختیار کرنے والا ہے کیوں کہ اے پی سی اعلامیہ پر عملدرآمد کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں نے حکمت عملی ترتیب دینا شروع کردی ہے۔ اسلام آباد میں سیاسی جماعتوں کے رہنما ؤں پر مشتمل رہبر کمیٹی کا اجلاس ہوا فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب دی گئی اور مولانا فضل الرحمن کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا سربراہ بنانے کی تجویز بھی منظور کی گئی جبکہ کراچی میں مولانا فضل الرحمن نے بلاول بھٹو زرداری سے تفصیلی ملاقات کی اور اے پی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔اے پی سی کی پہلی بڑی کامیابی سیاسی قومی اتحاد کی تشکیل ہے جسے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نام دیا گیا ہے۔
سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کا مشہور واقعہ ہے تین چار نوسرباز دیہاڑی مارنے کے چکر میں گلی محلوں میں گھوم رہے تھے، انہیں ایک پاگل مل گیا اس کو نیا کاٹن کا جوڑا، نئی ٹوپی اور کاندھے پر سندھی اجرک اور نئے جوتے پہنانے کے بعد اس کو کہا کام کرو گے ”ہاں“روٹی کھاؤ گے ”ہاں“یعنی ہاں ان کا تکیہ کلام تھا۔اس کو سکھر کی بڑی پرچون کی دکان پر لے گئے، نوسربازوں نے دکاندار کے سامنے کہا بھوتار سودا سلف لیں۔ کہاں ”ہاں“ مختصر یہ کے بڑا سامان لیا، چھوٹے مزدا میں سامان لوڈ ہو گیا۔ نوسربازوں نے کہا بھوتار پیسے دو دکاندار کو، کہا ”ہاں“۔
23 ستمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے پختون کلچر ڈے کے طور پر جوش و خروش سے مناتے ہیں۔اس دن کی مناسبت سے مختلف تقریبات رکھی جاتی ہیں جس میں پشتون کلچر کے مختلف رنگ نظرآتے ہیں جن میں خواتین کی کشیدہ کاری سے مزین پوشاک، شادی بیاہ کے موقع پر استعمال ہونے والے خصوصی زیورات، خوراک، رہن سہن، ملبوسات، روایتی رقص اتنڑ کے رنگ نمایاں ہوتے ہیں۔ مختلف سٹالز بھی لگائے جاتے ہیں جن میں اْن ثقافتی اشیاء کو رکھا جاتا ہیں جن کا استعمال اب ختم ہو رہا ہے۔
مملکت خدا داد میں وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی کا سلسلہ قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہوا اور بڑھتے بڑھتے سانحہ مشرقی پاکستان کا مؤجب بن گیا اور 1971 میں ملک دولخت ہوگیا لیکن اس کے بعد بھی چھوٹے صوبوں کے متعلق وفاق کی جارحانہ پالیسیوں میں کمی نہیں آئی۔ خدا خدا کر کے 1973 کا دستور اتفاق رائے سے منظور ہوگیا اور چھوٹے صوبوں کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ دس سال بعد آئین میں موجود کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرکے صوبوں کو خود مختاری دی جائے گی لیکن 1977 میں جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا۔
سرائیکی خطہ جسے انسانی تاریخ کی پہلی مہذب سلطنت کا اعزاز حاصل ہے جو کسی زمانے میں امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ سرائیکی وسیب کے لوگوں کے پیار،خلوص،مہمان نوازی،جوانمردی،خودی داری و عزت کی مثالیں پاکستان بھر میں دی جاتی تھیں۔ آج وہ وسیب شرپسند عناصر، لاقانونیت،من گھڑت سرداری نظام کی وجہ سے ظلم و بربریت کا شکار ہے۔اس وسیب میں اب نہ تو راہ چلتا مسافر محفوظ ہے،نہ حوا کی عزت دار بیٹی، نہ سکول کالج کا طالب علم۔اس وسیب میں چوروں کا راج ہے، ڈاکوؤں نے لوگوں کا جینا محال کر دیا ہے۔آئے روز کسی نہ کسی چوراہے۔
چند روز قبل ایک ٹیلی ویژن چینل پر سینئر صحافی وسعت اللہ خان نے ایک کالر کے سوال کا جواب دیا جسکے بعد ہمارے سندھی دوست اتنے جذباتی ہوئے کہ جسکی کوئی حد نہیں گو کہ میں ذاتی طور پر وسعت اللہ خان کی شخصیت اور انکے کا م کا مداح ہوں اور اس دن جو بات انہوں نے کی اس سے میں ایک سو ایک فیصد متفق تھا لیکن اپنے ہی پروگرام میں وسعت اللہ خان نے سندھ دھرتی کو اپنی ماں کہہ کر غیر مشروط معافی مانگ کر جس بڑے پن کا ثبوت دیا،یہ واقعی ان کا ہی ظرف تھا اسلئے اب اس معاملے پر کسی بحث میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن اس معاملے نے مجھے کچھ لکھنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔
مکران ڈویژن میں ڈرگ مافیا کے خلاف چلنے والی تحریک میں سیاسی جماعتوں کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان کی یہ مصلحت پسندی کی سیاست سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس سے قبل رواں سال مئی میں مسلح جتھوں کے خلاف بھی تحریک چلی تھی۔ جس میں بھی سیاسی جماعتوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ وہ صرف اسمبلیوں میں پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کررہے تھے جبکہ عوام بغیر کسی سیاسی قیادت کے سڑکوں پر سراپا احتجاج کررہی تھی۔یہ مصلحت پسندی کی سیاست کب تک چلے گی؟ اتنی بڑی مافیا کا مقابلہ بغیر سیاسی جماعتوں کے کیسے ممکن ہوسکے گا؟ کیوں سیاسی لیڈر شپ خوف میں مبتلا ہیں؟۔
ویسے تو اس سماج میں روزانہ ہر انسان خواہ وہ مرد ہو، عورت ہو یا کہ کوئی بھی جنس، مذہب، زبان، رنگ، نسل، ذات، فرقے اور طبقات کی وجہ سے مر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن عورتوں کو صنفِ نازک، بے بس، ڈرپوک جیسے القابات نواز کر انہیں ذہنی طور پر اتنا کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ کئی جگہوں پر چاہ کر بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتی۔ اس بے بسی کے احساس سے انہیں لگتا ہے کہ وہ واقعی کوئی دوسری مخلوق ہیں جن کو protect کرنے کے لیے خدا نے مرد ذات کو بنایا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ یہی مرد ذات اس کے لیے ایک وحشی کا روپ دھار لیتا ہے۔
بلوچستان حکومت نے بلوچستان میں پولیس نفری کی کمی کو دور کرنے کے لیے آئی جی پولیس محسن حسن بٹ کو میرٹ پر پولیس کانسٹیبلان کی بھرتی کرنے کے لیے احکامات جاری کیے تو بلوچستان کے بیروزگار نوجوانوں کی محکمہ پولیس کے لیے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے سینکڑوں خالی پولیس کانسٹیبلان کی پوسٹوں پر ہزاروں بیروزگاروں نے اپلائی کیا اور اس امید سے بھوکے پیاسے علی الصبح سے لیکر رات کی تاریکی تک پولیس بھرتی کے گراؤنڈوں میں پہنچے کہ بلوچستان کی عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔21ویں صدی کا دور ہے انڑنیٹ کا دور ہے۔