پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ایک نظریے پر قائم ہوا اور اس نظریے کی حفاظت و نگرانی کی خاطر پاک مٹی نے ایسے جری اور بہادر سپوتوں کو جنم دیا جن کے کارناموں کو تاریخ کبھی بھلا نہیں سکتی۔ 1947سے لیکر اب تک ہمارا ملک مسلسل دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ اس ملک کو مٹانے کا خواب دیکھنے والوں نے کبھی نوخیز عمری میں اس کی سا لمیت پر حملہ کیا تو کبھی ساز باز کرکے اس کو دوحصوں میں بانٹنے کی کوشش کی۔ کبھی پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے خلفشار اور بد امنی پھیلانے کی منصوبہ بندی کی گئی تو کبھی علاقائی اور لسانی تعصب کو ہو ا دے کر اپنے مضموم مقاصد کو حاصل کرنے کی قبیح کوشش کی گئی۔
ریاست لسبیلہ بے شمار جنگوں پر مشتمل ایک پوشیدہ تاریخ رکھتی ہے جس سے پردہ اٹھانا ایک اورجنگ کا محاذ کھولنے کے مترادف ہے۔ ہر ریاست تاریخ کو مسخ کرکے اپنی ایک جھوٹی تاریخ متعارف کراتی ہے۔ تاکہ وہ جھوٹ کی بنیاد پر بآسانی حکمرانی کرسکیں۔ اسی طرح ریاست لسبیلہ کے جدگال حکمرانوں نے ایک جھوٹی تاریخ پر اپنی ریاست قائم کی۔ اپنے بھائیوں کو دھوکہ دے کر ریاست پر قبضہ جمایا۔ حالانکہ ریاست لسبیلہ کے اصل وارث صرف جاموٹ کی ذیلی شاخ عالیانی نہیں ہیں بلکہ گنگو اور برفت اقتدار میں برابر کے شراکت دار ہیں۔
بلوچستان ملک کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہ 47فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔ شومئی قسمت کہ بلوچستان جتنا بڑا صوبہ ہے اتنا ہی زیادہ پسماندگی محرومی اور بدحالی کا شکار ہے۔ جہاں کے باشندے ترقی کے نام سے واقف تک نہیں آپ کو پورے بلوچستان میں نہ تو معیاری اور جدید ترقی یافتہ شہر ملیں گے اور نہ ہی اس صوبے کے باسیوں کو بہترین ہسپتال و علاج معالجہ کی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی بلوچستان تعلیمی میدان میں کوئی خاطر خواہ نتائج دے رہا ہے۔ آپ بلوچستان کی بدحالی اور عدم ترقی کا حال کئی برسوں سے سن رہے ہونگے۔
آج ایک دل دہلانے والا واقعہ تربت میں پیش آیا جب بلوچستان کی خاتون صحافی شاہینہ شاہین کو دن دھاڑے شہید کیا گیا۔ آج پھر پیارا بلوچستان لہو لہان ہوا، آج پھر قربانی بلوچستان کے ایک خاتون کے حصے میں آئی۔ شاہینہ شاہین پی ٹی وی بولان میں مارننگ شو کی میزبان تھیں اور ساتھ بلوچی میگزین (دزگہوار) کی ایڈیٹر تھیں۔شاہینہ کا نام بلوچستان میں بے شمار لڑکیوں کے ناموں پہ رکھی جاتی ہے۔ شاہینہ نام کی ابتدائی تاریخ عربی زبان سے نکلتی ہے.شاہینہ نام کا مطلب چھوٹا عقاب باز عقاب شاہین ہے اور آج اس شاہین کو لوہے کی بنی گولیوں سے شہید کر دیا گیا۔
بلوچستان حکومت کی جانب سے لیویز فورس پولیس بلوچستان کا نسٹیبلری فورس مواصلات تعمیرات حیوانات صحت سمیت دیگر سرکاری محکموں میں بھرتیوں کے اشتہارات روازنہ کی بنیادوں پر آرہے ہیں بیروزگار نوجوان ایک مرتبہ سرگرم ہوچکے ہیں فوٹو اسٹیٹ فوٹو گرافرز اور کاغذوں تصدیق بلوچستان بورڈ یونیورسٹی کا روزگار بیروزگاروں کی وجہ سے چل پڑا ہے بیروزگار ادھار پر رقم لیکر بھی تعلیمی ڈگریوں کی تصدیق کے لیے کوئٹہ کا رخ کر رہے کوئی حکومت بلوچستان کے پالیسی میکروں سے پوچھے نوکری ملنے سے پہلے بیروزگاروں کو مقروض کیوں کر رہے۔
بلاشبہ نوجوان ملک و ملت، قوم و معاشرے کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ کھیلوں کے میدان ہو یا بین الاقوامی دنیا میں ملک کا نام روشن کرنا، غرض ہر وہ شعبے میں نوجوانوں کا ایک اہم کردار ہیں۔ سیاسی میدان میں سیاسی و مذہبی پارٹیوں میں موجود نوجوانوں کیلئے ایک الگ سا سٹوڈنٹ تنظیم رکھا گیا ہیں جس سے نوجوان سیاسی تربیت گاہ سمجھ کر سیاست کا آغاز کریں گے۔ خوش قسمتی کی بات تو یہ ہے کہ وطن عزیز کی آبادی کی تناسب سے 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہیں۔ لہذا جہاں اس ملک میں کوئی مثبت رول ادا کرنا نظر آئے گا تو ان میں نوجوانوں کا ایک اہم کردار ہوگا۔
ستمبر کا مہینہ آتے ہی 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا نقشہ ذہن میں آنے لگتا ہے جو معرکہ کفر و باطل کی صورت میں 6ستمبر1965ء کو اس وقت شروع ہوا جب بھارت نے اچانک رات کی تاریکی میں پاکستان کی سرحدوں پر اس خوش فہمی کا شکار ہو کر شب خون مارا کہ اس کی عددی برتری کے باعث پاکستان کے لئے جنگی دفاع مشکل ہو گا۔مگر یہ بھارت کی بہت بڑی بھول تھی۔پاکستانی افواج نے پاکستانی قوم کے اعتماد پر پورا اترتے ہوئے اپنے ملک کی سرحدوں کا بھر پور دفاع کیا اور بھارتی سور ماؤں کے منصوبے خاک میں ملا دئیے۔
پاکستان کے مسلح افواج کے زیرانتظام تحقیقی ادارہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) 1991میں اسلام آباد میں قائم ہوا۔ ضرورت کے تحت ابتدا میں اسے کمشنڈ افسران کے لیے پاک فوج کے انجینیئرنگ کالج اور اسکولوں کو ضم کرکے بنایا گیا۔ بعدازاں اسلام آباد میں اس کا مرکزی کیمپس قائم کرکے سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے اسے تحقیقی ادارے میں تبدیل کیا گیا۔ آج نسٹ سول اور ملٹری اشتراک کار کا مکمل شاہکار ہے۔ اس کے 19انسٹی ٹیوٹ ہیں جن میں پانچ ملٹری کالج بھی شامل ہیں۔ اسلام آباد، راولپنڈی، رسالپور، کراچی اور کوئٹہ میں اس کے پانچ کیمپس ہیں اور اس اعتبار سے حقیقی معنوں میں ایک قومی ادارہ ہے جو پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔
لکھنے کا بالکل دل نہیں تھا، میں نے تو آرام سے موبائل اور اپنے پسندیدہ ٹی وی شوز دیکھ رہی تھی کہ اچانک ایک آرٹیکل نظر سے گزر گیا……. خواجہ سرا سے متعلق تھا، ان کی کہانی تھی اور وہ تمام عوامل جو انہیں وہ بننے پر مجبور کرتے ہیں جو وہ نہیں بننا چاہتے…….کہاں سے شروع کروں اور کیا کہوں،…………… مجھے ہمیشہ بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اخلاقی لحاظ سے انتہائی گرے ہوئے لوگ ہیں اور یہی ہماری ناکامی کی وجہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔ بہترین ملک ہوتے ہوئے جو قدرت کے خزانوں سے مالامال ہے۔۔۔۔۔ اور بہترین امت ہوتے ہوئے بھی ہم آج کیوں رسوا ہیں کیونکہ ہم میں اخلاقیات نہیں ہے۔۔۔۔
بلوچستان میں بارشیں دیگر صوبوں کی نسبت مون سون کے موسم بلکہ پورے سال میں کم ہوتی ہیں جس کے باعث بلوچستان کا وسیع و عریض رقبہ بنجر اور غیر آباد ہے اور صوبے میں پانی کی کمی کا بحران ہمیشہ سے رہتا آ رہا ہے اور ساتھ ہی مون سون کے موسم میں بلوچستاں کے کم علاقے ہی آتے ہیں جبکہ باقی علاقوں میں بارشیں کم ہونے کے باعث زیر زمین پانی کی سطح بھی روز بروز گرتی جا رہی ہے بلوچستان کے سوائے نصیرآباد جعفرآباد صحبت پور اور جھل مگسی کے کچھ علاقوں کے باقی تمام تر علاقوں میں آبادی کا انحصار قدرت کے اس رحمت یعنی بارشوں پر ہے۔