بلاشبہ نوجوان ملک و ملت، قوم و معاشرے کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ کھیلوں کے میدان ہو یا بین الاقوامی دنیا میں ملک کا نام روشن کرنا، غرض ہر وہ شعبے میں نوجوانوں کا ایک اہم کردار ہیں۔ سیاسی میدان میں سیاسی و مذہبی پارٹیوں میں موجود نوجوانوں کیلئے ایک الگ سا سٹوڈنٹ تنظیم رکھا گیا ہیں جس سے نوجوان سیاسی تربیت گاہ سمجھ کر سیاست کا آغاز کریں گے۔ خوش قسمتی کی بات تو یہ ہے کہ وطن عزیز کی آبادی کی تناسب سے 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہیں۔ لہذا جہاں اس ملک میں کوئی مثبت رول ادا کرنا نظر آئے گا تو ان میں نوجوانوں کا ایک اہم کردار ہوگا۔
ستمبر کا مہینہ آتے ہی 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا نقشہ ذہن میں آنے لگتا ہے جو معرکہ کفر و باطل کی صورت میں 6ستمبر1965ء کو اس وقت شروع ہوا جب بھارت نے اچانک رات کی تاریکی میں پاکستان کی سرحدوں پر اس خوش فہمی کا شکار ہو کر شب خون مارا کہ اس کی عددی برتری کے باعث پاکستان کے لئے جنگی دفاع مشکل ہو گا۔مگر یہ بھارت کی بہت بڑی بھول تھی۔پاکستانی افواج نے پاکستانی قوم کے اعتماد پر پورا اترتے ہوئے اپنے ملک کی سرحدوں کا بھر پور دفاع کیا اور بھارتی سور ماؤں کے منصوبے خاک میں ملا دئیے۔
پاکستان کے مسلح افواج کے زیرانتظام تحقیقی ادارہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) 1991میں اسلام آباد میں قائم ہوا۔ ضرورت کے تحت ابتدا میں اسے کمشنڈ افسران کے لیے پاک فوج کے انجینیئرنگ کالج اور اسکولوں کو ضم کرکے بنایا گیا۔ بعدازاں اسلام آباد میں اس کا مرکزی کیمپس قائم کرکے سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے اسے تحقیقی ادارے میں تبدیل کیا گیا۔ آج نسٹ سول اور ملٹری اشتراک کار کا مکمل شاہکار ہے۔ اس کے 19انسٹی ٹیوٹ ہیں جن میں پانچ ملٹری کالج بھی شامل ہیں۔ اسلام آباد، راولپنڈی، رسالپور، کراچی اور کوئٹہ میں اس کے پانچ کیمپس ہیں اور اس اعتبار سے حقیقی معنوں میں ایک قومی ادارہ ہے جو پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔
لکھنے کا بالکل دل نہیں تھا، میں نے تو آرام سے موبائل اور اپنے پسندیدہ ٹی وی شوز دیکھ رہی تھی کہ اچانک ایک آرٹیکل نظر سے گزر گیا……. خواجہ سرا سے متعلق تھا، ان کی کہانی تھی اور وہ تمام عوامل جو انہیں وہ بننے پر مجبور کرتے ہیں جو وہ نہیں بننا چاہتے…….کہاں سے شروع کروں اور کیا کہوں،…………… مجھے ہمیشہ بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اخلاقی لحاظ سے انتہائی گرے ہوئے لوگ ہیں اور یہی ہماری ناکامی کی وجہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔ بہترین ملک ہوتے ہوئے جو قدرت کے خزانوں سے مالامال ہے۔۔۔۔۔ اور بہترین امت ہوتے ہوئے بھی ہم آج کیوں رسوا ہیں کیونکہ ہم میں اخلاقیات نہیں ہے۔۔۔۔
بلوچستان میں بارشیں دیگر صوبوں کی نسبت مون سون کے موسم بلکہ پورے سال میں کم ہوتی ہیں جس کے باعث بلوچستان کا وسیع و عریض رقبہ بنجر اور غیر آباد ہے اور صوبے میں پانی کی کمی کا بحران ہمیشہ سے رہتا آ رہا ہے اور ساتھ ہی مون سون کے موسم میں بلوچستاں کے کم علاقے ہی آتے ہیں جبکہ باقی علاقوں میں بارشیں کم ہونے کے باعث زیر زمین پانی کی سطح بھی روز بروز گرتی جا رہی ہے بلوچستان کے سوائے نصیرآباد جعفرآباد صحبت پور اور جھل مگسی کے کچھ علاقوں کے باقی تمام تر علاقوں میں آبادی کا انحصار قدرت کے اس رحمت یعنی بارشوں پر ہے۔
زندگی کی نمو میں تعلیم کا اہم کردار ہے مگر ہمارے ملک میں زندگی کی اس نمو کو قابوکرنے کیلیے ہمہ جہتی کوششیں اس امر کی غمازہیں کہ ہم اب بھی تعلیم کے معاملے میں سنجیدہ نہیں اور نہ ہی اسے غریب طبقات تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ ہماری تعلیمی منصوبہ بندی مکمل طور پر طبقاتی بنیاد وں پر استوار ہوچکی ہے حتیٰ کہ ہمارے ملک میں صوبوں کی طبقاتی تہیں پائی جاتی ہیں۔اگرکسی کویقین نہیں آرہا تو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے سامنے لگے احتجاجی کیمپ کو ہی دیکھ لیں جہاں بلوچستان کے طلبا آہ و بکا کرتے ہوئے آپ کو نظر آئیں گے، وہ آپ کو چیخ پکار کرتے ہوئے ملیں گے۔
میر حاصل خان بزنجو میرے بھائیوں کی طرح تھے، ان سے فیملی رشتہ کے بغیر انہوں نے زندگی جینے کا ڈھنگ سکھایا وہ مجھے ہرموڑ پر سمجھاتے، سیاست سکھاتے کہ عوام کے ساتھ اپنا تعلق کیسے بناناہے اپنا رویہ کیسے رکھنا ہے،ان کی سیاسی رہنمائی کی وجہ سے مختصر وقت میں مجھے بہت بڑی عزت ملی، میں ضلع کونسل کیچ کا چیئرمین بنا، وہ ہروقت تاکید کرتے کہ آپ اپنی پارٹی اور وہاں کے عوام کا خیال رکھیں، ان کے مسائل کوحلکریں جتنے بھی دستیاب وسائل ہوں ان سے ان کی مددکریں کیونکہ یہ موقع ہروقت نہیں ملتا۔
پاکستان میں سیاستدانوں کا بیماریوں میں مبتلا ہو کر بیرون ملک(سپیشلی لندن) جا کر علاج کروانا کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کئی سیاستدان واقعتاً بیمار ہوئے اور علاج کیلیے انہوں نے ترقی یافتہ ملک کے بڑے ہسپتالوں کا انتخاب کیا ہے۔ یہ فہرست صرف سیاسی جماعتوں کے قائدین تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس فہرست میں فوجی جنرلز، ججز، بیوروکریٹس، سیاستدان اور ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اس ڈرامے بازی میں ن لیگ کا کوئی ثانی نہیں احتساب اور جیل کے وقت بیمار ہو جانا۔
واقعہ کربلا حق اور باطل کے درمیان معرکہ تھا، یزید نے جب اپنی خلافت کا اعلان کیا تو کوفہ و دیگر علاقوں کے مسلمانوں نے امام عالی مقام حضرت امام حسین کو پیغام بھیجا کہ ہم یزید کی خلافت کے بجائے آپ کو خلیفہ اور امیر المومنین تسلیم کریں گے، آپ کوفہ آجائیں ہم آپ کی امارت اور خلیفہ ہونے کا آپ کی ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ اللہ کی طرف سے شہدا ء کربلا کی قربانیں ازل سے طے تھیں اوراس طرح کی مثالی قربانی سے ہی اسلام میں حق وباطل کو عیاں کرنا مقصود تھا اورساتھ ہی اہل کوفہ کی داستاں غداری کوعیاں کرنا کہ ایسے غداروں کوتاقیامت لعنت وملامت کیا جائے گا۔
ویسے بھی اگست کا مہینہ بلوچستان اور بلوچ قوم کے لیے کوئی ایسا سورج لے کر طلوع نہیں ہوا جس میں بلوچستان نا رویا ہو چاہے 11 اگست بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزں جو کی ہمیشہ جدائی کا دن یا 26 اگست کا وہ خون آشام دن ڈاڈئے بلوچستان نواب اکبر بگٹی کی شہادت کا دن یا 20 اگست میر جمہوریت میر حاصل خان بزنجو کی رحلت کا دن۔بلوچستان اپنی جغرافیائی وجود کی اہمیت کے ساتھ انسانی پیدوار میں کافی اہمیت کا حامل و مردم خیز خطہ رہا ہے یہاں میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل جیسے عظیم سیاسی مدبر سیاسی قائد اکبر خان بگٹی جیسے سر نا جھکانے والے۔