ملک میں معاشی بحران ہر دن گمبھیرہوتا جارہا ہے اور اس وقت موجودہ حکومت کو سب سے بڑا چیلنج اور مشکل کا سامنا صرف مہنگائی کے حوالے سے ہے، اول روز سے ہی معاشی معاملات کو درست سمت نہ دینے کی وجہ سے حکومت کی مشکلات بڑھتی گئیں اور اب بڑے بحران کی صورت میں سامنے ہیں جس سے ہر طبقہ بری طرح متاثر ہوکر رہ گیا ہے۔ مہنگائی کی جوشرح ریکارڈ کی جارہی ہے اس سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں، عام آدمی کی آمدن سے کئی گنا زیادہ مہنگائی ہوچکی ہے اب مڈل کلاس بھی سفید پوش بن کر رہ گیا ہے صرف دو کلاس اس وقت ملک میںرہ گئے ہیں ایک اپرجبکہ دوسرا نچلا طبقہ ہے ۔اس سے مہنگائی اور معاشی صورتحال کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے لوگوں کی زندگی مشکل میں پڑگئی ہے اور عوام کا شدید غصہ حکومتی ناقص معاشی منصوبہ بندی پر ہے۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے دور میں وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومت کے ساتھ ہر سطح پر نہ صرف تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی تھی بلکہ بڑے بڑے منصوبوں کی تکمیل اور آغاز کی بات کی گئی تھی جس میں سی پیک اور جنوبی بلوچستان خاص کر شامل ہیں۔ بہرحال سی پیک منصوبہ بہت دیرینہ ہے اس حوالے سے مختلف حکومتوں نے بلوچستان کی عوام سے بڑے وعدے وعید کئے مگر زمینی حقائق خود حکام ہی دیکھ لیں کہ اب تک سی پیک سے بلوچستان کو کتنا فائدہ پہنچا ہے اور کتنے بڑے منصوبوں سے عوام کو براہ راست روز گار ملا ہے۔ صنعتیں ،بجلی گھر کے منصوبوں سمیت شاہراہوں کی تکمیل کس حد تک ہوچکی ہے۔
ملک میں مہنگائی 21 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میںبتایا کہ ماہ اکتوبر میں مہنگائی کی شرح 9.2 فیصد تھی جب کہ گزشتہ سال نومبر میں مہنگائی کی شرح 8.3 فیصد تھی۔وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق شہروں میں مہنگائی کی شرح 12 فیصد اور دیہاتوں میں مہنگائی کی شرح 10.9 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے اعشاریے 18.1 فیصد تک پہنچ گئے ہیں جب کہ ہول سیل پرائس انڈیکٹر کی مہنگائی 27 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران گھی کی قیمت میں 58.29 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ خوردنی تیل کی قیمت 53.59 فیصد بڑھی ہے۔
بلوچستان کے مکران ڈویژن میں اس وقت عوام سب سے زیادہ سراپااحتجاج ہیں ،خاص کر ساحلی پٹی پر غیر قانونی ٹرالنگ اور سرحد پر ٹوکن سسٹم کے حوالے سے شدیداحتجاج کیاجارہا ہے، مکران کے لوگوں کا ذریعہ معاش سرحدی تجارت سے جڑا ہوا ہے پہلے اس کی بندش سے تاجرسمیت ہر طبقہ شدید متاثر تھا پھرٹوکن سسٹم نے مزید الجھائو پیدا کردیا جس پر تاجر، ڈرائیورز جو سرحد پر کاروبار کرتے ہیں عدم اطمینان کا اظہار کیا اور یہ بات سامنے آئی کہ منظور نظر افراد کو ٹوکن سسٹم سے نوازا جارہا ہے جبکہ بیشتر افراد شدیدمتاثر ہوکر رہ گئے ہیں۔بہرحال اب اس مسئلے کو وزیراعلیٰ بلوچستان نے حل کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے اور اس پر تاجر سمیت ہرطبقہ مطمئن دکھائی دے رہا ہے۔
کورونا کی نئی قسم نے دنیا کے بیشتر ممالک کو ایک بار پھر مشکل میں ڈال دیا ہے تیزی سے پھیلنے والا نئے وائرس کی وجہ سے بیشتر ممالک نے ابتدائی طور پر سفری پابندیاں عائد کرنا شروع کردی ہیں جبکہ عالمی سطح پر معاشی حوالے سے تیل پر بھی اس کے منفی اثرات پڑنے شروع ہوگئے ہیں ،خدانخواستہ اس نئی شکل نے اگر پنجے گاڑنا شروع کردیئے اور لوگوں کو متاثرکیا تو ایک بار پھر پوری دنیا کی معیشت متاثر ہوجائے گی اور لوگوں کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہوجائینگی خاص کر پاکستان ان دنوں شدید بحرانات کا سامنا کررہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ حکومت پیشگی اقدامات اٹھانا شروع کردے جو بھی ضروری احتیاطی تدابیر ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ابتدائی رابطے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے ابتدائی رابطے کا بنیادی مقصد انسانی بنیادوں پر واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارتی گندم اور ادویات کو افغانستان بھیجنا ہے۔بھارتی جریدے کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ذریعے انسانی امداد افغانستان بھیجنے کے لیے بھارت نے جو تجاویز اکتوبر میں دیے تھے ان کا پاکستان نے 24 نومبر کو جواب دیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارت انسانی بنیادوں پر واہگہ بارڈر کے ذریعے 50 ہزار ٹن گندم اور ادویات افغانستان بھیجنا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اسی حوالے سے گفت و شنید ہو رہی ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران ویڈیواور آڈیولیکس نے سیاسی ماحول کوخاصہ گرمایا ہواہے، ججز اور سیاستدانوں کی ویڈیو ز اورآڈیوز لیکس ہونے کے بعد ایک نئی سیاسی بحث جہاں چھڑ چکی ہے وہیں اداروں کے ماضی کے فیصلوں اور سیاسی جماعتوں کی حکمرانی پرسوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ یکے بعد دیگر حملے سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پر جاری ہیں پہلے کارکردگی اور کرپشن کے معاملات پر بیان بازی پریس، کانفرنسزدیکھنے کو ملتے تھے اب ہر نئے روز یہ انتظار رہتا ہے کہ کوئی نئی ویڈیویا آڈیوتو منظر عام پر نہیں آرہی اور اس میں کونسے راز سامنے آنے والے ہیں ۔بہرحال گزشتہ دنوں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے جڑی ایک مبینہ آڈیو سامنے آئی ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں لاپتہ دو طلباء کی بازیابی کے حوالے سے گزشتہ کئی روز سے احتجاجی دھرنا جاری ہے، طلباء تنظیموں کی جانب سے یہی مطالبہ کیاجارہا ہے کہ دونوں طلباء کی بازیابی تک ہم اپنااحتجاج جاری رکھیں گے جبکہ حکومت کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب ہمیں نہیں مل رہا اور ملاقاتیں بھی بانتیجہ ثابت نہیں ہورہی ہیں جب تک عملی طور پر اقدامات نہیں اٹھائے جائینگے اور ہمیں مطمئن نہیں کیاجائے گا ہم اپنا احتجاج نہ صرف بلوچستان یونیورسٹی بلکہ بلوچستان سمیت اسلام آباد تک مارچ کرکے پھیلائینگے۔
ملک میںایک اور بڑا مسئلہ غیر قانونی عمارتوں کی تعمیرات کاہے ۔ شاید ہی کوئی ایسا صوبہ ہو جہاں پر رقم دے کر بلندوبالاعمارتیں تعمیر نہ کی گئیں ہوں ۔افسوس کا عالم ہے کہ پورا ایک کرپٹ مافیا ہے جس کا جال ملک بھر میں پھیلا ہو اہے اور یہ کام میونسپل کارپوریشن کے آفیسران کی ناک کے نیچے ہوتا ہے, اس کے ساتھ ان کی سرپرستی سیاسی حوالے سے بھی کی جاتی ہے ۔ اگر ملک بھر میں رہائشی پلازوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے بیشتر غیرقانونی طور پر تعمیر کئے گئے ہیں جبکہ انہیں نقشے رقم کے عوض جاری کئے گئے ہیں مگر کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا مگر جب سے اعلیٰ عدلیہ نے کراچی میں غیرقانونی عمارتوں کے معاملے پر ہاتھ ڈالا ہے تو بلڈرمافیاز کے ہوش اڑگئے ہیں۔
ملک کے اندر بڑے بحرانات کا ملبہ ہر وقت عوام پر ہی گِرا ہے ستر سال سے زائد عرصے کے دوران عوام نے بہت سی مصیبتیں جھیلیں ہیں ، ملک کو جب بھی چیلنجز کا سامنا ہوا تو عوام اس میں پیش پیش رہی، شاید ہی کوئی ایسا موڑ ہو جہاں عوام ریاست کے ساتھ کھڑی دکھائی نہ دیتی ہو۔ آج بھی ملک شدید بحرانات کا شکار ہے تو عوام اس بحرانی کیفیت کو بھی برداشت کررہی ہے بڑے پیمانے پرلوگوں پر مالی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔