بلوچستان کابینہ کی تشکیل عید کے ممکن ہوگی جس میں چند روز رہ گئے ہیں۔ فی الحال فوری طور پر کابینہ کا اعلان متوقع نہیں ، اس سے قبل بھی اسی ادارتی تجزیے میںکابینہ تشکیل پر اتحادیوں کے درمیان اختلافات کو غلط قرار دیا گیا تھا اور یہ واضح طور پرکہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت، پیپلز پارٹی اتحادی جماعتوں سمیت عسکری قیادت کیلئے بلوچستان بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس لئے ایک مضبوط اور مستحکم حکومت بلوچستان کیلئے ناگزیر ہے جو خطے کی خوشحالی اور ترقی کیلئے بہت ضروری ہے۔
جامعہ بلوچستان گزشتہ کئی برسوں سے مالی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے تنخواہوں ،مراعات اور میرٹ کے تحت تقرری کے حوالے سے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے مگر گزشتہ حکومت نے اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کیلئے کوئی بھی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی اور نہ ہی اس معاملے کو حل کرنے کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی جو اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرتی۔ یہ المیہ ہے کہ ہمارے یہاں جز وقتی کمیٹی بنائی جاتی ہے جو چند بیٹھک کے بعد بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو جاتی ہے یا پھر غیر فعال ہو جاتی ہے نتیجہ احتجاج کی صورت میں نکلتا ہے حالانکہ بہت سے معاملات مشترکہ پالیسی اور حکمت عملی کے ذریعے حل ہو جاتے ہیں پھر ایک پالیسی کے تحت نظام چلنے لگتا ہے۔
ججز کو دھمکی آمیز خطوط کی موصولی انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے کون سے عناصر غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرتے ہوئے عدالتوں میں خوف کا ماحول پیدا کررہے ہیں اس کی تحقیقات لازمی ہونی چاہئے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ ہورہا ہے کہ اہم اداروں کے مناصب پر بیٹھی شخصیات کو دھمکی آمیز خطوط بھیجے جارہے ہیں جبکہ اس کے ساتھ anthrax کا بھی استعمال کیا جارہا ہے جو جسمانی طور پر نقصاندہ ہے ،یکدم سے اس طرح کا ٹرینڈ شروع ہونا سمجھ سے بالاتر ہے
عدالتی معاملات میں مبینہ مداخلت کے حوالے سے 6 ججز کے خط کا معاملہ اس وقت شہ سرخیو ں پر چھائی ہوئی ہے اور اس وقت میڈیا پر سب سے زیادہ زیر بحث موضوع یہی ہے۔
بلوچستان کو نیا وزیراعلیٰ تو مل گیا مگر نئی کابینہ کی تشکیل تاخیر کا شکار ہے ۔اب تک اتحادیوں کی جانب سے کوئی واضح بیانات بھی سامنے نہیں آئے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے جو کہ 2024ء میں بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی جبکہ ن لیگ اور باپ اس کے اتحادی ہیں۔
ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے ویسے بھی ماہ صیام اور عید المبارک کے دوران ہر چیز کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کیا جاتا ہے جس کی روک تھام کیلئے کوئی بھی منظم میکنزم موجود نہیں ہے۔ غریب عوام مافیاز کے رحم و کرم پر ہیں حکومتوں کی جانب سے محض نوٹس ہی لیا جاتا ہے پھر برہمی کا اظہار کرکے کارروائی کا عندیہ دیا جاتا ہے مگر اس کا اثر نہیں پڑتا۔
پاکستان ہمیشہ امریکہ سے بہترین تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد کی صورتحال کے بعد پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا اس جنگ کے دوران اور ابھی تک پاکستان جانی و مالی نقصان اٹھاتا آرہا ہے مگر اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان کو وہ مقام نہیں دیا جو بطور اتحادی اس کا حق بنتا ہے۔
ملک موجودہ حالات میں قرض کے بغیر نہیں چل سکتا اس کا سب کو بخوبی علم ہے اور یہ پہلی بار نہیں کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے قرض لے رہی ہے بلکہ یہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
بلوچستان اور سندھ میں زرداری کی حکومت قائم ہونے کے باوجود بھی بلوچستان کے شہری سندھ میں کراچی پولیس کی بدمعاشی کا شکار ہیں۔ دونوں صوبوں میں “سکہ زرداری رائج الوقت” ہونے کے باوجود بھی بلوچستان سے کراچی آنے والے لوگوں کے ساتھ پولیس گردی عروج پر ہے۔ چیکنگ کے بہانے لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرنا معمول بن گیاہے۔ لوگوں سے لوٹ مار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ انہیں مختلف الزامات کے مقدمات میں پھنسا کرحوالات میں بند کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔
بلوچستان میں طوفانی بارشیں عوام کیلئے عذاب کا باعث بن جاتی ہیں۔ بارشوں کی وجہ سے اموات ہوتی ہیں، شاہراہیں تباہ ہو جاتی ہیں، پل سیلابی ریلوں میں بہہ جاتی ہیں، کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں زمینداروں کو بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑتا ہے، مہینوں تک نکاسی آب کا عمل پورا نہیں ہوتا ،پورا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے۔