ملک کے اندر سیاسی بحران وقتی طورپر موخر ہوگیا ہے تحریک انصاف نے اپنا احتجاج ملتوی کردیا خصوصاً سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد کہ عدالت عالیہ خود کمیشن بنائے گی جو خودمختار ہوگی اور اس کے فیصلے کو سپریم کورٹ کا فیصلہ سمجھا جائے گا اور سب پر لازم ہوگا کہ وہ اس فیصلے کو تسلیم کریں۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے تمام فریقوں سے یہ پوچھا تھا کہ وہ اس فیصلے کو تسلیم کریں گے تو سب نے حامی بھری۔
حکومتی حلقوں نے روزنامہ’’ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس‘‘ میں جعلی ادویات کی عام فروخت کے خلاف خبریں چھپنے کے بعد ایک آدھ دن مہم چلائی اور درجنوں میڈیکل اسٹورز کو سیل کردیا جہاں سے جعلی ادویات یا زائد المیعاد ادویات برآمد ہوئی تھیں ۔ چند دن کے بعد اس مہم کی رفتار جان بوجھ کر سست کردی گئی یا حکومتی اہلکاروں پر ڈرگ مافیا حاوی ہوگیا ابھی تک یہ معلوم نہ ہو سکا ۔
وفاقی حکومت نے ایک کمیشن بنایا تھا جس کی سربراہی سرتاج عزیز نے کی تھی اس میں دیگر حضرات کے علاوہ وفاقی وزیر جنرل( ر) عبدالقادر بلوچ بھی تھے ، کمیشن نے دیگر باتوں کے علاوہ حکومت سے یہ جائز سفارش کی تھی کہ فاٹا کو صوبہ پختونخواء میں شامل کیا جائے ۔ اس فیصلے کی ملک بھرمیں جمہوریت پسند لوگوں اور اداروں نے تعریف کی تھی
گوادر مستقبل کا عظیم الشان بندر گاہ بن رہا ہے ۔ غالباً یہ خطے کی سب سے بڑی بندر گاہ ہوگی جس سے پورے خطے کو فائدہ حاصل ہوگا۔ پاکستانی حکمرانوں اور پالیسی سازوں کے پاس وہ وژن نہیں ہے جو وہ مستقبل کے گوادر کو ابھی سے دیکھ سکیں ۔ گوادر اتنی بڑی بندر گاہ ہوگی جو موجود ہ چاہ بہار کی بندر گاہ کو ایک ذیلی پورٹ کے طورپر استعمال کرے گی ۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ اگر حکومت اس کا انتظام بلوچستان کی حکومت کے حوالے کرے اور بین الاقوامی تجارت پر ناروا پابندیاں عائد نہ کرتا جائے تو گوادر دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا اور پورے خطے کی قسمت بدلنے میں اہم ترین کردار ادا کرے گا ۔
پاکستان ایک وفاق ہے اور وفاقی اکائیوں نے رضا کارانہ طورپر اس کو تشکیل دیا تھا اس لیے وفاق سے زیادہ وفاقی اکائیوں کو زیادہ آئینی اور قانونی اہمیت حاصل ہے ۔پاکستان کے رہنماؤں کی اپیل کے بعد ہی بنگال ، بلوچستان ، سندھ، پنجاب اور کے پی کے نے پاکستان میں رضا کارانہ طورپر شمولیت کا اعلان کیا تھا ۔ ان پر کوئی زور یا زبردستی نہیں تھی البتہ برطانوی آقاؤں کی بھی یہی مرضی تھی کہ پاکستان بنے اور یہ علاقے اس میں شامل ہوں ۔ اس لیے پاکستان انہی اکائیوں کے اتحاد کا نام ہے ۔
توقع کے مطابق حکومت نے طاقت کا بھر پور استعمال کیا اور دو دنوں تک پولیس اور سیاسی مخالفین کے درمیان اسلام آباد اور راولپنڈی میں جھڑپیں ہوئیں ۔ پی ٹی آئی کے یوتھ کنونشن پر پولیس اور ایف سی نے دھاوا بول دیا اورکنونشن نہیں ہونے دیا ۔ اس سے قبل احاطے کو سیل کردیااور مالکان کو سختی سے ہدایت کی گئی کہ وہ یوتھ کنونشن نہ ہونے دیں بلکہ پورے علاقے کو سیل کردیا گیا تھا۔
جب روسی افواج افغانستان پر قابض ہوگئیں تو روسی افواج کی مزاحمت کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مذہب اسلام کو لا دینیت کے خلاف استعمال کیاجائے ۔پاکستانی حکمرانوں نے آناًفاناً پورے ایک ہزار ’ مدارس مہینوں میں قائم کردئیے خصوصاً غیبی ادارے سے جو سعودی عرب اور امریکا کے مخیر حضرات نے اسلام کی خدمت کے لئے دئیے ۔
آخری اطلاعات آنے تک پولیس ٹریننگ کالج کے اندوہناک واقعہ میں 62افراد ہلاک اور 120سے زائد زخمی ہوئے ۔ بیس کے قریب ایسے زخمی ہیں جن کی حالت خراب ہے اور وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ہیں جہاں 24گھنٹے ان کی تیمارداری ہورہی ہے یہ تمام زیر تربیت اہلکار غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور دوردراز علاقوں کے رہائشی ہیں جہاں پر ریاست پاکستان نے ان کو کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کی ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایک سابق وفاقی وزیر اور پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل یہ کہتے سنے گئے کہ بلوچستان لیویز پر سرداروں کی حکمرانی ہے ۔ انکا موقف یہ تھا کہ بلوچستان میں موجودہ بحران کی وجہ یہ ہے کہ سابق وزیراعلی نواب اسلم رئیسانی نے بلوچستان لیویز کو دوبارہ بحال کر لیا ورنہ بلوچستان پولیس پورے صوبے کو قابو میں کر لیتی اور یہ مسائل نہ ہوتے۔
دو ماہ بعد کوئٹہ میں ایک بار خون کی ہولی کھیلی گئی ۔اس بار 61پولیس کیڈٹس جاں بحق اور 122 زخمی ہوئے جن میں بارہ افرا د کی حالت زیادہ خراب بتائی جا تی ہے ۔