عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کو گزشتہ دنوں راولپنڈی موٹروے سے پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ شیخ رشید نے سابق صدر آصف علی زرداری پرایک دہشت گردتنظیم کو رقم دینے اورعمران خان کو قتل کرنے کے متعلق بیان دیا تھا۔پولیس کے پاس موجود پرچے پر شیخ رشید اپنے بیان سے مُکر گئے اور اپنے جاری کردہ ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ میرابیان نہیں، میں اپنے کہی بات پر قائم ہوں کہ عمران خان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
ملک میں پیٹرولیم مصنوعات اور ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافے کے بعدمہنگائی کا جِن مزید بے قابوہونے جارہاہے، اب اشیاء خوردونوش عام لوگوں کی قوت خرید سے بہت دورہو جائیں گی ،لوگ روز مرہ کی اشیاء بھی خریدنہیں سکیں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر کس نے کہاں کوتائی برتی، یہ بات اپنی جگہ مگر موجودہ وزیرخزانہ بار با ریہ بتارہے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کو پورا کرینگے اور عوام کو ریلیف بھی دینگے۔
بلوچستان میں شاہراہوں کا دورویہ نہ ہونے کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے آرہے ہیں ،اب تک ہزاروں افراد کوئٹہ کراچی سمیت دیگر قومی شاہراہوں پر مختلف حادثات میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ بلوچستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ کراچی تا کوئٹہ قومی شاہراہ کو دورویہ ہونا چاہئے کیونکہ اس روٹ پر آمد ورفت بہت زیادہ ہوتی ہے اور سب سے زیادہ حادثات بھی اسی شاہراہ پر رونما ہوچکی ہیں۔ گزشتہ دنوں بیلہ میں ایک مسافر کوچ کھائی میں گرگئی جس کے نتیجے میں 42افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ،ابتدائی رپورٹ کے مطابق مسافر کوچ کی حالت بہتر نہیں تھی جبکہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے والاڈرائیور بھی اناڑی تھا یعنی حادثے کی دو وجوہات سامنے آئی ہیں جبکہ کوچ مالکان تنظیم کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیاگیا ہے کہ بارش کے باعث پھسلن کی وجہ سے حادثہ ہوا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے سیکیورٹی اداروں نے پہلے سے ہی الرٹ جاری کررکھا ہے خاص کر خیبرپختونخواہ میں گزشتہ کئی ماہ سے دہشت گردی کے خطرات منڈلارہے ہیں،۔سیاسی قائدین کو کالعدم تنظیموں کی جانب سے دھمکیاں بھی ملی ہیں بہرحال دہشت گردی کامعاملہ بڑا سنگین ہے جس سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے۔
گوادر میں دھرنے پر تشدد کے بعد دفعہ 144نافذ کردیا گیا ہے۔ بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پکڑدھکڑ ،گرفتاریاں، تشدد، پابندیاں مسئلے کا حل ہیں اور یہ دیرپا ثابت ہوسکتاہے؟ یقینا نہیں کیونکہ بلوچستان میںجب بھی کسی مسئلے کے حل کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا تو اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
ملک میں اس وقت غذائی اجناس سمیت دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں مگر ساتھ ہی بحران اور قلت کا مسئلہ بھی درپیش ہے خاص کر گندم تو بالکل ہی ناپیدہوکر رہ گیا تھا مگر اب حالات معمول پر آنا شروع ہوگئے ہیں ۔چند دن قبل آٹے کی قیمت بڑھنے پر نان بائیوں نے روٹی کی وزن کم کردی اور قیمتیں بھی بڑھادیں جس کاکوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ ملک بھر میں ویسے بھی پرائس کنٹرول کمیٹیاں مکمل غیرفعال ہیں اسی طرح جیسے سابقہ دور میں مہنگائی کا طوفان آیا تھا تو پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو متحرک کرنے کی بجائے ٹائیگرز فورس بنائی گئی۔
ملک کے دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انکشافات سامنے آنے لگی ہیں، ق لیگ بالکل ہی تیار نہیں تھی کہ پنجاب اسمبلی کو تحلیل کیاجائے جبکہ پی ٹی آئی کے بعض ارکان بھی اس فیصلے سے خوش نہیں تھے مگر عمران خان کی ضد کی بھینٹ دونوں اسمبلیاں چڑھ گئیں، عمران خان اپنے آگے کسی بھی کو دیکھنا نہیں چاہتے تو ان کی رائے کو کیسے اہمیت دینگے۔ بہرحال گزشتہ روز سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے فواد چوہدری کی گرفتاری پر افسوس کی بجائے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے پہلے کیوں گرفتار نہیں کیا گیا اگر پہلے یہ کام ہوجاتا تو پنجاب اسمبلی تحلیل نہ ہوتی۔ ایک تو پرویز الہٰی نے عوامی اجتماع کے دوران اس بات کا برملا اظہار کیا ۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت ڈیڈلاک کا شکار کیوں ہے، ملک مسائل سے دوچار ہے ، سیاسی عدم استحکام اورمعاشی بحران کے باوجود بھی بات چیت نہیں کی جارہی،پی ٹی آئی تو جب سے حکومت میں آئی ہے اس دن سے وہ خاص کر مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔عمران خان جب وزیراعظم تھے تب بھی وہ یہی بات دہراتے تھے کہ چور اور ڈاکوؤں کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے کا مقصد این آراوٹو دینا ہے۔
ملک میں سیاسی کشیدگی بدستور جاری ہے، حکومت اوراپوزیشن کے درمیان نگراں حکومت اور دیگر معاملات پر بات بنتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی پر عمران خان نے الزامات کی بھرمار شروع کردی ہے،سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جب لائی جارہی تھی تو اس دوران سب نے دیکھا کہ عمران خان نے کس طرح اسے ایک بیرونی سازش قرار دیا۔
ملک کے حقیقی مسائل سے آنکھیں چراکر کوئی بھی جماعت اپنے پنجے عوام میں نہیں گاڑسکتی۔یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ موجودہ حالات میں عوام، تاجر کوئی بھی مطمئن نہیں۔ اس وقت مختلف افواہیں بازگشت کررہی ہیں کہ ملک میں غذائی اجناس سمیت دیگر ضروریات کی چیزوں کا بحران سراٹھانے والا ہے۔