ملک میں سیاسی کشیدگی بدستور برقرار ہے باوجود اس کے کہ پاکستان میں تاریخ کا بدترین بحران، بارشوں او رسیلاب کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں جس کی بحالی میں سالوں لگ سکتے ہیں جبکہ ساتھ ہی بڑے پیمانے پر رقم درکار ہوگی۔ یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے کہ کس طرح سے ملک کو دوبارہ ڈگرپرلایا جائے۔اس کے لیے حکومت سرجوڑ کر بیٹھی ہے اور اس حوالے سے کوششیں بھی جاری ہیں مگر دوسری جانب اپوزیشن اور حکومت کے درمیان سیز فائر کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ اپوزیشن تو بالکل ہی بات کرنے کو تیار نہیںہے بلکہ سنگین نوعیت کی دھمکیاں دی جارہی ہیں عدلیہ، عسکری قیادت سمیت ہر کسی کو عمران خان نے اپنے نشانہ پر رکھا ہوا ہے اس طرح کا ماحول پیدا کیاجارہا ہے کہ خدانخواستہ ملک میں انارکی کی صورتحال پیدا ہوجائے حالانکہ مشکل کی اس گھڑی میں پوری دنیا کی توجہ پاکستان پر مرکوز ہے کہ اس بڑی تباہی سے پاکستان کو نکالنے کے لیے ہر قسم کا تعاون کیاجائے، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے بھی تمام ممالک سے پاکستان کی مکمل مدد اور تعاون کی اپیل کی ہے مگر عمران خان ایک ہی رٹ لگاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ انتخابات جلد کرائے جائیںوہ بھی ایسے حالات میں جہاں ملک بری طرح سیلاب سے تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔
بلوچستان سرمایہ کاری کے حوالے سے ملک کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ موزوں ہے بین الاقوامی سرحدیں، طویل ساحلی پٹی اور اپنی منفرد جغرافیائی حیثیت کے حوالے سے معاشی لحاظ سے الگ پہچان رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے بلوچستان پر اس طرح توجہ نہیں دی گئی جس طرح سے دینی چاہئے تھی اربوں روپے دیگر صوبوں میں منصوبوں پر لگائے جاتے ہیں ان کی تکمیل بھی جلد ہوجاتی ہے جبکہ بلوچستان کے حوالے سے ایسی کوئی پالیسی دکھائی نہیں دیتی کہ اس کے لیے الگ سا ایک بڑا پیکج دیاجائے اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بین الاقوامی سرحدوں،ساحلی پٹی، معدنیات سمیت دیگر شعبوں کے لیے رقم خصوصی طور پر رکھی جائے تاکہ بلوچستان کی پسماندگی نہ صرف ختم ہو جائے بلکہ خودکفیل بلوچستان ابھر کر سامنے آئے ۔گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ بات سنتے آرہے ہیں کہ ملکی ترقی کی کنجی بلوچستان ہے مگر المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کے نصف سے زائد علاقے آج بھی تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ،خالی خولی اعلانات سے آگے بڑھ کر کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایاگیا۔
پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے ہونے والے نقصانات پر عالمی برادری کی جانب سے بھرپور مثبت جواب ملا ہے۔دوست ممالک سمیت عالمی برادری کی جانب سے مالی معاونت کے ساتھ امدادی سامان بھی بھیجا جارہاہے مزید رقم سمیت قرضوں کی معافی کے حوالے سے بھی اقوام متحدہ سمیت دیگر دوست ممالک نے بات کی ہے ۔اس سے پاکستان کی معیشت پر بہت زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا امید ہے کہ اس حوالے سے آئی ایم ایف سمیت دیگر ادارے پاکستان کے ساتھ تعاون کرینگے ۔سب سے اہم بات اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے ذاتی دلچسپی ہے جو پاکستان کے دورہ پر ہیں انہوں نے کھل کر پاکستان کے حالیہ مشکلات پر دنیا بھر کو اس پر کام کرنے کے حوالے سے اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھانے میں پاکستان کا قصور نہیں لیکن پاکستان اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، دنیا آگے آئے اور پاکستان کی مدد کرے۔انہوں نے کہاکہ گلوبل وارمنگ کا ذمے دارپاکستان نہیں لیکن دوسروں کی غلطی کی سزاپاکستان بُھگت رہا ہے، تباہی کے ذمے دارملکوں کی ذمے داری ہے کہ پاکستان میں بحالی کا کام کریں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے ایک بار پھر عالمی برادری کے نام پیغام میں کہا کہ میں ذمے دارملکوں سے عملی طور پر پاکستان کی مدد کرنے کا کہہ رہاہوں، اقوام متحدہ پاکستان کی آواز کے ساتھ آواز ملائے گا۔
وزارت خزانہ نے سیلاب سے متاثرہ معیشت کے نقصانات پر مبنی رپورٹ وزیر اعظم آفس کو ارسال کر دی۔رپورٹ کے مطابق سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے باعث ابتدائی تخمینے پر مبنی رپورٹ تیار کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے زراعت اور انفرا اسٹرکچر سمیت دیگر نقصانات شامل ہیں۔سیلاب سے کمزور ملکی معیشت کو 12 ارب ڈالر کا ناقابل تلافی نقصان ہوا جس کے پیش نظر معاشی شرح نمو 5 فیصد سے کم ہو کر 3.3 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ وزیر اعظم آفس کو ارسال رپورٹ میں معاشی شرح نمو میں کمی کے باعث روزگار فراہم کرنے کی شرح میں 1.2 فیصد تک کمی کاخدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
ملک میں بارشوں اور سیلابی صورتحال کے اثرات بری طرح لوگوں کو متاثرکررہے ہیں اس وقت بھی حالات بہتر نہیں ہیں ، بلوچستان اور سندھ میں پریشانیاں مزید بڑھ رہی ہیں ۔سندھ میں بند ٹوٹنے کی وجہ سے سیلابی ریلوں کا پانی دیہات اور شہروں میں داخل ہورہا ہے بڑے پیمانے پر گوٹھ تباہ ہوگئے ہیں جانی نقصانات ہوئے ہیں، مکانات نہیں رہے، مال مویشی سب ختم ہوگئے، عام آدمی سے لیکر زمیندار طبقہ بھی سڑک پر آگیا ہے ۔اس سیلاب نے بہت بڑی تباہی مچائی ہے ملکی تاریخ کا بڑا بحران اس وقت جنم لے چکا ہے کروڑوں لوگوں کے نقصانات ہوچکے ہیں انفراسٹرکچر بھی تباہ ہوچکا ہے۔ ملک بڑے چیلنجز سے دوچار ہے بڑے پیمانے پر رقم درکار ہے دوبارہ معمولات زندگی کو بحال کرنے کے لیے اور اس کیلئے قرض معاف کرنے کی ضرورت کے ساتھ مزید دوست ممالک ، عالمی برادری سمیت عالمی تنظیموں سے مالی امداد درکار ہوگی جس کے لیے کوششیں کرنی ہونگی وگرنہ صورتحال بہت زیادہ خراب ہوجائے گی ۔سیلاب کی تباہ کاری کے اثرات مختلف حوالے سے لوگوں کو متاثر کررہے ہیں۔
مون سون کی غیر معمولی اور طویل بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب کی وجہ سے پاکستان کے چاروں صوبوں میں کروڑوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق سیلاب سے متاثرہ 110 اضلاع میں گزشتہ ڈھائی ماہ کے عرصہ میں گیارہ سو سے زیادہ افراد کی اموات ہو چکی ہیں جبکہ ساڑھے تین کروڑ سے زائدافراد کے بے گھر ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ساڑھے نو لاکھ مکانات اور عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں آٹھ لاکھ سے زیادہ مویشی مر گئے ہیں۔ اس حوالے سے صوبہ سندھ کی صورتحال سب سے زیادہ گھمبیر ہے جہاں 16اضلاع کی50 لاکھ سے زیادہ آبادی سیلاب کے باعث بے گھر یا متاثر ہوئی ہے۔ بلوچستان کے 34اضلاع کے چار لاکھ سے زائد افراد متاثرین میں شامل ہیں جبکہ صوبہ پنجاب کے آٹھ اضلاع میں ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ شہری بارشوں اورسیلاب کے باعث بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسی طرح صوبہ خیبرپختونخوا کے 33اضلاع میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد کا تخمینہ 50ہزار سے زیادہ کا لگایا گیاہے۔
ملک میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے وبائی امراض پھیلنے لگے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں بڑی تعداد میں بچے، خواتین ، بزرگ سب ہی متاثر ہورہے ہیں ۔ بلوچستان میں بعض علاقوں میں ڈائریا، گیسٹرو، ملیریا سمیت دیگر بیماریاں رپورٹ ہورہی ہیں ۔محکمہ صحت بلوچستان کی جانب سے بتایاگیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں طبی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے تمام تر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جبکہ بی ایم سی میں سب سے زیادہ متاثرین آرہے ہیں جن کو علاج معالجے سمیت ٹیسٹ کے حوالے سے بھی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کے تدارک کے متعلق ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ابرآلود پانی جو کہ انسانی صحت کے لیے زہر بن چکا ہے سیلابی پانی کاپینے کے پانی میں ملاوٹ ہوچکا ہے اس کی وجہ سے وبائی امراض پھیلتے جار ہے ہیں واٹرفلٹرپلانٹ تو نہیں لگ سکتا مگر اسپرے کم ازکم کیاجاسکتا ہے اس لیے تمام ضلعی انتظامیہ کو اس کا پابندبنایاجائے کہ فوری طور پر اسپرے کے عمل کو شروع کیاجائے اورزہرآلود پانی سے بچاؤ کے لیے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے تاکہ وبائی امراض سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو نقصان نہ پہنچے۔ پہلے سے ہی سیلاب متاثرین مصیبت میں گِرے ہوئے ہیں وبائی امراض ان کی مشکلات بڑھارہی ہیں لہٰذا حکومت اس پر سنجیدگی سے توجہ دے تاکہ قیمتی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے ۔دوسری جانب جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرین وبائی بیماریوں کا شکار ہو گئے۔جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرین مختلف بیماریوں کی لپیٹ میں آگئے۔
بلوچستان میں حالیہ بارشوں سے بننے والے سیلاب نے بہت بڑے پیمانے پر نقصانات پہنچائے ہیں جانی ومالی حوالے سے بہت زیادہ نقصانات ہوئے ہیں جس کا تخمینہ فی الوقت نہیں لگایا جاسکتا مگر اس تباہی نے پورے بلوچستان کو جام کرکے رکھ دیا ہے ہر طبقہ اس سے متاثر ہوا ہے شہر قصبے، بستیاں، دیہات کوئی بھی اس آفت سے محفوظ نہیں رہا ہے اب تک لوگ اس مصیبت میں گِرے ہوئے ہیں ، پیاروں سے محروم ہوگئے ہیں، سروں سے چھت چھن چکی ہے، کاروبار تباہ ہوگیا ہے نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں سیلاب کے اثرات اب بھی موجود ہیں۔ گیس اور بجلی کا مسئلہ بھی زیادہ شدت اختیار کرگیا ہے، شاہراہیں متاثر ہونے سے متاثرین کی بحالی کے کاموں میں مشکلات کے ساتھ زمینداروںکو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اس بڑے بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے بڑے پیمانے پر جنگی بنیادوں پراقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم میاں شہباز شریف نے یونیسیف اور دیگر عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ بچوں کی جانیں بچانے لیے امداد دیں۔
ملک میں سیلاب کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے جس سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔ عالمی برادری کی جانب سے بھی حالیہ بارشوں اورسیلاب کی تباہ کاریوں پر افسوس سمیت امداد دی جارہی ہے مگر افسوس ہمارے یہاں سیاست کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔اپوزیشن کی جانب سے دھڑادھڑ جلسے جلوس کئے جارہے ہیںجہاں اپوزیشن کی حکومت ہے وہاں ریلیف پر زیادہ توجہ دینے کی بجائے جلسے کرکے اگلی باری کی بات کی جارہی ہے، آخری میچ کا ذکر کیاجارہا ہے کبھی عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ چار نام میرے پاس ہیں اگر کچھ ہوا تو انہیں سامنے لاؤنگا، مجھے دیوار سے لگایا جارہا ہے، مقدمے بنائے جارہے ہیں میں زیادہ خطرناک ہوتا جارہاہوں ۔بہرحال اگر عمران خان کی جان کو خطرہ ہے چار نام ہیں تو متعلقہ اداروں کو آگاہ کردیں مگر بیرونی مبینہ خط کی طرح یہ نام بھی ہوا میں تیر چلانے جیسے لگ رہے ہیں۔ اگر واقعی معاملہ سنجیدہ ہے تو کیونکر ناموں کو خفیہ رکھ کر ایک انتشار کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔ خدارا سیاست سے اس وقت توگریز کیاجائے اور حکومت بھی مقدمات پر زیادہ زور دینے کی بجائے سیلاب متاثرین کی امداد اور ان کی بحالی پر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرے، نہیں تو مسائل مزید بڑھیں گے ۔تاریخ میں پہلی بار ایسا دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ملک میں انسانی بحران پیدا ہو ا ہے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے لوگوں کا سب کچھ تباہ ہوکر رہ گیا ہے مگر سیاستدان یکجاہوکر کام کرنے کو تیار نہیں ،تاریخ میں یہ بات لکھی جائے گی کیونکہ جب اس طرح کے حالات بنتے ہیں تو ریکارڈ کا حصہ بنتے ہیں جس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ دوسری جانب چیئرمین این ایف آر سی سی احسن اقبال نے کہا ہے کہ جنوبی علاقوں میں 30 سال کی اوسط میں 500 گنا سے زیادہ بارشیں ہوئیں اور کچھ علاقوں میں بارش 1500 ملی میٹر ہوئی جس کی وجہ سے سیلاب نے تباہی مچا دی۔چیئرمین این ایف آر سی سی احسن اقبال نے سیلاب سے متعلق پریس بریفنگ میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ملک میں سیلاب کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے جس سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔ عالمی برادری کی جانب سے بھی حالیہ بارشوں اورسیلاب کی تباہ کاریوں پر افسوس سمیت امداد دی جارہی ہے مگر افسوس ہمارے یہاں سیاست کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔اپوزیشن کی جانب سے دھڑادھڑ جلسے جلوس کئے جارہے ہیںجہاں اپوزیشن کی حکومت ہے وہاں ریلیف پر زیادہ توجہ دینے کی بجائے جلسے کرکے اگلی باری کی بات کی جارہی ہے، آخری میچ کا ذکر کیاجارہا ہے کبھی عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ چار نام میرے پاس ہیں اگر کچھ ہوا تو انہیں سامنے لاؤنگا، مجھے دیوار سے لگایا جارہا ہے، مقدمے بنائے جارہے ہیں میں زیادہ خطرناک ہوتا جارہاہوں ۔بہرحال اگر عمران خان کی جان کو خطرہ ہے چار نام ہیں تو متعلقہ اداروں کو آگاہ کردیں مگر بیرونی مبینہ خط کی طرح یہ نام بھی ہوا میں تیر چلانے جیسے لگ رہے ہیں۔ اگر واقعی معاملہ سنجیدہ ہے تو کیونکر ناموں کو خفیہ رکھ کر ایک انتشار کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔ خدارا سیاست سے اس وقت توگریز کیاجائے اور حکومت بھی مقدمات پر زیادہ زور دینے کی بجائے سیلاب متاثرین کی امداد اور ان کی بحالی پر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرے، نہیں تو مسائل مزید بڑھیں گے ۔تاریخ میں پہلی بار ایسا دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ملک میں انسانی بحران پیدا ہو ا ہے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے لوگوں کا سب کچھ تباہ ہوکر رہ گیا ہے مگر سیاستدان یکجاہوکر کام کرنے کو تیار نہیں ،تاریخ میں یہ بات لکھی جائے گی کیونکہ جب اس طرح کے حالات بنتے ہیں تو ریکارڈ کا حصہ بنتے ہیں جس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ دوسری جانب چیئرمین این ایف آر سی سی احسن اقبال نے کہا ہے کہ جنوبی علاقوں میں 30 سال کی اوسط میں 500 گنا سے زیادہ بارشیں ہوئیں اور کچھ علاقوں میں بارش 1500 ملی میٹر ہوئی جس کی وجہ سے سیلاب نے تباہی مچا دی۔چیئرمین این ایف آر سی سی احسن اقبال نے سیلاب سے متعلق پریس بریفنگ میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے چیلنجز کا سامنا ہے۔