ملکی معیشت کیلئے، بیرونی سرمایہ کاری انتہائی ضروری

| وقتِ اشاعت :  


شنگھائی تعاون سربراہی اجلاس خطے کے حوالے سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جس میں خطے کے ممالک آپسی روابط، اقتصادی، دفاعی، سفارتی صورتحال پر ایک دوسرے سے تبادلہ خیال اور مستقبل کے حوالے سے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے حکمت عملی مرتب کرتے ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اسے مستقل بنیادوں پر آگے نہیں بڑھایاجاتا صرف خبر وںکی حدتک یہ معاملات طے پاتے ہیں جن کا فالواپ کچھ نہیں ہوتا۔ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ خطے کے تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی ضرورت ہے چونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے معیشت کی ابتر صورتحال نے ملک میں بہت بڑے بحرانات پیدا کئے ہیںہرسیکٹر تباہ ہوکر رہ گئی ہے سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے جس سے توانائی بحران ہمارے سامنے ہے ، گیس ،بجلی کی قلت کے باعث پوری معیشت بیٹھ گئی ہے جبکہ عام شہری بھی مسائل کا سامنا ہرروز کررہے ہیں ۔دوسرے شعبوں کا بھی یہی حال ہے اگر سنجیدگی کے ساتھ معاملات کو طے کرکے انہیں حتمی شکل دی جائے تو بہت سارے مسائل سے پاکستان نکل سکتا ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن آج تک خبروں کی حد تک ہے، سستی بجلی کا معاملہ بھی آگے نہیں بڑھااگر سیاسی حوالے سے حکمران ملکی مفاد میں اہم فیصلے بغیر کسی دباؤ کے کریں تو اس کے بہت اچھے نتائج معاشی حوالے سے نکل سکتے ہیں ،قرضوں پر انحصار نہیں رہے گا ۔اب بھی حکمران یہی کہہ رہے ہیں کہ کوشش ہے کہ یہ آئی ایم ایف کے ساتھ آخری ڈیل ہو جس کے بعد ہمیں ان کی طرف جانا نہ پڑے مگر ایسی صورتحال فی الحال دکھائی نہیں دے رہی ہے کہ مستقبل میں قرض نہیں لئے جائیں گے ۔پی ٹی آئی نے بھی یہی دعویٰ کیا تھا مگر انہیں بھی آئی ایم ایف سمیت دوست ممالک سے قرض لینا پڑا،اگر قرض کی بجائے تجارت پر زور دیا جاتا تو نتائج کچھ اور نکلتے ۔



بارشوں اورسیلاب کے بعد وبائی امراض کاپھیلاؤ، ادویات ناپید

| وقتِ اشاعت :  


ملک بھر میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں۔ بلوچستان میں گیسٹرو، جلدسمیت دیگر بیماریوں کی وجہ سے لوگ متاثر ہورہے ہیں خاص کر سیلاب متاثرین کی بڑی تعداد اس کا شکار ہورہی ہے۔ یہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے ایک طرف تباہی تو دوسری جانب وبائی امراض کی صورت میں انسانی بحران پیدا ہورہا ہے جس سے پیشگی صوبائی، وفاقی حکومت سمیت عالمی ادارہ صحت نے بھی خبردار کیا تھا جو اب واضح طور پر سامنے آرہا ہے جس کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔اسپرے مہم میں تیزی لانا ضروری ہے جو رپورٹس سامنے آرہی ہیں وہ انتہائی خطرناک صورتحال کی نشاندہی کررہی ہیں۔بہرحال دوسری جانب ڈینگی وباء نے بھی لوگوں کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے بڑے پیمانے پر ملک بھر سے لوگ اس وائرس کا شکار ہورہے ہیں۔روز بروز ڈینگی کیسز میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیاجارہا ہے ۔کراچی میں ڈینگی کے کیسز آنے کا سلسلہ جاری ہے۔کراچی میںاب تک ڈینگی کے 201 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔



بلوچستان میں آٹاغائب،روٹی مہنگی، دودھ بھی غائب، عوام پریشان

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان حکومت کی جانب سے فلور ملز کو سرکاری گندم کی فراہمی کے باوجود صوبے بھر میں گندم اور آٹے کا بحران بدستور برقرار ہے۔فلور ملزایسوسی ایشن نے سرکاری گندم کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے، ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ محکمہ خوراک کا ہر آٹا مل کو صرف 300 بوری گندم دینا نا انصافی ہے، 300 بوری گندم سے نہ عوام کو ریلیف ملے گا، نہ آٹے کا بحران ختم ہوگا۔فلور ملز ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ محکمہ خوراک پاپولیشن بیسڈ پالیسی کے تحت آٹا ملزکو گندم فراہم کرے، محکمہ خوراک گندم کا ستمبرکا کوٹہ فوری جاری کرے۔ ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں گندم کی ماہانہ ضرورت 16 لاکھ بوری گندم ہے، بلوچستان میں طلب کے مطابق گندم کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔دوسری جانب حکومت بلوچستان نے پنجاب حکومت سے مناسب قیمت پر ساڑھے 6 لاکھ بوریاں گندم فراہم کرنے کی درخواست کردی ہے۔وزیراعلیٰ پرویز الہٰی نے بلوچستان حکومت کی درخواست قبول کرتے ہوئے بلوچستان سرکار کو ساڑھے 6 لاکھ بوری گندم دینے کا اعلان کردیا۔بلوچستان کے صوبائی وزیر خوراک زمرک خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ پنجاب کی جانب سے گندم کی فراہمی سے صوبہ میں آٹے کا بحران حل ہو جائے گا۔وزیر خوراک نے لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزا لہٰی سے ملاقات کے موقع پر بتایا کہ حکومت بلوچستان کی جانب سے حکومت پنجاب سے ساڑھے چھ لاکھ بوری گندم فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔ چوہدری پرویز الہٰی نے بلوچستان کی درخواست منظور کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو مناسب قیمت پر بلوچستان کو فوری طور پر ساڑھے 6 لاکھ بوری گندم دینے کا حکم دے دیا ہے۔صوبائی وزیر خوراک بلوچستان زمرک خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ محکمہ خوراک بلوچستان فوری طور پر مذکورہ گندم کی ترسیل کا انتظام کرے گی جس سے صوبے میں گندم کا بحران حل ہو جائے گا۔



بلوچستان سیلاب متاثرین کی شکایات کاازالہ کیاجائے

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میںسیلاب متاثرین کی امدادی کاموں کے حوالے سے بہت زیادہ شکایات موصول ہورہی ہیںکہ بعض اضلاع میں متاثرین کو امدادی سامان فراہم نہیں کیاجارہا ہے۔ یہ مسلسل میڈیا پربھی رپورٹ ہورہا ہے بلوچستان میں حالیہ بارشوں وسیلابی ریلوں سے بہت زیادہ جانی ومالی نقصانات ہوئے ہیں ۔صورتحال بہتر نہیں ہے وزیراعظم متاثرہ علاقوں کے دورے بھی کرچکا ہے اور یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ متاثرین کی بحالی تک چھین سے نہیں بیٹھیں گے حکومت تمام تر وسائل بروئے کار لائے گی جبکہ وفاقی سطح پر مانیٹرنگ سسٹم بھی تشکیل دیدی گئی ہے، احسن اقبال تمام تر صورتحال کودیکھ رہے ہیں۔بہرحال حکومت سیلاب متاثرین کے شکوے شکایات کو دور کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تاکہ ان کو کم ازکم وقتی طور پر کچھ ریلیف مل سکے ،بحالی میں تو کافی وقت درکار ہے مگر اب جو سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں انہیں دی جاسکتی ہیں وہ دی جائیں۔ دوسری جانب پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کاکہناہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صوبے کے بیشتر علاقوں میں موسم گرم اور مرطوب رہا۔پی ڈی ایم اے آرمی اورایف سی کے تعاون سے آواران، سبی، نصیر آباد، جھل مگسی، کچھی، نوشکی، موسیٰ خیل، ڈیرہ بگٹی، صحبت پور اور لسبیلہ میں ریلیف اور ریسکیو آپریشن کر رہی ہے۔



عمران کی انا!ملک میںبحران، عام انتخابات کامطالبہ؟

| وقتِ اشاعت :  


ملک میں سیاسی کشیدگی بدستور برقرار ہے باوجود اس کے کہ پاکستان میں تاریخ کا بدترین بحران، بارشوں او رسیلاب کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں جس کی بحالی میں سالوں لگ سکتے ہیں جبکہ ساتھ ہی بڑے پیمانے پر رقم درکار ہوگی۔ یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے کہ کس طرح سے ملک کو دوبارہ ڈگرپرلایا جائے۔اس کے لیے حکومت سرجوڑ کر بیٹھی ہے اور اس حوالے سے کوششیں بھی جاری ہیں مگر دوسری جانب اپوزیشن اور حکومت کے درمیان سیز فائر کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ اپوزیشن تو بالکل ہی بات کرنے کو تیار نہیںہے بلکہ سنگین نوعیت کی دھمکیاں دی جارہی ہیں عدلیہ، عسکری قیادت سمیت ہر کسی کو عمران خان نے اپنے نشانہ پر رکھا ہوا ہے اس طرح کا ماحول پیدا کیاجارہا ہے کہ خدانخواستہ ملک میں انارکی کی صورتحال پیدا ہوجائے حالانکہ مشکل کی اس گھڑی میں پوری دنیا کی توجہ پاکستان پر مرکوز ہے کہ اس بڑی تباہی سے پاکستان کو نکالنے کے لیے ہر قسم کا تعاون کیاجائے، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے بھی تمام ممالک سے پاکستان کی مکمل مدد اور تعاون کی اپیل کی ہے مگر عمران خان ایک ہی رٹ لگاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ انتخابات جلد کرائے جائیںوہ بھی ایسے حالات میں جہاں ملک بری طرح سیلاب سے تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔



ملکی ترقی کی کنجی بلوچستان وفاقی حکومت کے توجہ کا منتظر

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان سرمایہ کاری کے حوالے سے ملک کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ موزوں ہے بین الاقوامی سرحدیں، طویل ساحلی پٹی اور اپنی منفرد جغرافیائی حیثیت کے حوالے سے معاشی لحاظ سے الگ پہچان رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے بلوچستان پر اس طرح توجہ نہیں دی گئی جس طرح سے دینی چاہئے تھی اربوں روپے دیگر صوبوں میں منصوبوں پر لگائے جاتے ہیں ان کی تکمیل بھی جلد ہوجاتی ہے جبکہ بلوچستان کے حوالے سے ایسی کوئی پالیسی دکھائی نہیں دیتی کہ اس کے لیے الگ سا ایک بڑا پیکج دیاجائے اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بین الاقوامی سرحدوں،ساحلی پٹی، معدنیات سمیت دیگر شعبوں کے لیے رقم خصوصی طور پر رکھی جائے تاکہ بلوچستان کی پسماندگی نہ صرف ختم ہو جائے بلکہ خودکفیل بلوچستان ابھر کر سامنے آئے ۔گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ بات سنتے آرہے ہیں کہ ملکی ترقی کی کنجی بلوچستان ہے مگر المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کے نصف سے زائد علاقے آج بھی تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ،خالی خولی اعلانات سے آگے بڑھ کر کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایاگیا۔



پاکستان میںبحران، اقوام متحدہ کاقابل ستائش کردار

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے ہونے والے نقصانات پر عالمی برادری کی جانب سے بھرپور مثبت جواب ملا ہے۔دوست ممالک سمیت عالمی برادری کی جانب سے مالی معاونت کے ساتھ امدادی سامان بھی بھیجا جارہاہے مزید رقم سمیت قرضوں کی معافی کے حوالے سے بھی اقوام متحدہ سمیت دیگر دوست ممالک نے بات کی ہے ۔اس سے پاکستان کی معیشت پر بہت زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا امید ہے کہ اس حوالے سے آئی ایم ایف سمیت دیگر ادارے پاکستان کے ساتھ تعاون کرینگے ۔سب سے اہم بات اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے ذاتی دلچسپی ہے جو پاکستان کے دورہ پر ہیں انہوں نے کھل کر پاکستان کے حالیہ مشکلات پر دنیا بھر کو اس پر کام کرنے کے حوالے سے اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھانے میں پاکستان کا قصور نہیں لیکن پاکستان اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، دنیا آگے آئے اور پاکستان کی مدد کرے۔انہوں نے کہاکہ گلوبل وارمنگ کا ذمے دارپاکستان نہیں لیکن دوسروں کی غلطی کی سزاپاکستان بُھگت رہا ہے، تباہی کے ذمے دارملکوں کی ذمے داری ہے کہ پاکستان میں بحالی کا کام کریں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے ایک بار پھر عالمی برادری کے نام پیغام میں کہا کہ میں ذمے دارملکوں سے عملی طور پر پاکستان کی مدد کرنے کا کہہ رہاہوں، اقوام متحدہ پاکستان کی آواز کے ساتھ آواز ملائے گا۔



آفت کی صورتحال، پی ٹی آئی کی سیاست!

| وقتِ اشاعت :  


وزارت خزانہ نے سیلاب سے متاثرہ معیشت کے نقصانات پر مبنی رپورٹ وزیر اعظم آفس کو ارسال کر دی۔رپورٹ کے مطابق سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے باعث ابتدائی تخمینے پر مبنی رپورٹ تیار کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے زراعت اور انفرا اسٹرکچر سمیت دیگر نقصانات شامل ہیں۔سیلاب سے کمزور ملکی معیشت کو 12 ارب ڈالر کا ناقابل تلافی نقصان ہوا جس کے پیش نظر معاشی شرح نمو 5 فیصد سے کم ہو کر 3.3 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ وزیر اعظم آفس کو ارسال رپورٹ میں معاشی شرح نمو میں کمی کے باعث روزگار فراہم کرنے کی شرح میں 1.2 فیصد تک کمی کاخدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔



سیلاب کی تباہ کاریاں، اثرات، حکومتی میکنزم

| وقتِ اشاعت :  


ملک میں بارشوں اور سیلابی صورتحال کے اثرات بری طرح لوگوں کو متاثرکررہے ہیں اس وقت بھی حالات بہتر نہیں ہیں ، بلوچستان اور سندھ میں پریشانیاں مزید بڑھ رہی ہیں ۔سندھ میں بند ٹوٹنے کی وجہ سے سیلابی ریلوں کا پانی دیہات اور شہروں میں داخل ہورہا ہے بڑے پیمانے پر گوٹھ تباہ ہوگئے ہیں جانی نقصانات ہوئے ہیں، مکانات نہیں رہے، مال مویشی سب ختم ہوگئے، عام آدمی سے لیکر زمیندار طبقہ بھی سڑک پر آگیا ہے ۔اس سیلاب نے بہت بڑی تباہی مچائی ہے ملکی تاریخ کا بڑا بحران اس وقت جنم لے چکا ہے کروڑوں لوگوں کے نقصانات ہوچکے ہیں انفراسٹرکچر بھی تباہ ہوچکا ہے۔ ملک بڑے چیلنجز سے دوچار ہے بڑے پیمانے پر رقم درکار ہے دوبارہ معمولات زندگی کو بحال کرنے کے لیے اور اس کیلئے قرض معاف کرنے کی ضرورت کے ساتھ مزید دوست ممالک ، عالمی برادری سمیت عالمی تنظیموں سے مالی امداد درکار ہوگی جس کے لیے کوششیں کرنی ہونگی وگرنہ صورتحال بہت زیادہ خراب ہوجائے گی ۔سیلاب کی تباہ کاری کے اثرات مختلف حوالے سے لوگوں کو متاثر کررہے ہیں۔



سیلاب تباہ کاری، انسانی بحران، بے حسی کی انتہاء

| وقتِ اشاعت :  


مون سون کی غیر معمولی اور طویل بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب کی وجہ سے پاکستان کے چاروں صوبوں میں کروڑوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق سیلاب سے متاثرہ 110 اضلاع میں گزشتہ ڈھائی ماہ کے عرصہ میں گیارہ سو سے زیادہ افراد کی اموات ہو چکی ہیں جبکہ ساڑھے تین کروڑ سے زائدافراد کے بے گھر ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ساڑھے نو لاکھ مکانات اور عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں آٹھ لاکھ سے زیادہ مویشی مر گئے ہیں۔ اس حوالے سے صوبہ سندھ کی صورتحال سب سے زیادہ گھمبیر ہے جہاں 16اضلاع کی50 لاکھ سے زیادہ آبادی سیلاب کے باعث بے گھر یا متاثر ہوئی ہے۔ بلوچستان کے 34اضلاع کے چار لاکھ سے زائد افراد متاثرین میں شامل ہیں جبکہ صوبہ پنجاب کے آٹھ اضلاع میں ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ شہری بارشوں اورسیلاب کے باعث بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسی طرح صوبہ خیبرپختونخوا کے 33اضلاع میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد کا تخمینہ 50ہزار سے زیادہ کا لگایا گیاہے۔