|

وقتِ اشاعت :   September 9 – 2022

وزارت خزانہ نے سیلاب سے متاثرہ معیشت کے نقصانات پر مبنی رپورٹ وزیر اعظم آفس کو ارسال کر دی۔رپورٹ کے مطابق سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے باعث ابتدائی تخمینے پر مبنی رپورٹ تیار کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے زراعت اور انفرا اسٹرکچر سمیت دیگر نقصانات شامل ہیں۔سیلاب سے کمزور ملکی معیشت کو 12 ارب ڈالر کا ناقابل تلافی نقصان ہوا جس کے پیش نظر معاشی شرح نمو 5 فیصد سے کم ہو کر 3.3 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ وزیر اعظم آفس کو ارسال رپورٹ میں معاشی شرح نمو میں کمی کے باعث روزگار فراہم کرنے کی شرح میں 1.2 فیصد تک کمی کاخدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب کے باعث تقریباً 180 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے مکمل نہیں ہو سکیں گے اور منصوبے متاثر ہونے سے 6 لاکھ افراد کو روزگار فراہم نہیں کیا جا سکے گا۔اس حوالے سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف حکام سے رابطہ کیا ہے جبکہ ذرائع کا بتانا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی رپورٹ ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کو بھی بھیجی جائے گی۔ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے مالیاتی امداد کی اپیل کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ سیلاب کی وجہ سے ملکی معیشت پر بہت زیادہ اثر پڑا ہے جس کاذکر بارہا کیاجارہا ہے کہ یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ معاشی مشکلات سے نکلنے کا ہے اس کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے مگر افسوس کہ اپوزیشن کی جانب سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیاجارہا ہے اقتدار کی ہوس میںتمام حدیں پھلانگیں جارہی ہیں کوئی ایسی کسر نہیں چھوڑی جارہی جس کا مقصد ہر صورت میں عدم استحکام پیدا کرنا لگتا ہے۔

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اداروں پر حملہ آور ہوکر خبروں کواپنے گرد گھمانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے کیونکہ جب اس طرح کے بیانات عمران خان کی طرف سے آتے ہیں تو وہ شہ سرخیوں اور بحث کا حصہ بن جاتی ہیںحکومت، میڈیا سب کی توجہ اسی پر لگ جاتی ہے اور تبصرے اسی پر ہوتے ہیں جب دنیا اس طرح کے سیاسی معاملات کو دیکھتی ہے تو یہی سمجھتی ہے کہ پاکستان میں اتنی بڑی آفت شاید نہیں آئی ہے کہ تمام تر بحث کا محور سیاست بنا ہوا ہے اور اس وقت اہم ایشو سیاسی معاملات ہیں ناکہ سیلاب ۔

خدارا اس سیاست سے گریز کیاجائے مگر کیا کریں عمران خان نے تہیہ کررکھا ہے کہ انہوں نے جلسے جلوس کرنے ہیں لوگوں کو سڑکوں پر نکالنا ہے کسی طرح سے بھی انتشار اور انارکی پھیلانا ہے جس کی ایک واضح مثال عسکری ادارے کے سربراہان کے حوالے سے ان کا بیان ہے جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے دوران شوکت ترین کا آڈیو ریکارڈنگ ہے کہ کس طرح سے وہ ملک کو دیوالیہ کرنے کے درپے ہیں۔ اس تمام صورتحال سے یہی لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اگر حکومت میں نہیں آتی تو سری لنکا جیسے ہی حالات پیدا ہوجائیں۔ بہرحال حکومت اپنی تمام تر توجہ سیلاب متاثرین پر مرکوز کرنے کے ساتھ آنے والے معاشی چیلنجز پر رکھے تاکہ ملک کو مستقبل میں بڑے بحرانات کا سامنا نہ کرناپڑے۔