ہر ذی شعور انسان اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ تعلیم ہی وہ واحد ہتھیار ہے جو تبدیلی لا سکتی ہے مگر جس خطے میں تعلیم کا نظام بیٹھ گیا ہو،وہاں تبدیلی کے بجائے معاشرتی بحران جنم لینے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے اور ہم سب بچپن سے اس بحران کا سامنا کرتے چلے آرہے ہیں۔ ماضی میں ایک پالیسی کے تحت آواران کو تعلیمی حوالے سے پسماندہ رکھا گیا اور حال میں جان بوجھ کرتعلیمی نظام کی بہتری کے لیے بنائی گئی پالیسیوں سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ جس کا براہ راست اثر بچوں کی تعلیمی پر پڑ رہا ہے۔
17 سالہ خدیجہ لڑکوں کا روپ دھارے خود موٹر سائیکل چلا کر اپنے کالج پہنچتی ہیں جہاں پھر وہ لڑکوں کا لباس بدل کر کالج کا یونیفارم پہن لیتی ہیں کوئٹہ کے مضافات میں رہنے والی خدیجہ کو یہ بہروپ تعلیم حاصل کرنے کی خاطر بھرنا پڑتا ہے کیونکہ اُنکے گھرکے پاس کوئی کالج نہیں ہے اُنہیں اس عمل سے کالج میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کیونکہ کالج کے اساتذہ اُنکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی بھی انقلاب کی کامیابی طلباء یونینز کی جدوجہد اور قربانیوں کا مظہر ہے۔ طلباء معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنکی قلم بندوق سے زیادہ طاقت ور اور خوفناک ہے، طلباء تنظیموں پر نہ صرف تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبا بلکہ پورے معاشرے کے لوگوں کی نظریں جمی ہوئی ہوتی ہیں کیونکہ یہ طلباء کی وہ گروپ ہے جو سوچنے اور بولنے کے فن سے آشنا ہے۔
لیاری ادبی میلے کے انعقاد سے مجھے دلی مسرت ہوئی ہے۔میلے کے منتظمین بے شک مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے دن دگنی اور رات چوگنی محنت کر کے ایک بڑے میلے کا انعقاد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ لیاری کے بارے میں دانستہ طور پر مفاد پرست حلقوں کی جانب سے ہمیشہ یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ یہ ذہنی طور پر پسماندہ، جاہل اور جرائم پیشہ لوگوں کی بستی ہے اس تاثر کو پھیلانے میں حکمران افسر شاہی اور ان سے منسلک میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔ اور تو اور ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان خود ریکارڈ پر ہیں کہ گدھا گاڑی چلانے والوں سے کو ئی کیا تو قع رکھ سکتا ہے۔ دراصل اس گھناؤنے پروپیگنڈے کا مقصد یہاں کے لوگوں کو کراچی بدر کرنا تھا۔
ممتاز کاروباری افراد کے وفود کے ساتھ، انھیں یہ یقین دلانے کے لیے کہ نیب ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا، وزیر اعظم اور آرمی چیف کی حالیہ الگ الگ ملاقاتوں سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا جو مسلم چیمبر آف کامرس بمبئی کے پہلے سیکرٹری جنرل ایس ایم جمیل نے مجھے بتایا تھا۔ان کے مطابق قائد اعظم نے انھیں کہا کہ وہ مسلمان کارو باری افراد کو پاکستان آنے اور وہاں سرمایہ کاری پر آمادہ کریں۔
بلوچستان میں ویسے تو کوئٹہ تا کراچی یک رویہ شاہراہ پر جان لیوا ٹریفک حادثات تقریباً معمول بن چکے ہیں لیکن حالیہ چند برسوں کے دوران دوسری مرتبہ اندوہناک حادثے کی جزوی وجہ ایرانی اسمگل شدہ تیل بنی جس کے بعد صوبائی حکومت نے ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔
معاشرے میں جھوٹ نے اپنا وہ مقام بنا لیا ہے کہ سچ کان پکڑ کر رہ جائے۔ نفسیاتی اجزا ء کو ملا کر ایسے ایسے پراڈکٹ تیار کیے جاتے ہیں کہ آدمی دھنگ رہ جائے اور جھوٹ کو سچ ماننے پر مجبور ہو جائے۔ زمینی حقائقکوچھپانے کے لیے مقتدر حلقوں نے جو فارمولہ تیار کیا ہے اس سے المناکیوں، مجبوریوں، لاچاریوں کے بھنور میں پھنسا بلوچستان تعلیم کے میدان میں اپنی ناکامی کا اعتراف تو نہیں کر پا رہا مگر مشاہداتی نگاہوں سے جال جو بچھایا گیا ہے اس کا جائزہ لیا جائے تو کہانی کھل کر سامنے آتی ہے۔
صوبو ں کو با اختیار بنانے سے پہلے اور صوبوں کو با اختیار بنانے کے بعد دونوں صورتوں میں کچھ محکمے وفاق کے پاس ہیں،ان محکموں کے فنڈز اور دیگر تمام اختیارات کا مالک وفاق ہے اور وفاق کی حیثیت ایک ماں کی سی ہوتی ہے مگر افسوس ماں کا رویہ بعض معاملات میں بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ سوتیلا ہے،این ایچ اے ہو یا کہ سوئی سدرن گیس یہ دونوں محکمے وفاق کے کنٹرول میں ہیں اور بد قسمتی کہہں یا خوش قسمتی کہ سوئی گیس بلوچستان سے نکلتی ہے اور ابتدائی طو رپر ملک کے گیس کی ضروریات اسی گیس سے پوری کی جا رہی تھیں،
لوگ کہتے ہیں کہ شال کبھی ایسے نہیں تھا اب بہت بدل چکا ہے۔ راہ چلتے لوگوں کے چہروں کا تاثرات پڑھنے کی کوشش کریں تو عنوانات سے خالی نظر آتے ہیں۔سوچ کی گھنٹی ٹھن ٹھن کرنے لگتی ہے شال جو کبھی فن سے آشنا تھا اب ایک ناآشنائی کی فضا در آئی ہے۔ نہ ہی تفریحی مقامات، نہ ہی محفلوں کا تصور۔ اجنبی پن لمحوں میں آدمی کو گھیر لیتی ہے۔ دو چار دوست ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں تو بھی سب اپنے اپنے خیالوں میں گم۔ ایک مصور نے پوچھا تھا کہ وہ کہانی کار کہاں ہیں جن کی جادوئی جملوں کو پڑھ کر تصورات جنم لیا کرتے تھے۔ جواباً کہا کہ کہانی کار لاپتہ ہے اور کہانی گمشدہ۔۔
اس وقت ملکی ’غیرجانب دار‘ میڈیا کو دیکھو تو برطانوی جوڑے کے دورہ پاکستان کا چرچا ہے، کچھ اس طرح کی خبریں چل رہی ہیں، ”برطانوی شاہی جوڑے نے فیصل مسجد میں خاموشی سے قران کی تلاوت سنی۔۔۔۔ شاہی جوڑا ائیرپورٹ پہنچ گیا۔۔۔ شہزادی نے لال رنگ کے کپڑے پہنے ہیں۔۔۔۔شہزادہ ولیم نے ایک بچے کے سرپر ہاتھ رکھی“۔ لیکن کوئی گلہ نہیں،کوئی شکوہ نہیں کرو کیونکہ غلام سوچتے ہیں تو اپنی ”غلامانہ“ ذہنی مقدار میں، ملکی میڈیا سمیت مملکت خداداد میں بسنے والوں کو یہ خبر تو معلوم ہونی چاہیے کہ علامہ محمداقبال نے خواب کیوں دیکھا تھا۔۔۔! پھر اسی خواب کو لیکر اُن کے چاہنے والوں نے برصغیر میں ایک الگ ملک کا مطالبہ کس سے کیا؟ اور آج انہی کے آنے پر یہ بے وقوف قوم اتنا خوش کیوں ہے؟ خدا کرے برطانوی شاہی جوڑا جاتے وقت حکومت پاکستان کے لنگر خانے میں کچھ ڈال کر چلا جائے(آمین)۔