خبر کیا ہے؟ صحافتی دانشوروں نے اس کی بے شمار تعریفیں کی ہیں پھر بھی حتمی نتیجے پر پہنچ نہیں پائے اورنہ ہی خبر کا احاطہ کر پائے۔ ایک تعریف جو مشہور ہے ”کتا آدمی کو کاٹ لے خبر نہیں بنتی لیکن اگر آدمی کتے کو کاٹ لے تو وہ خبر ہوتی ہے“۔ اب بھلا آدمی کتے کو کیوں کاٹے۔ اس خبر کی تلاش میں نہ جانے کتنے صحافیوں نے سر کھپائے ایسی خبریں انہیں دستیاب نہیں ہوتیں۔ جس نے یہ مشہور مقولہ بیان کیا تھا وہ خبر کا مدعا بیان کرنے کے لیے کافی تھا خبر وہ ہو جو چونکا دے اس میں انوکھا اور نیا پن ہو۔
وادی کوئٹہ کے کئی مسائل ہیں جن میں پانی، لوڈشیڈنگ، سڑکوں پر رش انتہائی اہم ہیں۔ آج ہم کوئٹہ کے ٹریفک کے مسئلہ پرنظر ڈالیں گے اور اس کے حل کیلئے کچھ تجاو ز پیش کرینگے۔کوئٹہ شہر 26000کے آبادی کے لئے بنا یا گیا تھا مگر آج اس شہرکی آبادی 30 لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ جس کی وجہ سے رش میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ کوئٹہ کی تاریخ کے 70سے 80سالوں میں سڑکوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔
میرے گاؤں میں ڈاکٹر تو اپنی جگہ لیڈی ہیلتھ وزٹرز تک دستیاب نہیں۔دورانِ زچگی ایک حاملہ خاتون اپنی چیک اپ نہیں کرا سکتی، نہ ہی کوئی ٹرینڈ دائی ہے جو ڈلیوری کیسز کو ڈیل کر سکے۔ ایسی صورتحال کا سامنا نہ صرف میرا گاؤں بلکہ دیگر قریبی گاؤں بھی کرر ہے ہیں۔ بسا اوقات سوچتا ہوں کہ حالات اپنے آپ تبدیل نہیں ہوتے۔ حالات کو تبدیل کرنے میں ایک وژن کارفرما ہوتا ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسمنٹ اسکینڈل کے بعد طلبا ء تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر منظم ردعمل جنوری 1953 کی ملک گیر طلبا ء تحریک کے دور کی منظر کشی کر رہاہے فرق یہ ہے کہ اس وقت کسی بھی تعلیمی ادارے میں ا س طرح کی حرکت کرنے کا کوئی بھی سوچ نہیں سکتا تھا۔
بلوچستان کے گزشتہ سال کے بجٹ میں سرکاری اسپتالوں کے لئے دوائیاں خریدنے کی مد میں مختص کی گئی رقم کو خرچ ہی نہیں کیا جاسکا۔اس کو صوبائی حکومت کی بے حسی اورنالائقی کہیں یا کہ عوام کی بدقسمتی۔۔لیکن اس سے یہ بات عیاں ہو ہے کہ ہمارے یہاں ادارے کیسے کام کرتے ہیں۔
مردآہن، امت مسلمہ کی قیادت، خودساختہ مسلمانوں کا محافظ ترک صدر طیب اردگان کیلئے دوغلاپن اور منافقت کوئی نئی بات نہیں. طیب اردگان ملک کا بارھواں صدر جو 2014 سے صدارتی کرسی پر براجمان ہیں۔ 2003 سے 2014 تک متواتر تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہے۔ اردگان اپنی بنائی گئی پارٹی “جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی” کے سربراہ بھی ہیں۔ یہ پارٹی ترکی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، جو متواتر 13 سالوں سے ترکی پر حکومت کر رہی ہے۔
کچے کمرے کے سامنے کھڑا تصورات ہی تصورات میں اپنے آپ کو اس مقام پر پا رہا ہوں جہاں کبھی بچپن ہوا کرتا تھا، بچپن سے جڑی یادیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ زمانہ اور وہ یادیں سب کچھ یا تو یہ کچا کمرہ اپنے اندر سمیٹ چکا ہے یا میرے حافظے میں موجود مجھے تنگ کر رہے ہیں یا ان مکینوں کے حوالے ہو چکے ہیں جو اسے الوداع کہہ گئے ہیں۔ خستہ حال ڈھانچہ، ٹوٹے دروازے اور کھڑکی جہاں سے کبھی تر و تازہ ہو اسکول کے مکینوں کو گھیرتا تھا، مٹی اور گھارے سے بند کر کے ہوا کا راستہ موڑا جا چکا ہے۔
یہ میرا پہلا غیر ملکی دورہ تھا جب میں پاکستان کے شہر کوئٹہ سے ائیرپورٹ کے لئے نکلا تو چائنا کے حوالے سے بے شمار تصورات دماغ میں موجود تھے کراچی ائیرپورٹ پہنچنے کے بعد بلوچستان اکنامک فورم کے نمائندے نے ہمارا استقبال کیا تو ہماری بس کراچی کی مختلف شاہراوں سے ہوتی ہوئی کراچی میں چینی قونصل جنرل پر جا کررکی۔
بات مکران کی ہو رہی تھی دورانِ گفتگو ذکر فلسفے کا آیا تو ایک دوست نے کہا کہ تربت یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھایا نہیں جاتا۔ یہ فقرہ ہم سب کو چونکا دینے والی تھی۔ بات ہو رہی ہو مکران کی اور تربت یونیورسٹی فلسفے سے آزاد ہو۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے تربت یونیورسٹی سے وابستہ ایک اور دوست سے جاننا چاہا تو ہنس کر کہہ گئے کہ کون پسند کرتا ہے کہ اداروں کے اندر یا اداروں کے باہر سوال اٹھنے لگیں۔
کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کی ترقی کا زار تعلیم میں ہے اور اگر دیکھا جائے تو تعلیم یافتہ قومیں ہی ترقی کے میدان میں صف اول پر دکھائی دیں گی۔ مگر ہمارے ملک میں تو لاکھوں کروڑوں لوگ آج بھی تعلیم سے محروم ہیں یعنی ترقی سے محروم ہیں۔اب اس صورتحال میں ہم کیسے دنیا کا مقابلہ کریں، کیسے ترقی کریں جب ہم بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔