سلطان کے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ اتنا بڑا ماہر فلکیات، ریاضی دان اور ستارہ شناس ہے تو کیوں نہ اس کا امتحان لیا جائے۔ اس نے اس ستارہ شناس کو بلایا اور اسے مخاطب کرکے کہا “میں محل کے ان چار دروازوں میں سے کس دروازے سے باہر نکل جاؤں گا” تم علم نجوم اور علم ریاضی کے اصولوں کی مدد سے حساب لگا کر کاغذ پر لکھ دو۔
کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس کی لیڈر شپ پر ہوتا ہے جس کے بغیر ترقی کی اْمید ایک خواب ہی ہو سکتی ہے۔ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے کچھ خاص خصوصیات اور صلاحیتیں رکھی ہیں۔کسی میں سائنسدان بننے کی صلاحیت پائی جاتی ہے ،کوئی فصیح و بلیغ خطیب بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔کوئی اچھا طبیب بننے کی استعداد رکھتا ہے تو کسی میں لیڈر بننے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ہر انسان کسی ایک جیسی خوبی کا مالک نہیں ہوتاہر ایک کی اپنی انفرادی خصوصیات اور صلاحیتیں ہوتی ہیں۔یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر موجود خصوصیات یا صلاحیتوں سے آگاہ ہو۔انسان اپنی صلاحیتوں سے آگاہی حاصل کر کے کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔آج ہمارے معاشرے کے لوگوں کی ناکامی کا نصف سبب اپنی صلاحیتوں کی پہچان کے بغیر ہی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں وقت ضائع کرنا ہے۔ہمارے ملک کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والوں پر ذرا غور کیا جائے تو حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ اپنی استعداد کے مخالف شعبے میں محنت کر رہے ہیں
اس موضوع پر عزیز سنگھور کے کالموں کا مجموعہ ایک کتاب کی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ “روزنامہ آزادی کوئٹہ” میں شائع شدہ عزیز سنگھور کے کالم بلوچستان میں ہونے والی ظلم و زیادتی کی تصویر کشی کرتے ہیں جن میں آئے روز بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بلوچستان میں اس وقت ایک سیاسی ہلچل ہے۔ مولانا ہدایت الرحمٰن پر سے لوگوں کا اعتماد ٹوٹ رہا ہے۔ مولانا جو بطور حق دو تحریک کے سربراہ چند ہی دنوں میں ایک بڑا لیڈر بن کر سامنے آئے۔
جلتے سلگتے بلوچستان میں 29 مئی کے بلدیاتی انتخابات کو اسی بلاگ میں امید کی ایک کرن قرار دیتے ہوئے انتہائی محتاط الفاظ میں کوئٹہ اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے گوش گزار کیا تھا کہ کسی خوش فہمی میں نہ رہا جائے کہ سخت سیکیورٹی کے حصار میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ سب اچھا ہے عموماً بلوچستان کے بارے میں لکھتے ہوئے معتبر بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے مکالمہ ضرور کرتا ہوں کہ کتنا ہی باخبر کیوں نہ ہوں۔
پانی ایک بڑی نعمت ہے مگر آج کل بلوچستان میں صاف پانی انتہائی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں آج بھی بلوچستان کے لوگ جوہڑ اور تالابوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پورے بلوچستان میں صرف سات اضلاع کے لوگ نہری پانی پینے پر مجبور ہیں جن میں پٹ فیڈر کینال اور کیرتھر کینال شامل ہیں۔ اس وقت بلوچستان کے حصے کا پانی صرف 10300 (دس ہزار تین سو) کیوسک ہے جو سندھ اور پنچاب کی ایک بڑی نہر سے بھی بہت کم ہے جو بلاشبہ ایک شرم ناک بات ہے۔
راقم الحروف اپنے گزشتہ کئی کالموں میں بتاچکا ہے کہ واپڈاایکٹ1958-ء کے تحت محکمہ واپڈا کے قیام کے بعد ملک میں ڈیموں کے ذریعے سستی بجلی بنانے کا آغاز ہوااور واپڈا نے کوئلے اور تیل سے چلنے والے تھرمل بجلی گھر بھی لگائے۔اسی طرح 11KV سے لے کر 500KVتک کی ڈسٹری بیوشن اور ہائی ٹینش لائنیں اور گرڈ اسٹیشنز ملک کے گوشے گوشے میں تعمیر کیے گئے جس کے بعد سستی اور مسلسل بجلی کے ذریعے ملک میں صنعتیں لگیں، زراعت، تجارت اور کاروبارمیں بہتری آئی اور گھریلوصارفین کا معیار زندگی بھی بہتر ہوا جس کی وجہ سے ملک میں خوشحالی آئی،نوجوان مردوخواتین کیلئے چھوٹی بڑی صنعتوں،زراعت اوردیگر شعبوں میں روزگار کے ذرائع پیداہوئے اور نچلے درجے کے عوام کی زندگیوں میں روزبروز بہتری آنی شروع ہوئی۔ لیکن ہمارے ملک کی دفاعی اور معاشی ترقی سے بین الاقوامی دنیا ناخوش رہی ہے چونکہ وہ ہمیں فوجی لحاظ سے نقصان پہنچانے کا خطرہ مول نہیں سکتے تھے اس لئے وہ معاشی ترقی کے انجن واپڈا پر حملہ آور ہوئے۔
نصیر بلوچ گزشتہ دنوں دو بلوچ طلباء دودا الہٰی اور گمشاد بلوچ کی بازیابی کے لئے سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ خواتین پرامن احتجاج کررہی تھیں۔ سندھ پولیس نے پرامن احتجاج پر لاٹھی جارچ کی اور خواتین پر وحشیانہ تشدد کیا۔ بلوچستان کی بیٹیوں کو یوں سڑکوں پر گھیسٹنا کوئی نئی بات نہیں لیکن اس… Read more »
دماغ آج پھر بے ڈھنگی سوچوں میں الجھنے لگا، جنہیں اگر سلجھانے کی کوشش کرو تو بندہ خود الجھ جائے۔ آپ لاکھ کوشش کرو جان چھڑانے کی مگر ان سے فرار کا کوئی راستہ نہیں۔
ہم بچپن سے یہ بات سنتے آرہے ہیں کہ بلوچستان وہ صوبہ ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اگر حالات اور لوگوں کی طرز زندگی کو دیکھا جائے تو یہ بات بالکل جھوٹ معلوم ہوگا مگر جھوٹ بھی تو نہیں کیونکہ تمام وسائل تو یہاں پر موجود ہیں۔ زمین کے اندرونی وسائل اور نعمتوں کے علاوہ یہاں پر بیرونی وسائل کی بھی کمی نہیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقے خشک میوہ جات کی وجہ سے خاصے مشہور ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کے حوالے سے بھی بلوچستان کسی اور صوبے سے پیچھے نہیں۔ کوئٹہ, زیارت اور قلعہ سیف اللہ پھلوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔
سعید نے ایک کسان کے گھر میں غربت کی حالت میں آنکھ کھولی لیکن قدرت نے اسے بلا کی ذہانت اور خداداد صلاحیتوں سے نوازا ہے اس نے جب سے تعلیم کے میدان میں قدم رکھا ہے تب سے ہر کلاس میں اس کی پوزیشن بہتر رہی ہے اس نے بہترین نمبروں سے میٹرک کیا اور پھر اس سے بھی بہترین نمبروں کے ساتھ انٹر کا امتحان پاس کیا۔