|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2013

سپریم کورٹ نے نواب اکبر بگٹی شہید کے مقدمہ قتل میں ملوث سابق صدر پرویزمشرف کی ضمانت د س لاکھ روپے کے دو مچلکوں کے عوض منظور کر لی ۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سابق صدر کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں ۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ مقدمہ اکبر بگٹی کے قتل کے بارے میں ہے اور معلوم یہ ہوتاہے کہ اسثغاثہ کے پاس الزام کے حق میں شواہد نہیں ۔عدالت نے پرویزمشرف کی اپیل منظور کرکے رہائی کے لئے ڈپٹی رجسٹرار کے اطمینان کے مطابق دس دس لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ۔ ادھر نواب اکبر بگٹی شہید کے صاحبزادے نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے کہا ہے کہ میں نے ڈیڑھ سال قبل ہی دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا تھا کہ میرے والد کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا۔ ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف کو دی جانے والی ضمانت نے میرے موقف کو سچ ثابت کر دکھایا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ریاست اور اس کے اداروں سے خیر کی یا انصاف کی کوئی امید نہیں تھی تاہم جو بلندو بانگ دعوے کیے جارہے تھے کہ ہم نواب اکبر بگٹی کے قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے، اگر کوئی مقدمہ درج کرائے تو۔ ان دعوؤں کو بے نقاب کرنے کیلئے میں نے نہ صرف ایف آئی آر درج کرائی بلکہ انصاف کے حصول کے لئے عدالت کے دروازوں پر دستک بھی دی ۔ حالانکہ یہ بات طے ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ‘ آئین ‘ قانون ‘ عدلیہ کی بالادستی یا ان کا کوئی وجود نہیں۔ سارے دعوے بے بنیاد ہیں ۔ پرویزمشرف کو ضمانت دینے کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ اس ملک میں عدلیہ ابھی تک آزاد نہیں اور زور آور اور بالادست قوتیں جب چاہیں جو چاہیں کر سکتی ہیں اور وہ ہرگز ہرگز قانون کی گرفت میں نہیں آسکتیں ۔ کیونکہ قانون ان کے لئے ہے ہی نہیں ۔ اگر ان کے لئے کسی قسم کا کوئی قانون ہوتا تو شاید آج مجھے ایک بار پھر اس طرح کا اظہار نہ کرنا پڑتا ۔وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ مشرف کی ضمانت کی منظوری سے نفرتوں میں شدت آئے گی ۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے کمیشن تشکیل دینا ہماری آئینی و قومی ذمہ داری ہے اس کو ہر صورت پورا کریں گے ۔ نواب اکبر بگٹی کے مقدمہ قتل میں سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ اور سابق گورنر بلوچستان اویس احمد غنی کی ضمانت پہلے ہی ہوچکی ہے ۔ گزشتہ روز سابق صدر پرویزمشرف کی بھی ضمانت منظور کر لی گئی ۔ اگرچہ مشرف کو لال مسجد سانحہ سے متعلق غازی شہید قتل کیس میں گرفتار کر لیاگیا ہے تاہم قوی امکان ہے کہ موصوف اس کیس سے بھی نواب اکبر بگٹی قتل کے مقدمہ کی طرح صاف نکل جائیں گے۔ اس ملک میں با اثر شخصیات کبھی بھی قانون کی گرفت میں نہیں آسکی ہیں اور پھر فوج کے سابق سربراہ کو کیسے ایک بلوچ بزرگ کے قتل میں تختہ دار پر لٹکانے کی تمنا رکھی جا سکتی ہے ۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل سے پہلے کئی بلوچ سرکردہ رہنماؤں کو ریاستی ایما پر قتل کیا جاتا رہا ۔ ان کے قتل میں بالواسطہ یا بلا واسطہ ریاست کا ہاتھ ضرور رہا۔ آج دن تک ان کے قاتلوں کا محاسبہ تو درکار ان کی شناخت تک نہیں کی جا سکی تو پھر کیونکر آٹھ سال تک فوجی طاقت کے بل بوتے پر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہنے والے سابق آرمی چیف کو ایک بلوچ کے قتل میں ٹرائل کرکے انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے۔ نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے پوری بلوچ قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے واضح کیا کہ ہمیں یقین تھا کہ نواب اکبر بگٹی کے مقدمہ میں انصاف کے تقاصے ہرگز پورے نہیں کیے جائیں گے کیونکہ بلوچوں کو گزشتہ 65سالوں میں ریاست اور اس کے اداروں سے اپنے بے گناہ لوگوں کے قتل میں انصاف کی توقع نہیں رہی ۔ آغا کریم خان احمد زئی کی زیر قیادت شروع ہونے والی بلوچ مزاحمت سے لے کر موجودہ دور تک ہزاروں بلوچوں کو ماروائے آئین و قانون قتل کیا گیا اور آج دن تک وہ سلسلہ چل رہا ہے ۔ انصاف کی فراہمی کے دعویدار آخر کس کس اہلکار کو بلوچوں کے قتل میں سزا دیں گے، یہ بھی بھلا ممکن ہے۔