|

وقتِ اشاعت :   October 15 – 2013

بلوچستان جو ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار چلا آرہا ہے ۔ بالخصوص صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں مختلف قسم کی وارداتوں کا ہونا عام ہوگیا ہے ۔ ٹارگٹ کلنگ ‘ اغواء برائے تاوان ‘ منشیات فروشی جیسے گھناؤنے دھندے بڑے ہی منظم انداز سے ہوتے آرہے ہیں ۔ اگر ان تمام واقعات کا نتیجہ دیکھا جائے تو صرف ایک ہی طبقہ اس دوران ہر لحاظ سے فائدے میں رہا ۔صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں افغان مہاجرین تجارت پر قابض نظر آرہے ہیں ۔جبکہ ملکی آئین کے تحت افغان مہاجرین کی جانب سے تجارت کرنا ‘ جائیداد خریدنا غیر قانونی ہے۔ کسی بھی وقت کوئی بھی حکومت ان کو ٹھڈے مار کر ان کی خریدی گئی جائیدادیں بحق سرکار ضبط کرکے ان کو بیدخل کرنے کی مجاز ہے ۔۔بلوچستان میں غیر قانونی طورپر رہائش پذیر لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کے باعث امن وامان کی صورت حال دگر گوں ہوچکی ہے ۔ گزشتہ روز انٹیلی جنس ذرائع نے انکشاف بھی کیا ہے کہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان انٹیلی جنس ملوث ہے ۔ذرائع کے مطابق بلوچستان میں افغان ایجنسیوں کی مداخلت کے مصدقہ ثبوت حاصل ہوئے ہیں اور دہشت گردگروپس کے اہم ارکان بھی گرفتار کر لیے گئے ہیں ۔ گرفتار دہشت گردوں نے دوران تفتیش چمن میں رواں سال کی گئی دہشت گردی کی کئی کارروائیوں کا اعتراف کر لیا ہے جن میں 24جنوری کو چمن دھماکہ ‘ 3مارچ کو فورسز پر حملہ ‘ 9مارچ کو چمن پولیس اسٹیشن پر ریمورٹ کنٹرول بم دھماکہ اور باب چمن دھماکہ وغیرہ شامل ہیں ۔ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو افغان پولیس کا آئی جی سپورٹ کررہا تھا۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں نے تربیت افغانستان میں حاصل کی، ان دہشت گردوں نے قندھار میں جنوری 2013میں افغان بارڈر پولیس کے آئی جی سے ملاقات بھی کی ۔ادھر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل نے کہا ہے کہ ان کے دور میں افغان انٹیلی جنس پہلے روس اور بھارت کی انٹیلی جنس کے تابع ہوئی تھی آج کل وہ امریکا اور بھارت کی پٹھو بنی ہوئی ہے ۔ واضح رہے کہ انٹیلی جنس ذرائع کی جانب سے حالیہ انکشاف سے کچھ روز قبل گورنر بلوچستان نے بیان داغ دیا تھا کہ بلوچستان کے پشتون علاقوں میں اغواء برائے تاوان کی کوئی واردات نہیں ہوتی، یہ سب کچھ بلوچ علاقوں میں ہورہا ہے ۔ چمن میں خفیہ اداروں کی معلومات کے توسط سے گرفتار دہشت گردوں نے بدامنی کے حالیہ واقعات کا اعتراف کیا، یہ علاقہ گورنر بلوچستان کا نہ صرف علاقہ ہے بلکہ ان کے چھوٹے بھائی کا حلقہ انتخاب بھی ہے ۔ ان کی سیاسی پارٹی کا اس علاقے میں کافی اثر ورسوخ بھی ہے ۔ لہذا لسانی بنیادوں پر تفریق کی روایت پروان چڑھانے والوں کو حقیقت تسلیم کرتے ہوئے بلوچستان کے شمالی علاقوں میں جاری ملک دشمن عناصر کی نشاندہی بھی کر لینی چائیے اور ملک کے انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ اس معاملے میں بھرپور تعاون کرنا چائیے تاکہ کوئٹہ میں ایک عرصے سے جاری فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے اسباب اور عناصر کی نشاندہی کی جا سکے ۔ کوئٹہ میں دن دگنی رات چگنی ترقی کرنے والی شخصیات کا بھی محاسبہ کیا جاناضروری ہے تاکہ پتہ تو چلے کہ ان کے ہاتھ قارون کے خزانے کی ایسی کون سی کنجیاں لگی ہیں جو تھڑے سے گرینڈ گاڑیوں تک کا سفر سالوں نہیں بلکہ مہینوں میں طے کیا ۔ وفاقی حکومت کو چائیے کہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی میں ملوث ہونے کا معاملہ افغان حکومت کے سامنے اٹھاتے ہوئے کوئٹہ اور بلوچستان میں مقیم لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کے انخلاء کو فوری یقینی بنانے اور ان مہاجرین کی جانب سے حاصل کردہ تمام دستاویزات بشمول جائیدادیں ضبط کی جائیں ۔ملکی معیشت کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ افغان مہاجرین کی ہر قسم کی تجارتی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے ۔ اصول پرستی کاراگ الاپنے والوں کا ملی اور قومی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں موجود افغان مہاجرین کی نشاندہی کرتے ہوئے ملکی سلامتی کوان سے درپیش خطرات کا ازالہ کرتے ہوئے مفید شہری بننے کا ثبوت مہیا کریں ۔ یہ بات انتہائی وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ افغان مہاجرین کے مکمل انخلاء کے بعد بلوچستان کاروایتی امن بحال ہوجائے گا اور بلوچوں اور پشتونوں کے مابین لسانی بنیادوں پر تفریق کی سازشیں آسودہ خاک ہوجائیں گے۔ حالانکہ بلوچ پشتون قبائل صدیوں سے باہم رشتہ داری کے مضبوط بندھن میں جڑے ہوئے ہیں ۔ جہاں تک ان دونوں اقوام کی جغرافیائی حدود کا مسئلہ ہے تو وہ بھی طے شدہ ہے ۔ بلوچوں کے اس معاملے میں کسی قسم کے توسیع پسندانہ عزائم نہیں البتہ اگر کسی اور کے توسیع پسندانہ عزائم ہوسکتے ہیں تو بلوچ اس کا جواب بہتر انداز میں دے سکتے ہیں ۔ جہاں تک برٹش بلوچستان یا کوئٹہ کمشنری کی بحالی کے سیاسی نعرہ کا تعلق ہے تو وہ نعرہ بذات خود تاریخی حوالے سے غلط ہے کیونکہ جن علاقوں پر پشتون جدی پشتی طورپر آباد چلے آرہے ہیں وہ برٹش بلوچستان نہیں بلکہ برٹش افغانستان کہلائے جا سکتے ہیں ۔ خان قلات میر نصیر خان نوری نے جن علاقوں کو بلوچستان کا نام دیاتھا وہ نہ افغانستان کے علاقے تھے نہ ان پر پشتون آباد تھے ۔ یہ تو انگریز نے سابق سوویت یونین کے سرخ انقلاب کا راستہ روکنے کے لئے افغانستان کے کچھ علاقے فتح کرکے ان علاقوں کو عارضی طورپر بلوچستان کا حصہ قرار دیا ۔ لہذا ان علاقوں کے لئے برٹش بلوچستان کی اصطلاح کی بجائے ’’ برٹش افغانستان ‘‘ کی سیاسی اصطلاح بہتر رہے گی ۔