|

وقتِ اشاعت :   October 21 – 2013

وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچ مزاحمت کاروں سے تا حال کوئی رابطہ نہیں ہوا ۔ البتہ ہماری خواہش ہے کہ بلوچ عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میزپر لایا جائے اور معاملات و مسائل کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیاجائے کیونکہ یہ اکیسویں صدی ہے اور جمہوریت کی صدی ہے۔ خون خرابے کی بجائے معاملات و مسائل کو افہام و تفہیم کے ذریعے جمہوری انداز میں حل کیا جا سکتا ہے ۔ بندوق اور طاقت کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ پہلے سے یہ رائے قائم کر لینا درست نہیں کہ آئین کو نہ ماننے والوں کو مذاکرات کی میز پر نہیں لایا جا سکتا ۔ اگر ماضی کو دیکھیں تو ہمارے اکابرین و قائدین نے لڑائیاں بھی لڑی ہیں اور مذاکرات بھی کیے ہیں تو ہم مایوسی کیونکر اختیار کرلیں کہ مذاکرات نہیں ہوسکتے ۔ انہوں نے کہا کہ ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کے لئے مینڈیٹ دیا گیا ہے تاہم اس سلسلے میں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں مگر ہم نیک نیتی سے مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔اللہ کرے کہ وزیراعلیٰ کی یہ خواہش پوری ہو اور وہ تمام حقیقی بلوچ مزاحمت کاروں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں اور بلوچستان کے معاملات و مسائل افہام و تفہیم سے حل ہوجائیں ۔ بے شک یہ اکیسویں صدی ہے اور چاردانگ عالم میں جمہوریت کا بول بالا ہے ۔ خون خرابے سے مسائل حل ہونے ہوتے تو دس سال افغانستان کو خاک و خون میں نہلانے والے دنیا کے اکلوتے سپر پاور انکل سام آج طالبان کو مذاکرات کی پیش کش نہ کرتے ۔ دنیا کو جنگوں کے ذریعے اپنی انگلیوں پر نچانے والے امریکا نے بھی یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ مذاکرات ہی آخر کار جنگوں کے خاتمے کا واحد حل ہے ۔ اسی لئے اس نے طالبان کے مقید رہنماؤں کو رہا کرنے اور دنیا کے امن کو لاحق خطرہ قرار دئیے جانے والے طالبان کے لئے قطر میں دفتر قائم کرکے ان کو دنیا بھر سے سفارتی تعلق استوار کرنے کا گویا حق دے دیا ۔امریکا طالبان سے مذاکرات کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے تاکہ افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد اپنی محفوظ واپسی کو یقینی بناسکے لیکن بلوچستان میں بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کرنے کے حکومتی دعوے ہر دور میں کیے جاتے رہے اور اس موجودہ حکومت میں تو آئے روز ایسے بیانات اخبارات کی شہ سرخیوں کی صورت میں عوام کے سامنے آرہے ہیں مگر بر سر زمین اس حوالے تاحال کوئی اقدامات نظر نہیںآتے۔ ناراض بلوچوں کو ماضی کے تجربات کے پیش نظر ریاست اور اس کے اداروں پر اعتماد نہیں رہا ۔ اس اعتماد کو بحال کرنے کے لئے ریاست کو خاطر خواہ اقدامات اٹھانے ہونگے۔ ریاست کے پاس بلوچوں کا دل جیتنے کا موقع آواران میں آئے زلزلے کی صورت میں ہاتھ آیا تھا اب اس موقع سے کتنا فائدہ ریاست نے اٹھایا ،یا معاملہ اس کے بالکل برعکس گیا، یہ چند ہفتوں میں کھل جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ جتنے بھی بلوچ گرفتاریوں کے نام پر اغواء کرکے لا پتہ کیے گئے ہیں ،ان کی بازیابی کے لئے بھی اقدامات نہ صرف نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ ریاست اگر بلوچوں سے مذاکرات کرنے میں سنجیدہ ہے تو لا پتہ کیے گئے بلوچوں کی بازیابی کو یقینی بناتے ہوئے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں قائم لاپتہ بلوچ اسیران کی بازیابی کیمپ میں موجود ان کے لواحقین کو باور کرائے کہ ان کے لاپتہ پیارے اگر زندہ ہیں تو انہیں فوری بازیاب کیا جائے گا۔ اگر اس کیمپ کو ختم کرنے میں حکومت کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر کہا جا سکے گاکہ مذاکرات کی جانب پہلا قدم اٹھا لیا گیا ہے ۔ بلوچ علاقوں میں جتنے بھی وار لارڈز بنائے گئے ہیں ان سب کو جاری کردہ راہداریاں واپس لی جائیں اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے والوں کا تعین کرکے ان کا ٹرائل کیاجائے ۔