|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2013

کوئٹہ (رپورٹ/زیب بلوچ) بلوچستان حکومت کے لئے 2015ء تک شرح تعلیم میں 60فیصد اضافے کے عالمی ہدف کو پورا کرنا مشکل ہوگیا ، صوبے میں پانچ سال سے لیکر 16تک کے عمر کے 34بچوں میں 23لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے ، حکومت رواں مالی سال کے تعلیمی بجٹ میں اضافے کے بعد 3سونئے سرکاری اسکول تعمیر کرنے کے ساتھ ہر سال 2لاکھ بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے کا منصوبہ بنارہی ہے۔غیرسرکاری رپورٹس کے مطابق پاکستان سال 2015ء کے آخر تک شرح تعلیم میں 60فیصد اضافے کا پابند ہے مگر سب سے بڑے صوبہ بلوچستان میں ان اہداف کو پورا کرنا مشکل نظر آرہا ہے جس کی بنیادی وجہ غربت ، وسائل کی کمی اور بدامنی ہے جس کی وجہ سے اسکولوں میں داخلوں کی شرح بہت کم ہے خود سرکاری اعداد شمار بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں پانچ سال سے16سال کے کے عمروالے بچوں کی تعداد 34لاکھ ہے جن میں سے 23لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے اور یہ اعداد شمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں حکومت صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرے کیونکہ صوبے کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو علم کی زیور سے آراستہ کیا جائے ماضی میں بلوچستان میں برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے فروغ تعلیم کے لیے کوئی عملی کردار ادا نہیں کیا بلوچستان میں 52ہزار اساتذہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں مگر بدقسمتی سے گھوسٹ اساتذہ کی بھی بڑی تعداد ہیں جس کے وجہ سے نہ صرف بچوں کا مستقبل تباہ ہوا ہے بلکہ ایسے اساتذہ حکومتی خزانے پر بوجھ ہے ادھر محکمہ تعلیم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں رواں سال کے بجٹ میں 37فیصد اضافے کے بعد تین سو نئے اسکول قائم کرنے ، ہرسال دو لاکھ سے زائد بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے اور دو ہزار مزیداساتذہ بھرتی کرنے کا منصوبہ بھی بنایا ہے مگر ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے سے ہی عالمی اہداف کو مکمل کیا جاسکتا ہے ۔