|

وقتِ اشاعت :   February 2 – 2016

تصویر ایک ایسا مادہ ہے جو چیزوں کو اپنے اندر قید کر دیتا ہے۔ کچھ یادیں تو کچھ باتیں پھر کمال کرتے ہیں یہ فوٹوگرافر جو اسے اپنی فن کی مدد سے ایک عنوان سے بھرا تصویر بنا دیتے ہیں یہ انکی جدو جہد کا نتیجہ ہوتا ہے۔ قلمکار کی قلم ایسے لکھنا شروع نہیں کرتا۔

مقرر ایسے ہی بولنا شروع نہیں کرتا، فنکار ایسے ہی فنکاری دکھا نہیں سکتا یہ ان پر گزرے لمحات اور سموئے ہوئے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا ہے تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ فوٹوگرافی میں کمال نہیں آج کس کے پاس قلم نہیں آج کس کے پاس اسٹیج نہیں آج کس کے پاس کیمرہ نہیں تو بھلا تصویر تو بن جاتی ہے لیکن عنوان رہ جاتی ہے۔ آواز تو بن جاتی ہے لیکن سننے والے نہیں ہوتے۔ تحریر تو ہوا کرتے ہیں لیکن تاثیر ہوا نہیں کرتا۔ شامی بچے کی ایک ہی تصویر نے پوری دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا یہ اس فوٹوگرافر کا کمال تھا جس نے یہ عکس اپنے کیمرے کی آنکھ میں قید کر لیا۔

جب کیمرے نہیں ہوتے تھے تو لوگ کیا کرتے تھے پہلا سوال تو یہی اٹھتا ہے۔ پھر کیمرے کا خیال کیسے آیا۔ جب دنیا کے پاس کسی بھی شے کو عکس کی صورت میں بیان کرنا ہوتا تھا تو وہ قلم اور کاپی کا سہارا لیتا اور ایک تصویر بنانے میں اسے بے شمار وقت لگتا تھا۔ یا تو وہ تصویر شاہکار ہوتی تو مصور داد وصول کئے بنا نہیں رہ سکتا تھا لیکن جب وہی تصویر بگاڑ کا شکار ہوجاتا تھا تو وہ مصور کے ان لمحات کو بے کار ثابت کرنے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا تھا۔ یعنی یہ کام وقت بھی مانگتا تھا اور محنت بھی۔

کسی بھی اخبار کے لئے تصاویر اسکی جان ہوتی ہیں اسکی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں۔ پھر تو یہ فوٹوگرافر کا فن ہوتا ہے کہ وہ تصویر میں عنوان ڈدھونڈ لیتے ہیں پھر ریڈر کی نظر جب اخبار کے اس حصے پر پڑتی ہے جہاں تصویر جھلکتا ہوا نظر آتا ہے تو وہ بھی داد دیئے بنا نہیں رہ سکتاجدید ٹیکنالوجی نے الیکٹرانک میڈیا کا ایک نیا شکل معاشرے کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا جہاں پر حرکت کرتی ہوئی چیزیں دکھائی جاتی ہیں لیکن وہیں ایک فوٹوگرافر کی اپنی خوبی اور اسکے اندر قدرتی صلاحیت تصویر کی اہمیت کو کھونے نہیں دیتا۔

یہی وجہ ہے آج بھی اخبارات کا نصف حصہ تصاویر سے بھری ہوئی ہوتی ہے یعنی اخبار کے ساتھ لازم و ملزوم جز سمجھا جاتا ہے۔فوٹوگرافرز کبھی دل دہلا دینے والے واقعات کو تصویر کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں جس طرح شامی بچہ ایلان کی سمندر کے پاس پڑی لاش نے پوری دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ ویسے تو فوٹوگرافی کی اپنی تاریخ ہے۔ بلوچستان میں شاید اسکی کہانی اتنی پرانی نہ ہو۔

10007273_720510477981215_6677922405927251563_o

بلوچستان میں سب سے پہلے فوٹو اسٹوڈیو ہوا کرتے تھے۔ یہی فوٹو اسٹوڈیو اخبارات کی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔ بلوچستان میں فوٹو جرنلزم کا باقاعدہ آغاز سن 1972کو ہوا۔ جب روزنامہ جنگ نے بلوچستان میں اپنا آفس کھولا اور یہیں سے پرنٹ ایڈیشن کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ چونکہ اس دور میں پرفیشنل فوٹوگرافی کا رجحان نہیں تھا اور چیزیں صرف اسٹوڈیو کی حد تک محیط تھے۔

تو روزنامہ جنگ کو ایک پروفیشنل فوٹو گرافر کی ضرورت تھی جو اس ادارے کی تصویری ضروریات کو پورا کر سکے۔ جان باسکو ولیم جو کہ جنگ کی جانب سے فوٹوگرافی کرنے یہاں کوئٹہ آئے تو بلوچستان میں فوٹوجرنلزم کا باقاعدہ آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ جان باسکو ولیم اس سے پہلے 1969ء تک اپنا فوٹو اسٹوڈیو چلایا کرتے تھے۔

1970کو انہوں نے روزنامہ جنگ پنڈی کے لئے کام کرنا شروع کیا جو کہ اسکی فوٹوجرنلزم میں آمد کا پہلا سال تھا۔۔ انہوں نے فوٹوگرافی کی کیریئر کے دوران بہت سے قدآور شخصیات کی تصاویر کو اخبار کی زینت بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ملک کے بڑے نامور شخصیات کو قریب سے دیکھا۔ وہ 1997ء کو اپنی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے لیکن روزنامہ جنگ نے دوبارہ انکی خدمات حاصل کیں وہ آج بھی اس فن کا بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہیں اور جنگ اخبار کے لئے خوبصورت فوٹوگرافی کرتے نظر آتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’’ اس زمانے میں ڈارک روم ہوا کرتے تھے جہاں سے فوٹو کو ڈویلپ کیا جاتا تھا۔ یہ بڑا مشکل کام ہوا کرتا تھا۔ میں جب کوئٹہ آگیا تو مجھے صرف ایک مہینے کے لئے بلایا گیا تھا لیکن پھر اخبار کی ضرورت بن گیا تو ان سے جان چھڑا نہیں پایا۔ اس وقت یہاں کوئی فوٹو جرنلسٹ نہیں تھا۔ اخبارات کے ذرائع صرف فوٹو اسٹوڈیو تک محیط تھے۔

اس کام کا آغاز جنگ سے ہی ہوا‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی دور حکومتیں دیکھیں بنتے ہوئے اور ٹوٹتے ہوئے دیکھے۔ اپنے پیشے سے مخلص رہا۔ سردار عطاء اللہ مینگل کا دور حکومت تھا اور غوث بخش بزنجو جب بلوچستان کے گورنر تھے حالات بھی خراب تھے اس مشکل دور کی فوٹوگرافی کی۔ بلوچستان میں بم دھماکوں کی کوریج کی۔

بہت سے حادثات سامنے بھی پیش آئے انھیں بھی کیمرے کے اندر محفوظ کر لیا۔ خوشی کے لمحات کو بھی ۔ ذولفقار علی بھٹو جب عید کے موقع پر لاڑکانہ آتے تھے یا کوئی ڈیلیگیشن ان سے ملنے آتا تھا تو وہاں فوٹوگرافی کا موقع ملا۔ وہ موجودہ زمانے کا موازنہ سابقہ دور سے کرکے کہتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی نے تو تصویر کو انسان کی دسترس میں کر دیا۔

اب ہر ایک کے پاس موبائل ہے اور ہر کوئی فوٹو بنا سکتا ہے۔ اب تو اخبارات اور رسائل کے لئے بھی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ اب اس تصویر کو ایڈیٹ کرنا اور اخبار پر چڑھانا بھی آسان ہو گیا ہے۔ جبکہ اس زمانے 8mmکے کیمرے آتے تھے جنکا رزلٹ خاص نہیں ہوا کرتا تھا۔ بلیک اینڈ وائیٹ تصاویر ہوا کرتے تھے اس زمانے میں ڈارک روم میں سارا کام فوٹوگرافر کو خود کرنا پڑتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ یورپ میں تو ڈیجیٹل سسٹم کی فوٹوگرافی کئی زمانہ پہلے موجود تھا۔ جبکہ ہم نے اسکا استعمال یہاں 2002ء کو شروع کیا۔ولیم نے فوٹوجرنلزم کے دور میں بے شمار شاگرد بنائے یہ شاگرد آپکو روالپنڈی میں ملیں گے اور بلوچستان میں تو بہت ہیں۔

غالباً اس شعبے کے لئے انکے خدمات کو سراہنا چاہئے اور سب سے مزے کی بات یہ کہ انہوں نے بلوچستان کا کونہ کونہ دیکھا اسے کیمرے کے اندر محفوظ کر لیا لیکن اپنے پاس کچھ نہیں چھوڑا۔ اسکی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ تصاویر اخبار کی امانت تھیں جو اسے پہنچا دیں۔ اپنے پاس کچھ نہیں بچایا۔


10314569_869720173054264_306932708423884593_n

بنارس خان ایجنسی فرانس پریس سے وابسطہ ہیں اسکے ساتھ ساتھ وہ ایکسپریس اخبار کے لئے تصویری رپورٹنگ کرتے ہیں ۔ انکی صحافتی کیریئر 25سال پر محیط ہے۔ وہ فوٹو جرنلزم کے فیلڈ میں آنے سے پہلے ایک فوٹو اسٹوڈیو میں کام کیا کرتے تھے پھر شوق انہیں اس فیلڈ میں لایا۔ AFPکے ساتھ انکی وابستگی 2000ء سے ہے۔

انہوں نے تین مرتبہ افغانستان الیکشن کے دوران کئی حلقوں کی کوریج بھی کیے 2005کو کشمیر زلزلہ،2013کو آواران و ماشکیل زلزلہ ، 2010کو سیلاب کی کوریج کے علاوہ انہوں نے نواب اکبر بگٹی کی فوج کے ساتھ جنگ کو بھی کور کیا۔انکی ایک تصویری کتاب ’’ نواب بگٹی تاریخ کے آئینے میں ‘‘ بھی اس وقت شائع ہو گئی تھی۔

وہ فوٹو گرافی کی مشکل دور کو یاد کرکے کہتے ہیں ’’ اس وقت لوکل اخبار وں کے لیے تصاویر بلیک اینڈ وائٹ ہوا کرتے تھے۔تصویر کھینچنا پھر اسے ڈارک روم سے تیار کرنا پھر اخبار کے لئے دوبارہ محنت کرنا ایک مشکل کام ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں رول ہوا کرتے تھے جسکا حساب دینا پڑتا تھا اور فوٹوگرافر ایک تصویر کھینچتے ہوئے احتیاط سے کام لیتا تھا۔ پھر جب AFPکے ساتھ وابسطہ ہوا تو اسکو کلر تصاویر کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس وقت ٹیکنالوجی بھی ترقی نہیں کر گیا تھا تو یہی رول ہمیں PIAکے ذریعے اسلام آباد اور کراچی بھجوانا پڑتا تھا‘‘۔

بنارس خان اس دور کو سہولت کا دور سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اب ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ آپ چند سیکنڈوں کے اندر وہی تصویر دوسرے جگہوں میں بہت جلد بھجوا دیتے ہیں۔ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے فوٹوگرافی کے مقابلے میں انہوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ وہ سمجھتا ہے کہ نوجوانوں کو اس فیلڈ میں آنے کی ضرورت ہے اور انکے لئے اداروں کا قیام بھی ضروری ہے۔

بلوچستان کے حساس حالات اور فوٹو گرافر اپنی جانوں پر کھیل کر وہاں کی تصویر کشی کرتے ہیں کئی ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جن میں بلوچستان کے فوٹوگرافرز کو ہاتھ سے جان دھونا پڑا ہے۔

ان واقعات نے فوٹوگرافرز کے زہنوں پر بھی اثر ڈالے۔ دیگر ممالک میں فوٹوگرافرز کو انکی خدمات کے پیش نظر ایوارڈ بھی دیئے جا چکے ہیں جس طرح روسی صدر کی جانب سے وہاں کے پریس ایجنسی سے وابسطہ فوٹو گرافر آندرے آستن کو انکی خدمات کے پیش نظر بعد مرگ تمغے سے نوازا۔ تو کیا یہاں کے فوٹوگرافرز کو جو کہ واقعات کی کوریج کرتے ہیں انہیں کوئی ایوارڈ ملا ہے۔ کوئٹہ کے ایک اور سینیئر فوٹو جرنلسٹ ارشد بٹ کہتے ہیں کہ یہاں کے فوٹو جرنلسٹ کے ساتھ کوئی اظہار ہمدردی نہیں کرتا۔ فوٹو جرنلسٹ کے لئے کوئی مراعات مودجو نہیں ۔

ایک رپورٹر خبریں ٹیلیفون کے ذریعے حاصل کرتا ہے جبکہ فوٹوگرافر کو حادثے کے مقام پر جانا پڑتا ہے وہاں سے تصویر لینی پڑتی ہے پھر دنیا کو دکھانا پرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں کئی واقعات ایسے ہوئے کہ کہیں بم دھماکہ ہوئے۔

تو فوٹوگرافر وہاں کی کوریج کررہا ہوتا ہے کہ عین موقع پر دوسرا دھماکہ ہوگیا تو ایسے حادثات میں ہمارے کئی دوست شہید ہوئے لیکن حکومتی سطح پر نہ کہ دیگر اداروں کی جانب سے انکی بہادری اور خدمات پر انہیں اسکا صلہ مل گیا وہ کہتا ہے کہ فوٹو گرافرز جان ہتھیلی پر رکھ کر ایسے ایونٹ کو بھی کور کرتے ہیں جہاں واقعات ہونے کے چانسز بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

 
10417442_841151769250418_4814586459677811759_n

بلوچستان میں فوٹو جرنلسٹس کی ایک تنظیم فوٹو جرنلسٹس ایسو سی ایشن بھی قائم ہے جسکی سربراہی سینیئر فوٹو گرافر موسیٰ فرمان کر رہے ہیں۔ اس ایسوسی ایشن کے بنانے کا مقصد یہاں کے فوٹوگرافرز کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا تھا۔ وہ 1984سے فوٹو جرنلزم کے شعبے سے وابسطہ ہیں اور مختلف اخبارات میں کام کر چکے ہیں اس وقت انگریزی روزنامہ بلوچستان ایکسپریس کے ساتھ وابسطہ ہیں۔

وہ بلوچستان میں صحافتی تصویر کشی کے بارے میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں ’’ یقیناًیہاں جو پہلا آدمی جس نے فوٹو جرنلزم کا آغاز کیا وہ جان باسکو ولیم تھے جب میں نے کام شروع کیا تو ہم 6یا 7افراد تھے اب 16کے قریب فوٹوگرافرز ہیں جو مختلف اخبارات اور نیوز ایجنسیز کے ساتھ وابسطہ ہیں۔۔ اْس وقت اخبارات میں نعرہ حق، جنگ، میزان، زمانہ اور دیگر اخبارات تھے جو بلوچستان کی نمائندہ اخبار تھے ۔ میں نے شروع میں روزنامہ جنگ کو جوائن کیا اور مجھے وہاں کنٹریکٹ پر رکھا گیا‘‘۔

وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں ایک تو اخبارات کی تعداد اتنی نہیں دوسری یہاں ادارے نہیں جن سے سیکھ کر نوجوان وآگے آئیں آپ کراچی و لاہور جائیں تو وہاں اخبارات کی بڑی مارکیٹیں ہیں اور ہر اخبار کے دس دس فوٹو گرافر ہیں جبکہ یہاں معاملہ مختلف ہے۔

یہاں کی مارکیٹ چھوٹے پیمانے پر ہے جسکی وجہ سے یہ شعبہ وسعت نہیں کر گیا۔ پہلے پہل یہ ہوتا تھا کہ تصویر لیتے ہوئے بہت احتیاط کرنی پڑتی تھی تمام اینگل کا جائزہ لیکر وہ تصویر کھینچی جاتی تھی اب جبکہ جدید ٹیکنالوجی نے کام آسان کیا۔ اب ایک ہی سین کے 20شاٹ لے لیں تو کوئی قباحت نہیں۔

377243_317663054929719_1929158821_n

مظہر چانڈیو خود ایم اے جرنلزم کر چکے ہیں لکھنے کے بجائے وہ بھی فوٹوگرافی کے شعبے سے وابسطہ ہیں۔ 14سال سے اسی شعبے سے وابسطہ ہیں۔ وہ بنارس خان ، ارشد بٹ اور کراچی سے تعلق رکھنے والے اختر سومرو کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ وہ فیلڈ میں آنے کو اپنی شوق بتاتے ہیں ’’ شروع میں شوقیہ طور پر فوٹو گرافی کرتا تھا۔

پھر جب اخبارات میں تصاویر لگنے شروع ہوگئے تو حوصلہ افزائی ملی۔ یہاں بلوچستان میں اس فیلڈکے لئے باقاعدہ ادارے نہیں تھے سینیئر فوٹوگرافر سے بہت کچھ سیکھا۔ اسکے علاوہ پاکستان پریس فاؤنڈیشن PPF ، انڈویجول لینڈ کی جانب سے ٹریننگ میں حصہ لیا اور بہت کچھ سیکھا۔ لکھنے سے زیادہ فوٹوگرافی کا شوق رہا اور اسی شوق کو آگے بڑھاتا رہا۔اور آج اس فیلڈ میں اپنی جگہ پکی کر لی‘‘ ۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ یہاں کی فوٹوگرافی اور باہر ممالک کی فوٹوگرافی میں کتنا فرق ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہاں پر ابھی تک پرانا طریقہ کار پر عمل کیا جارہا ہے جبکہ باہر ممالک میں کیمرے کا معیار اور اسکا استعمال بہتر طریقے سے کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس شعبے کو مزید پروان چڑھانے کے لئے exhibition ہونے چاہئیں، یہاں اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے سینیئر فوٹو جرنلسٹوں کی خواہش ہے کہ تربیتی ادارے قائم کئے جائیں تو اس کام کے لئے بڑے پیمانے کی وسائل کی ضرورت ہے جو انکے پاس نہیں۔

نصیر احمد آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ وابسطہ ہیں۔ وہ اس شعبے سے وابستگی کو اپنا شوق قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات کے ساتھ کام کیا ہے۔ انکی اس فیلڈ سے وابستگی 10سال پر محیط ہے وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہمہ وقت کوشاں ہیں۔

بلوچستان کے حالات اور ان حالات میں ایک فوٹوگرافر کیا مشکلات سامنا کرتا ہے وہ اس حوالے سے کہتے ہیں ’’ میزان چوک اور سول ہسپتال میں دو خودکش حملے اپنے آنکھوں کے سامنے دیکھے اور انہیں کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔ یہ شعبہ رپورٹنگ کی طرح حساس بھی ہے۔ اس میں جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور یہی ہمارے چند دوستوں کے ساتھ ہوا جنہیں ہم نے کھو دیا‘‘۔

جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ ایک فوٹوگرافر کسی منظر کشی کرتے ہوئے دیکھتا ہے کہ کسی کے جان جانے کا خطرہ ہے تو وہ پہلے اسکا جان بچاتا ہے یا کہ اسکی تصویر کشی کرتا ہے۔

وہ کہتا کہ ایک مرتبہ ایسا ہی واقعہ ہوا تھا جب بم دھماکہ ہوا تھا تو ہو کا عالم تھا ہمارے صحافی برادری میں سے ایک زخمی ہوگئے تھے اسکی تصویر بہت بڑی خبر بن سکتی تھی تو پہلے میں نے اسکی تصویر کھینچی پھر اسکی جان بچائی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ مجھے سب سے پہلے اسکی مدد کرنی چاہئے تھی۔ نصیراحمد کو 2010ء میں رائٹرز کی جانب سے فوٹوآف دی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ تصویر کھینچتے ہوئے کہیں اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے تو کہیں نہیں تو اسی کے مطابق دیکھتے ہوئے تصویر لے لیتے ہیں اور خاص کر معاشرے کو مدنظر رکھتے ہوئے تصویر لے لیتے ہیں۔

1024px-Studijskifotoaparat

بلوچستان میں فوٹوگرافی کے شعبے میں نوجوانوں کے لئے کیا مواقع ہیں اور نوجوان کیا سوچ کر اس ادارے کو جوائن کرتا ہے۔ عدنان احمد ایک نوجوان فوٹوگرافر ہیں اور INPکے لئے کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ 2009ء کو اس فیلڈ کو جوائن کیا۔ اس سے پہلے شادی بیاہ کی فوٹو گرافی پر کام کرتا تھا۔فیلڈ میں کام کرتے ہوئے شروع میں کافی مشکلات تھے ۔

بم دھماکے، لاشیں، فائرنگ کو کور کرنا پورے زہن کو ماؤف کردنے والی بات ہوتی تھی لیکن اب عادی ہو چکے ہیں اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا وہ کہتے ہیں کہ کیمرے کو استعمال کرنے لئے سب سے اہم اسکی ٹولز کو سمجھنا ہوتا ہے کہ اسکی ٹولز کو کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان ڈور اور آؤٹ ڈور کے لئے الگ الگ ٹولز استعمال کئے جاتے ہیں جو کہ ایک عام آدمی جان نہیں پاتا۔’’جب اس فیلڈ میں آیا تو میں نے فیصلہ کیا کہ اچھاکرنا ہے اور محنت کرنا ہے کبھی پیسے کو نہیں دیکھا بلکہ کام کو دیکھا۔شروع میں بغیر تنخواہ کے کام کیا‘‘۔

عدنان احمد کو اسکی شوق نے خود کیمرہ خریدنے پر مجبور کیا اور یہ کیمرہ اسکا ہنر بھی ہے اور کمائی کا ذریعہ بھی۔ وہ کہتا ہے کہ نوجوانوں کے لئے ہر فیلڈ میں مواقع ہیں بشرطیکہ وہ محنت کرے۔ یہی ایک راز ہے جو اسے بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے۔ وہ آ ج کے الیکٹرانک میڈیا کے دور میں بھی تصویری جرنلزم کی اہمیت کو نمایاں سمجھتا ہے۔
یہ ان فوٹو جرنلسٹس کی کہانی ہے جو کہ کوئٹہ میں کام کر رہے ہیں۔ وسیع رقبے پر پھیلاہوا بلوچستان اور اس رقبے پر کام کرنے والے صحافی خود رپورٹر بھی ہے اور تصویر کشی بھی کرتاہے لیکن انکی تصویر کشی میں وہ معیار نہیں جو ایک اخبار کے معیار پر پورا اتر سکے۔ جو جو ادارے کام کر رہے ہیں انہیں چاہئے کہ ان علاقوں کے فوٹوگرافروں کے لئے ٹریننگ منعقد کروائیں تاکہ انہیں بھی ان ٹولز کا بہتر طور پر پتہ چل سکے۔