|

وقتِ اشاعت :   May 15 – 2016

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے حکومت کے شرائط پر تحقیقاتی کمیشن بنانے سے انکار کیا ہے اور اس کی مدلل وجوہات بھی بتائیں ہیں کہ کمیشن بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے۔ حکومتی شرائط اتنے وسیع ہیں جن کا احاطہ کرنا مشکل ہوگا اور اس کو سمیٹنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ یہ تمام باتیں بعض حزب اختلاف کی جماعتوں نے پہلے کہیں تھیں مگر حکومت اور حکومتی وزیروں نے ان کو ہدف تنقید بنایا تھا اور غیر ضروری طور پر رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ چیف جسٹس یا سپریم کورٹ نے حزب اختلاف کے خیالات کی توثیق کردی اور حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ پہلے مناسب قانون سازی کرے اور پھر ان لوگوں یا کمپنیوں کے نام بتائے جن کے خلاف تحقیقات کرنی ہے۔ سینکڑوں افراد کے خلاف تحقیقات ایک مخصوص مدت کے دوران مشکل امر ہے اس لئے چند لوگ اور خاندان چنے جائیں جن کے خلاف پہلے کارروائی ہو اور بعد میں دوسرے لوگوں کے خلاف۔ دوسرے الفاظ میں اس تحقیقاتی عمل کے دو مرحلے ہونے چاہئیں پہلے وزیراعظم اور ان کا خاندان جو اقتدار میں ہے اگر وہ مجرم ہے تو اس کو نہ صرف اقتدار سے ہٹایا جائے بلکہ اس کو گرفتار کرکے قانون کے مطابق سزا بھی دی جائے۔ وزیراعظم کو ہر حال میں اولیت دی جانی چاہئے دوسرے لوگ پاکستان کے عام شہری ہیں ان کے خلاف تحقیقات میں وقت درکار ہے تو وقت دیا جائے۔ مناسب وقت دیا جائے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ وہ سب پاکستان میں ہیں ان کے اثاثے یہیںپر ہیں ان میں سے ایک آدھ ہی ملک چھوڑ کر بھاگ سکتا ہے اسی لئے ان کو دوسرے مرحلے کی تحقیقات میں ڈالنا مناسب عمل ہوگا البتہ وزیراعظم اور اس کے خاندان کا احتساب فوراً شروع ہونا چاہئے کیونکہ وہ اقتدار میں ہیں اور انتظامیہ کے سربراہ بھی ہیں۔ اگر ان کے خلاف الزامات ثابت ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے سرکاری اختیارات کا غلط استعمال کرکے اربوں روپے بنائے ہیں تو اس کے بعد ان کا اقتدار میں رہنے کا اخلاقی اور قانونی جواز ختم ہوجاتا ہے۔ لہذا اس پر عدالت میں مقدمات چلانے چاہئیں وہ بھی فوری طور پر تاکہ وہ اپنے انتظامی اختیارات کا دوبارہ غلط استعمال نہ کرے اور مقدمات کے دوران ان پر اثر انداز نہ ہوں۔ جہاں تک ان کے دولت کمانے کا تعلق ہے اکثر یہی رائے ہے کہ پورے خاندان نے سرکاری اختیارات کا غلط استعمال کیا تھا۔ بعض لوگوں کا الزام ہے کہ خاندان کارخانے داروں کے لئے نئی مشنری کی درآمد میں بھی یہ لوگ ملوث ہیں کیونکہ انہوں نے بعض کارخانے داروں اور صنعت کاروں کی مدد کی تھی اور نئی مشینری کی درآمد کو اسکریپ ظاہر کیا تھا یعنی ناکارہ لوہا ہے۔ اس طرح سے ٹیکس کی چوری کی تھی اگر 1985کے بعد کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو یہ بات نواز شریف کے خلاف ثابت ہوجائے گی۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم اور اس کے خاندان کے خلاف ان الزامات کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ انہوں نے اسکریپ ڈیلر کے طو رپر صنعت کاروں کے لئے مشینری درآمد کی اور اس طرح سے ٹیکس کی چوری اور ذاتی دولت بنانے میں ملوث ہوئے۔ دوسرا الزام افسران کی تعیناتی پر کروڑوں اور اربوں روپے کی رشوت کا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے الزامات حزب اختلاف کی پارٹیوں نے لگائے ان سب کی پہلے تحقیقات ہونی چاہئیں کیونکہ وزیراعظم انتظامیہ کے سربراہ ہیں لہذا وہ مزید ملک کو نقصان نہ پہنچاسکیں ۔باقی لوگوں کے خلاف تحقیقات چلتی رہیں ۔ سول سوسائٹی ملک کے اقدار کا ضامن رہے گا، ادارے بھی پاکستان کو ایک خوشحال ملک بنانے میں تعاون کرتے رہیں گے سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ سیاست کو تجارت سے الگ کیا جائے یا سیاست کو عبادت کے طور پر اپنالیا جائے سیاست کو تجارت یا صنعت نہ بنایا جائے تو یہ پاکستان کی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔